جنوبی کوریا میں غرقاب ہونے والے مسافر بردار جہاز نے جب
ڈوبنا شروع کیا تو اس میں سوار مسافروں نے اپنے پیاروں کو دل دہلا دینے
والے ٹیکسٹ پیغامات بھیجے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق بدھ کو غرقاب ہونے والے اس جہاز پر 476 افراد
سوار تھے جن میں سے 300 کے قریب تاحال لاپتہ ہیں۔
|
|
آخری لمحات میں جہاز میں پھنسے افراد کی جانب سے بھیجے جانے والے ٹیکسٹ
پیغامات مقامی میڈیا پر نشر کیے گئے ہیں۔
جہاز میں سوار ایک طالب علم شن یوانگ جن نے اپنی والدہ کو پیغام بھیجا: ’ہو
سکتا ہے کہ میرے پاس آپ کو یہ کہنے کے لیے آخری موقع ہو کہ میں آپ سے پیار
کرتا ہوں۔‘
ان کی والدہ کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ان کے بیٹے کا جہاز ڈوب رہا ہے۔
انھوں نے جواب میں اپنے بیٹے کو ٹیکسٹ پیغام بھیجا: ’بیٹے مجھے بھی تم سے
پیار ہے۔‘
مقامی میڈیا کے مطابق شن یوانگ بحری جہاز سے محفوظ مقام پر منتقل کیے جانے
والے 179افراد میں شامل ہیں تاہم ابھی تک ایسے والدین بھی ہیں جنھیں اپنے
بچوں کے ٹیکسٹ پیغامات ملے اور ابھی تک وہ لاپتہ ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جہاز پر سوار ایک طالبہ نے
اپنے والد کو یہ ٹیکسٹ پیغام بھیجا۔
طالبہ: والد آپ فکر نہ کریں میں نے جان بچانے والی جیکٹ پہن رکھی ہے اور
میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ ہوں۔
والد: مجھے معلوم ہے کہ اس وقت امدادی کارروائیاں جاری ہیں، کیا تم باہر
نکل کر تختے والی منزل پر انتطار نہیں کر سکتی؟ کوشش کرو کہ یہاں سے باہر
نکل جاؤ۔
طالبہ: جہاز بہت زیادہ جھک گیا ہے اور باہر نکلنے کے راستے میں بہت زیادہ
لوگ ہیں۔
اس کے علاوہ ایک طالب علم کے اپنے بڑے بھائی کو بھیجے جانے والے ٹیکسٹ
پیغامات کو مقامی ذرائع ابلاغ میں نمایاں جگہ دی گئی ہے۔
طالب علم: جہاز کسی چیز سے ٹکرا گیا ہے اور سمندری محافظ ابھی ابھی پہنچے
ہیں۔
بھائی: خوفزدہ نہ ہونا اور صرف وہی کرنا جو تم سے کرنے کے لیے کہا گیا ہے
اور پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔
|
|
اس کے بعد دونوں کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔
اس کے علاوہ کچھ والدین حادثے کے بعد اپنے بچوں کے ساتھ اس وقت تک موبائل
فون پر رابطے میں رہے جب تک لائنیں منقطع نہیں ہو گئیں۔
پارک یو شن کی بیٹی لاپتہ ہیں اور انھوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اپنی
بیٹی کے ساتھ بات کر رہی تھیں اور اس دوران ان کی بیٹی ہنگامی حالات سے نمٹ
رہی تھی:
’اس نے مجھے بتایا کہ ہم لوگ حفاظتی جیکٹ پہن رہے ہیں، انھوں نے ہمیں کہا
کہ یہاں رکیں، ہم یہاں انتظار کر رہے ہیں، میں ایک ہیلی کاپٹر دیکھ سکتی
ہوں۔‘
بحری جہاز پر سوار مسافروں میں زیادہ تر سیکنڈری سکول کے طلبہ تھے اور
حادثے میں بچ جانے والوں نے ایسی ہی خراب صورتحال بیان کی ہے۔
حادثے میں بچ جانے والے کم سانگ مک نے بتایا کہ ’پہلے بہت ہی بلند آواز
سنائی دی اور اس کے بعد جہاز نے ایک جانب جھکنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد
لوگوں نے اوپر والے عرشے پر جانے کی کوشش شروع کی لیکن وہاں جانا مشکل تھا
کیونکہ عرشہ جھک چکا تھا۔‘
طالب علم لیئم ہوانگ میم نے حفاظی جیکٹ پہننے کے بعد اپنے دیگر نوجوان
ساتھیوں کے ساتھ جہاز سے سمندر میں چھلانگ لگا دی اور تیر کر قریبی امدادی
کشتی تک پہنچ گئے۔
انھوں نے کہا: ’جب جہاز ہچکولے لے رہا تھا اور ایک جانب جھک رہا تھا تو لوگ
ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے اور اس میں کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ جب میں
نے سمندر میں چھلانگ لگائی، پانی بہت سرد تھا، لیکن میں جلدی میں تھا
کیونکہ میں زندہ رہنا چاہتا تھا۔‘ |