برازیلی مسلم اقلیت۔۔جنریشن گیپ

غیر مسلم ممالک میں بسنے والی مسلم اقلیتوں کی طرف عالم اسلام کی فوری توجہ کی ضرورت ہے، ورنہ اقلیتیں غیر مسلم اکثریت میں ضم ہوکررہ جائیں گی، اور ان کی اسلامی تہذیب و تمدن غیر مسلموں کی تہذیب وتمدن کے سیلاب میں بہہ جائیں گی۔ ان مسلم اقلیتوں کی پرانی نسلوں نے ایک زمانے تک اپنے عقائد و روایات کا تحفظ کیا ہے۔ لیکن نئی نسلیں جنہوں نے غیر مسلم معاشرے میں پرورش پائی ہے، اور اسی ماحول میں پروان چڑھے، قریب ہے کہ اپنے آبائی دین اور اپنے عقائد وروایات سے منحرف ہوجائیں ، اور ممکن ہے کہ دین حنیف کو عملی طور پر بھی پس پشت ڈالیں۔

لہٰذا اس سے قبل کہ وہ اسلام سے مزید منحرف ہوں، ان میں اسلامی شعور اجاگر کرنے کے لئے مسلمانوں کو ان کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ ساتھ ساتھ اس کی بھی ضرورت ہے کہ یہ اقلیتیں عملی طورپر میدان میں اپنی بقاء کا تحفظ کرسکیں۔ عالم اسلام پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ مسلم ماحول سے دور اِن مسلم اقلیتوں کے لئے ایک ایسا لائحہ عمل مرتب کرنے میں ان کی مدد کریں جس کے ذریعے ان کو درپیش مشکلات، نئے نئے پیش آنے والے مسائل باآسانی حل ہوسکیں۔ اور ان کی نئی نسل کو الحاد اور بے دینی کے پنجوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔ اﷲ تعالیٰ سے مدد اور قرآن کریم سے ہدایت مانگتے ہوئے اب مسلمانوں کو اپنی جدوجہد شروع کردینے میں ذرا تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک روشن چیز آئی ہے، اور ایک کتاب واضح کہ اس کے ذریعے سے اﷲ ایسے شخصوں کو جو رضائے حق کے طالب ہوں، سلامتی کی راہیں بتلاتے ہیں، اور ان کو اپنی توفیق سے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آتے ہیں اور ان کو راہ راست پر قائم رکھتے ہیں۔ (مائدہ: ۱۶۱)

ان مسلم اقلیتوں میں سے برازیل کی مسلم اقلیت کے احوال اور انہیں درپیش مشکلات و ضروریات کا یہاں ہم کچھ تذکرہ کریں گے، ممکن ہے دوسرے غیر مسلم ممالک میں بسنے والی مسلم اقلیتوں کے حالات بھی انہی جیسے ہوں۔

بہرحال برازیل میں بسنے والی مسلم اقلیت سے متعلق ان کے تاریخی پس منظر، موجودہ حالات اور دینی تعلیم کے وسائل کا ذکر کسی قدر تفصیل کے ساتھ ہوگا۔

تاریخی پس منظر
یہ مسلم اقلیت جو دراصل تارکین وطن ہیں، اپنے معاشی حالات کو سنوارنے کی غرض سے برازیل میں آکرآباد ہوئی تھی، ان میں سے اکثر سوریا اور لبنان سے خلافت عثمانیہ کے دور میں پچھلی صدی کے اواخر سے یہاں آباد ہوئے، جب کہ ان کی تعداد اس صدی کے اوائل تک بڑھتی رہی۔ پھر گزشتہ چند سالوں میں فلسطین اور دوسرے ممالک سے بھی کچھ لوگوں نے یہاں ہجرت کی اور آج یہ سب کے سب برازیل میں ایک مسلم اقلیت کی شکل اختیارکرگئے ہیں۔

