حضرت آدم ؑ اﷲ کی حدود کی پاسداری نہ ر کھ سکے اور اُن کو
جو کام کرنے سے منع کیا گیا تھا آپؑ سے وہی کام سرزد ہو گیا۔’’غلطی کرنا
انسان کا کام اور معاف کر نا ر حمان کا کام ‘‘ یہ محاورہ بھی اُسی دن وجود
میں آ گیا جب رحمان نے انسان کے پہلے گناہ کو معاف کیا۔حضرت آدم ؑ جب اﷲ
تعالیٰ کی آزمائش میں ناکام ہوئے تو اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑکواور
اولادِآدم ؑ کوایک اور آزمائش میں ڈالنے کا فیصلہ کیا۔مگر ایک دلچسپ پہلو
کی وضاحت ساتھ ہی کر نا مناسب خیال کروں گاکہ ازل سے لے کر اب تک اور اس کے
بعد بھی میرے اعتقاد کے مطابق اﷲ کی رحمت ہمیشہ آدم ؑ اور اولادِ آدم کے
ساتھ رہی اور رہے گی۔اﷲ تعالیٰ نے جب آدم ؑ کو زمین پر اُتر جانے کا حکم د
یا تواُس کے ساتھ ہی ارشاد ہو ا کہ میری ہدایت (پیغام) تم تک آئے گی تو جو
کو ئی میری ہدایت (رہنمائی،پیغام) پائے اُس پر لازم ہے کہ وہ اُس کی پیروی
کر ے تو جو کو ئی پیروی کر ے گا اُسے کو ئی رنج و غم نہ ہو گا۔میں یہاں ایک
اور بات کی وضاحت کر تا چلوں کہ دیگر اہل کتاب کی طرح مسلمانوں کی بھی ایک
کثیر تعداد کا یہی عقیدہ ہے کہ آدم ؑ کو جنت سے غلطی کی پاداش میں سزا کے
طور پر زمین پر بھیجا گیا ۔یہ عقیدہ سرا سر غلط اور من گھڑت ہے۔یہ اﷲ کی
شان اور فرمان دونوں کے خلاف ہے ۔کیونکہ جزا کے لیے جنت،سزا کے لیے دوزخ
اور آزمائش کے لیے زمین (دنیا) ہے۔ایک آزمائش میں ناکامی کے بعد اﷲ تعالیٰ
نے آدمؑ کو ایک دوسری آزمائش ڈ الا تاکہ دیکھا جائے اور دیکھا یا جا ئے کہ
گناہوں کے داغ ندامت و انکساری کے آنسوں سے ہی دھولتے ہیں۔میری نظروں کے
سامنے ایسے مفسرین کی تحریریں بھی گزریں ہیں جنہوں نے قصہ آدمؑ کو ایک
تمثیلی قصہ کہا ہے جس کا مقصد آسان اور عام فہم انداز میں انسانوں کو اﷲ
تعالیٰ کا قرب حاصل کر نے اور ابلیس کے شر سے محفوظ ر ہنے اور خطا کے بعد
توبہ کی اہمیت سمجھا نا ہے۔بہر حال یہ ایک الگ موضوع اور الگ بحث ہے۔وہ ہدا
یت جس کا ذکر سورۃالبقرا کی آیات نمبر۳۸ میں ہے،اس ہدایت کا سلسلہ آدم ؑ سے
شروع ہوا ۔اس ہدایت ر بانی کی دو اقسام ہیں ،ایک مبہم(غیر واضح )اور دوسری
غیر مبہم(واضح)۔غیر مبہم وحی(پیغام) اﷲ تعالیٰ اپنے منتخب بندوں کے ذریعے
نوع انسانی تک پہنچاتا ر ہا اور اﷲ کے یہ نیک(پیغمبر) بندے ہو بہو یہ پیغام
عام لو گوں تک پہنچاتے ر ہے۔یہ پیغام صحیفوں کی شکل میں آیا،یہ پیغام
زبور،تورات،انجیل اور آخر میں ان تمام پیغامات کا انسا ئیکلوپیڈیا قرآن ِ
پاک کی شکل میں ہم تک پہنچا۔جوں جوں انسان شعور و ارتقا کی منزلیں طے کر تا
گیا،توں توں پیغام الہی بھی بلیغ و فصیح ہو تا گیا۔قرآن کی تکمیل کے ساتھ
ہی غیر مبہم وحی(پیغام) کو حتمی ہو نا تھا،جس طرح یہ پیغام لا ثانی و بے
مثال تھا ،اسی طرح اس کو موثر انداز میں نوع بشر تک اس انداز سے پہنچانا
مقصود تھا کہ یہ انسانیت کے جینز میں کوڈ کی حیثیت سے نقش ہو کر رہ جائے۔اﷲ
تعالیٰ نے جس پیغمبر کا انتخاب کیا وہ بھی اس کلام کی طرح چلتا پھرتا معجزہ
ہے۔جس طرح سارے علوم سمٹ کر قرآن مجید میں آ گئے اسی طرح سارے اخلاق سمٹ کر
دامنِ مصطفٰے ﷺ میں آ گئے۔آج بھی قرآن پاک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس جیسی
کتاب کوئی بشر نہ لکھ سکا اور محمد ﷺ جیسا اخلاق کو ئی پیش نہ کر سکا۔قرآن