برازیل کا رقبہ تقریباً ساڑھے آٹھ ملین مربع کلومیٹر ہے، اس وقت برازیل کی کل آبادی ۱۳۰ ملین ہے۔ یہاں کا سرکاری مذہب عیسائیت ہے جب کہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے بھی یہاں بڑی تعداد میں بستے ہیں۔ ابتداء میں یہاں کے مسلمانوں نے اپنی قدیم روایات کا بخوبی تحفظ کیا، لیکن ان کا دور دراز شہروں میں قیام، بامشقت کسب معاش اور وطن جدید میں اسلامی ماحول کا فقدان، یہ عوامل ان کی اپنی تربیت میں زبردست انحطاط کا باعث ہوئے۔ دوسری طرف یہاں کے جدید اور بے دین ماحول نے مسلمانوں کی اولاد پر اثر انداز ہونا شروع کیا اور انہیں اپنے ماحول میں خلط ملط کردیا۔ یہ عوامل اسلام سے بُعد اور لاتعلقی کی اولین وجہ ثابت ہوئے۔ اس سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ نئی نسل کے برخلاف پرانی نسل کا دینی عقیدہ قوی اور راسخ تھا اور یہ فرق صرف دین تک محدود نہیں بلکہ عربی زبان میں بھی ظاہر ہوا۔ پرانی نسلیں آپس میں عربی زبان استعمال کرتی تھیں جب کہ بعد والوں اور اس ارض جدیدہ میں تربیت پانے والے آپس میں پرتگالی زبان استعمال کرنے لگے۔ اس لئے اکثر اوقات یوں ہوتا کہ والدین اولاد سے عربی میں بات کرتے اور وہ پرتگالی میں جواب دیتے۔ وہ عربی سمجھتے تو تھے مگر اس میں گفتگو کرنے میں انہیں دِقت ہوتی تھی۔ اب معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ نئی نسل کے مسلمانوں کی اکثریت عربی میں نہ باتیں کرسکتی ہے اور نہ سمجھ سکتی ہے۔ اولاد اور والدین کے درمیان بڑھتا ہوا یہ فاصلہ (Generation Gap)فکر و نظر اور عمل میں فرق پیدا کرنے کا سبب بھی بن گیا۔ بلکہ اگر اس فاصلہ کو قدیم اور جدید کا بُعد المشرقین کہا جائے تو بعید نہ ہوگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ بڑے معاشرے کا چھوٹے معاشرے پر غالب ہوجانے کامنطقی نتیجہ ہے۔ کیونکہ اقلیت اگر اپنے تشخص کی سخت حفاظت کا بندوبست نہ کریں تو اکثریت کے ذیل میں طوعاً یا کرھاً کچل جایا ہی کرتی ہے۔

برازیل میں پردیسیوں نے کسبِ معاش کے لئے ہر قسم کے طریقے اختیار کررکھے ہیں۔ ابتدا میں تو ان کی سرگرمی زیادہ تر تجارت کی جانب رہتی تھی، خصوصاً پھیری لگا کر اشیاء فروخت کرنا، اپنے کاندھوں پر سامان لئے ہوئے یہ لوگ میلوں کا سفر کیا کرتے تھے۔ البتہ اب ان کے حالات قدرے بہتر ہوئے ہیں، کیونکہ برازیل کے اکثر شہروں میں انہوں نے کچھ نہ کچھ کاروبار شروع کردیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی نئی نسل نے تجارتی معاملات میں بہت سی تبدیلیاں بھی پیدا کرلی ہیں۔ حتی کہ بعض نے کپڑوں کے کارخانے اور فیکٹریاں قائم کرلی ہیں اور عیش و تنعم کی زندگی گزارنے لگے ہیں۔ آج کل مسلمانوں کی تیسری نسل کی اکثریت تعلیم کی طرف مائل ہے جس کی وجہ سے ان میں تعلیم یافتہ طبقہ بھی وجود میں آیا ہے۔ بعض نے اس بنیاد پر سرکاری ملازمتیں اختیار کرلی ہیں۔ جب کہ بعض مسلمانوں کا شمار ماہر وکلاء، اطباء، اساتذہ، انجینئرز میں ہوتا ہے۔

اس وقت ’’سان باؤلو‘‘ کی ریاست میں عموماً اور ’’سان باؤلو‘‘ کے شہر میں خصوصاً مسلمانوں کی ایک کثیرتعداد آباد ہے۔ گو کہ ان کی صحیح تعداد معلوم نہیں لیکن تخمیناً ان کی تعداد پانچ دس لاکھ کے درمیان ہوگی۔ یہاں کے مسلمان ہرمیدان میں دوسروں کے برابر ہیں، اور ایک دوسرے کے ساتھ مکمل معاونت کرتے ہیں۔

اب ہم پرانی اور نئی نسل میں فاصلہ، بُعد اور دوری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے موجودہ حالات کی تفصیل میں جاتے ہیں: اس بُعد کا اصل سبب دو مختلف نظریات (قدامت پسندی اور جدت پسندی) کا پیدا ہونا ہے۔ نئی نسل میں پیدا ہونے والی نظرئیے کی اس خطرناک تبدیلی کی وجہ سے والدین اپنی اولاد کے دینی مستقبل کے بارے میں نہایت فکرمند ہیں۔ انہیں اس کا احساس ہورہا ہے کہ ان کی اولاد کا جدید طرزِ زندگی اختیار کرنے کا اصل سبب دینی تعلیم وتربیت کا فقدان ہے۔ اس کے ازالے کے لئے انہوں نے ضرورت محسوس کی کہ دین کی دعوت کو عام کرنے کے لئے مساجد قائم کی جائیں، لوگوں کی اصلاح کے لئے منظم ہوکر کوشش کی جائے اور دینی وعربی تعلیم کے لئے مدارس کھولے جائیں۔ یہ فکر واحساس مسلمانوں کا اپنے دین کی طرف پہلا قدم تھا۔

’’سان باؤلو‘‘ کے مسلمانوں نے اس فکر کو عملی جامہ پہنانے کا عزم کیا پھر دوسری ریاستوں کی مسلم آبادیوں میں عموماً اور ریاست (باران) میں خصوصاً یہ فکر واحساس منتقل ہوتا رہا، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض مسلم آبادیاں خصوصاً شمالی برازیل اب تک اس سے محروم ہے۔ پہلی اور دوسری نسل اپنے عقیدے کے تحفظ کی محدود سطح پر کوشش کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے بڑی کوششوں اور جدوجہد کے بعد سان باؤلو میں ایک مسجدتعمیر کی۔ اس مسجد کے لئے زمین ۱۹۲۵ء میں خریدی گئی اور اس کا سنگ بنیاد ۱۹۴۸ء میں رکھا گیا۔ جب کہ تکمیل ۱۹۶۰ء میں ہوئی۔ اس مسجد کی تعمیر کے بعد اﷲ کے فضل وکرم سے برازیل کی مسلم اقلیت کے دینی حالات بہتر ہونے لگے ہیں اور ان میں اس سے زیادہ دینی کام کا جذبہ پیدا ہوا تو انہوں نے ایک دینی مدرسہ کی تعمیر شروع کردی۔ پھر (الجمعیۃ الخیریۃ الإسلامیۃ کویت) نے حکومت سے مسلمانوں کے لئے مستقل قبرستان کی جگہ الاٹ کرائی ہے۔ اس کے بعد دینی جذبات برازیل کے تمام مسلمانوں میں ابھرنے لگے۔ بہت سی مساجد اور انجمنیں قائم ہوئیں۔ ابھی حال میں کولایئتیا، بازنجواہ اور لندرینا میں بھی مساجد قائم ہوئیں ہیں۔ جب کہ گزشتہ سالوں میں برازیلیا، سان میغیل، جذیانی، بریتوس، غوارویوس، سنتوس، ریودی جائر، سان برناردوی کامیوس میں مسجدیں قائم ہوئی تھیں۔