پاک کی ہدایت کو رد یا نامکمل کہہ کر مزید ہدایت کی طلب یاتلاش ایسی ہی سعی
ہے جیسے ،کسی زندہ شخص کو قتل کر کے دوبارہ زندہ کر نے کی ناکام کوشش کر
نا۔میرا ایمان ہے کہ تکمیل قرآن و دین اسلام کے بعد اب واضح ہدایت کی مزید
کو ئی گُنجائش نہیں ،ہاں البتہ انسانی خصلت میں جو اﷲ تعالیٰ نے خیر اور شر
کا جو مادہ ر کھا ہے اُس کو مسلسل یادہانی کی ضرورت ہے ،اور اﷲ نے وہ ضرورت
مبہم و حی کے ذریعے پوری کر دی ۔مبہم وحی در حقیقت اﷲ تعالیٰ کا پیغام ہے
جو وہ انسانوں تک ہر روز پہنچاتا ر ہتا ہے ۔کچھ لوگ ان اشاروں کو بہت ہی
سنجیدگی اور نگاہے مردِ مومن سے دیکھتے اور سمجھ لیتے ہیں یہ ہی لوگ پھر
مفکر و عالم بنتے ہیں ان کی زباں سے نکلنے والا ایک ایک لفظ اُلجھنوں کو
سُلجھاتا چلا جاتا ہے۔بغیر سوال کیے ہی اُن سوالوں کے جواب ملنے لگتے ہیں
جن کے جوابوں کی تلاش انسان کے شبُ و روز کے قرار کو دیمک کی طرح چاٹ لیتی
ہے۔کچھ لوگ ان اشاروں سے سہم جاتے ہیں ،اور دنیا جہاں کی لذتوں کو خیر باد
کہہ کر جنگلوں اور ویرانوں میں گوشہ نشین ہو جا تے ہیں ۔کچھ لوگ ان اشاروں
کی تاب نہیں لا سکتے اور بہک جا تے ہیں ،وہ خود کو نبی اور رسول سمجھنے اور
کہنے لگتے ہیں ۔یہ بد قسمت خو د تو جہنم کا ایندھن بنتے ہیں ساتھ دوسروں کو
بھی راہی جہنم کر تے ہیں۔لوگوں کی ایک کثیر تعداد اِن پیغامات کو آئی گئی
کر د یتی ہے۔ہمیں معلوم ہے کہ ایسا کو ئی کاروبار نہیں جس سے رقم ایک ہفتے
میں بغیر کسی مشقت کے گھر بیٹھے ڈبل ہو جا ئے مگر اس کے باوجود ہم ڈبل شاہ
کے ہتھے چڑھ جا تے ہیں ۔اس فراڈ کے بعد بھی ہمیں کسی نہ کسی صورت میں کسی
ڈبل شاہ کی تلاش ر ہتی ہے۔تیز رفتاری اور لا پر واہی سے ہم جان لیو حادثے
سے بال بال بچتے ہیں مگر پھر بھی ہم احتیاط نہیں کر تے ۔ہمیں بُرے اور
ڈراؤنے خواب آتے ہیں مگر ہم راہ راست کی طرف نہیں لو ٹتے۔ہم ہر روز کسی نہ
کسی مصیبت اور پریشانی میں ر ہتے ہیں مگر ا پنے اعمال اور کو تاہیوں کی
درستگی نہیں کر تے بلکہ یہ کہہ کر آگے چل پڑتے ہیں کہ مصیبتیں اور سختیاں
اﷲ کے نیک بندوں پر آتی ر ہتی ہیں ۔ہم رزق کی تنگی کا رونا ر وتے ہیں مگر
اپنے گھر کی چھت کے نیچے ہو نے والی نا انصافی کا سدِباب نہیں کر تے۔اچھے
لوگ ایک ایک کر کے ہم سے کنارہ کش ہو تے جا تے ہیں اور اس کی جگہ چاپلوس
اور منافق ہمارے گرد گھیرا تنگ کر تے جا تے ہیں مگر ہم قدرت کے اس پیغام کو
پڑھنے سے قاصر ر ہتے ہیں ۔بات بیٹیوں کے رشتوں کی ہو ،کاروبار کی ہو،گھر
میں بے سکونی وخانہ جنگی کی ہو،اولاد کی نافرمانی کی ہو، کُند ذہنی کی
ہو،بیماری کی ہو، ہم ان تمام مسائل کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں ۔یہ
دوسرے کسی بھی روپ میں ہو سکتے ہیں ۔ در حقیقت اﷲ تعالیٰ ہمیں غفلت کی نیند
سے بیدار کر نا چاہتا ہے مگر ہم روز بروز گمراہی کی اتہا ہ گہر ائی میں
گرتے جا تے ہیں ۔ہم کالے اور سفید جادو کر نے والوں کے ہتھے چڑھ کر مزید
زندگی اجیرن کر لیتے ہیں ۔دنیا میں جتنی بھی آسائشیں آئیں ہیں وہ سب غریب
مفلس، محکوم اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں کے ذہنوں کی پیدا وار ہے۔ بس انہوں نے
اﷲ کے اشارے (پیغام) کو سمجھ لیا اور سنبھل گئے۔اﷲ تعالیٰ ہمیں ان اشارواں
(پیغام )کو سمجھ کر راہ راست کی طرف رجوع کر نے کی تو فیق دے۔(آمین)
زندگی کے دکھوں سے بے حال تھے
جو غور کیا تو ا پنے ہی اعمال تھے |