یہ تو مساجد کا سلسلہ تھا، رہا دینی مدارس کا قیام تو ۱۹۶۰ء کے اوائل میں فیلد کارون شہر میں پہلا دینی مدرسہ قائم ہوا۔ اس شہر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، مدرسہ تو قائم ہوا لیکن مسلمان بچوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک مدرسہ ان کے لئے ناکافی رہا۔ دوسرا مدرسہ کورینیا میں قائم کیا گیا۔ دینی وعربی تعلیم کے حصول کے لئے بہت سے علاقوں میں کوچنگ سینٹرز کا بھی اہتمام کیا گیا۔ مگر امیدیں نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئیں۔ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض اسلامی ممالک نے بھی مبلغین کو بھیج کر اور کتابیں اور نقد رقوم ارسال کرکے برازیل کے مسلمانوں کی کافی مدد کی ہے۔

تعلیم
دینی تعلیم اور عربی زبان کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے مستقبل کے لئے کوئی اچھی امید وابستہ نہیں کی جاسکتی۔ مگراس میں مسلمانوں کی کوتاہی کا زیادہ دخل نہیں۔ بلکہ تحصیل علم کے لئے مناسب عوامل کا فقدان اس کا بڑا سبب ہے۔ اگر ہم ’’سان باؤلو‘‘ میں رہنے والے بچوں کو کئی ہزار فرض کرلیں تو انہیں عربی ودینی تعلیم والے چند سے زائد نہ ہوں گے۔ اگر ہم ذرا غور وفکر کریں اور ان غیر مناسب عوامل میں ماہر اساتذہ کی قلت، جدید طریقۂ تعلیم کے لئے وسائل کا فقدان اور بچوں کی سوچ وشوق کے مناسب کتابوں کی عدم دستیابی کو بھی شمار کرلیں توعدم مطابقت کے اس ماحول میں مسلمان بچوں کی دینی تعلیم میں حائل رکاوٹیں صاف نظر آجائیں گی اور اس کا اندازہ بھی ہوجائے گا کہ مسلمانوں کی نئی نسل کی دینی وعربی تعلیم کا کتنا نقصان ہورہا ہے، میرے خیال میں اس سلسلے میں چند اِقدامات کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔

قیام مدارس
کچھ عوامل کا تو ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں۔ مثلاً جدید وسائل تعلیم، ماہر اساتذہ اور ذوق وشوق کی کتابوں کی عدم دستیابی وغیرہ۔ انہی عدم دستیاب وسائل میں سے مدارس دینیہ ہیں۔ اسے قائم کرکے اس میں دینی تعلیم وتربیت ہو جسے مسلمانوں کی دینی وثقافتی حاجات پوری ہوسکیں۔ ورنہ دور دراز علاقوں میں بسنے والے مسلمان دینی ومذہبی تعلیم سے محروم رہ جائیں گے۔

مبلغین
ضروری ہے کہ اسلامی ممالک میں چند اِیسے ادارے قائم کئے جائیں جن میں غیر مسلم ممالک کے لئے مبلغین کی خصوصی تعلیم کا انتظام ہو۔ ان مبلغین کو ایسے شہروں میں بھیجا جائے جہاں کی زبان میں یہ مبلغ مہارت رکھتے ہوں۔ تاکہ وہ آسانی سے اور مؤثر طریقے سے مقامی طلبہ کو ان کی زبانوں میں تعلیم دے سکیں۔ اسی طرح انہیں مختلف مذاہب کا مطالعہ کرایا جائے۔ تاکہ وہ اسلام کے خلاف باطل خیالات کو مضبوط دلائل سے رد کرسکیں۔ بلکہ بہتر یہ ہوگا کہ ان اداروں کے لئے مسلم اقلیتوں کے نوجوانوں کا انتخاب کیاجائے، تاکہ وہ اپنی ملکی زبان پر مکمل عبور حاصل ہونے کی وجہ سے ممکن ہے کہ وہ خود کو دینی تعلیم کی تحصیل کے لئے فارغ کرلیں اور پھر اپنے ملک میں جاکر دین کی دعوت اور تعلیم وتربیت کے لئے باقاعدہ جدوجہد کریں۔

ذرائع ابلاغ
دینی تہذیب و ثقافت کی اشاعت کے لئے ذرائع ابلاغ بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں اقلیتِ مسلمہ کے لئے مخصوص اخبارات ،رسائل اور جریدوں کی ضرورت ہے، جن میں ان کے حالات ،ملی وحدت کی تبلیغ اور ان کے دینی شعور وجذبات کا اظہار ہو۔ چند مخصوص رسائل ایسے ہوں جن میں مسائل شرعیہ کی تفصیل اور اسلام کی بنیادی باتوں کی وضاحت ہو۔ اسی طرح غلط اور باطل افواہوں ، انفارمیشن اور پروپیگنڈوں کا توڑ ہوسکے۔ شریعت محمدیؐ کے حق ہونے کو ثابت کیا جاسکے اور بنیادی تعمیر کے ساتھ ہر فرد کی فکری وعملی رہنمائی کی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رہنمائی آپس میں تعلق اور مضبوط ملی وحدت کا ذریعہ بنے گی اور معاشرے میں انہیں ایک بلند واعلیٰ مقام حاصل ہوگا۔

کتابیں وکتب خانے
اس بات کی ضرورت ہے کہ نئی نسل کے لئے جن کارابطہ عملی طور پر عالم اسلام سے تقریباً منقطع ہوگیا ہے، ایسی کتابوں کے ترجمے کرکے شائع کئے جائیں جو دین کے بنیادی عقائد، عبادات اور معاملات پر مشتمل ہوں۔ ایسے کتب خانے قائم کئے جائیں جن میں تمام بنیادی اور ضروری دینی کتابیں مہیا ہوں۔ انہی کتب خانوں کے ساتھ ایسی سماعت گاہوں کی ضرورت ہے کہ جن میں مردوں، عورتوں اور بچوں کے لئے الگ الگ وعظ اور نصائح کی محافل کا انعقاد کیاجائے۔

شادی بیاہ
اس وقت مسلم خاندانوں کے لئے اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی بھی ایک بہت ہی دشوار مسئلہ بن گئی ہے۔ والدین اپنی دینی روایات کے مطابق اس بات کے خواہاں ہوتے ہیں کہ ان کی اولاد کی شادی مسلم گھرانے میں ہو، پچھلے لوگ تو اس کی بھرپور کوشش کرتے رہے کہ لڑکے کے لئے مسلم لڑکی اور لڑکی کے لئے مسلم لڑکے کو تلاش کیاجائے مگر اب حالات کچھ اور ہیں، کیونکہ برازیل میں پرورش پانے والی نئی نسل مسلمانوں کے مقابلے میں اہل برازیل سے زیادہ قریب ہیں۔ نوجوان چاہتے ہیں کہ وہ خود اپنے لئے لڑکی کا انتخاب کریں اور جب خود انتخاب کرتے ہیں تو وطن جدید کی لڑکیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بعض مسلم لڑکیاں بھی غیر مسلموں سے شادی کرلیتی ہیں اور ان کے ساتھ زندگی گزارتی ہیں۔

یہ سارے وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے برازیلی اقلیت اسلام سے دور اور کفر و الحاد سے قریب ہوتی جارہی ہے، لہٰذا اس کا سدباب ضروری ہے۔
(الفاروق اردو ۱۴۰۹ھ)
 

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 877867 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More