23 جون 1953 کو ضلع خانیوال کے
علاقے میاں چنّوں میں پیدا ہونے والا عظیم شخصیت کا مالک، تدریسی وتبلیغی
دنیا میں ایک بے مثال نام پیدا کرنے والا مولانا طارق جمیل صاحب کسی تعریف
کا مختاج نہیں۔اس کا نام سنتے ہی دل تعریف کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اس کی
قول میں ایک عجیب اثر اور تقاریر میں مسلمانوں کوایک اﷲ کی طرف بلانے کا
جذبہ ہے۔دل اتنا صاف کہ کوئی بھی شخص ، ان کی دل کا حال ان کے مسکراہٹ میں
دیکھ سکتا ہے اور رُغب اتنا کہ کوئی اُس کے سامنے ہلنا بھی گوارا نہیں کرتا۔
وہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں سڑک کے کنارے جارہاتھاتو میں نے سامنے دیکھا
کہ ریڑی والا بزرگ آرہا تھا، سُفید کپڑے پہنے، چہرے پہ معصومیت لیئے جب وہ
میرے قریب سے گُزراتو میں نے دیکھاکہ اس نے ریڑی پرایک پیٹی رکھی ہوئی ہے۔
میں نے اس کی طرف پیار سے مُسکرا کر دیکھاتو اچانک اس بزرگ کے آنکھوں سے
آنسوبہ نکلے،۔ میں حیران ہوا اور قریب جا کر پوچھا ـ بزرگو، سب خیر تو ہے،
تو اُس نے ریڑی پر رکھی ہوئی پیٹی اُلٹ دی۔کیا دیکھتا ہوں کہ اس پیٹی میں
سیب موجود ہیں۔ اوپر والی تہہ ٹھیک ، باقی سارے سیب گلے سڑے ہیں۔وہ بُزرگ
بولا، جناب، میں بہت غریب ہوں۔دن میں ایک پیٹی خریدتا ہوں۔ شام کو بیج کر
بچوں کے لئے تازہ کھانا لیکر جاتا ہوں۔آج کسی نے میرے بچوں کی روزی مارلی۔۔۔۔۔ذرا
سوچیئے،۔۔پٹی میں سیب بھرنے والا آصف ذرداری تھا؟ نواز شریف تھا ؟ عمران
خان تھا ؟ کوئی ایم این اے یا کوئی ایم پی اے تھا؟ نہیں وہ ایک عام مزدور
پاکستانی تھا۔ جہاں اپنے اپنوں کے دشمن ہو،اُس ملک کو امریکہ کی دشمنی سے
کیا فرق پڑتا ہے؟ ہم باتیں تبدیلی کی کرتے ہیں، گالیاں حکمرانوں کو دیتے
ہیں، لیکن ہمارا اپنا گریبان کس لئے ہیں ؟؟؟
تو یہ ہے ہم اور ہماری تبدیلی کی باتیں۔۔ہمارے سیاستدانوں کے کرپشن اپنی
جگہ ، وہ اپنے اپنے اختیار کے مطابق کام کرتے ہیں، خواہ وہ منفی کام ہو یا
مثبت، لیکن ہم عوام اپنے اپنے اختیار کے مناسب کیا کررہے ہیں، یہ کسی نے
ابھی تک نہ سوچااور نہ ہی سوچنے کے لئے وقت نکالا ہے کیونکہ ہم میں دوسروں
پر تنقید کرنے کی بیماری اتنی پھیل چکی ہے کہ ہمیں اپنی بُرائی دیکھائی
نہیں دیتا۔ جس طرح اُس پیٹی میں سیب کسی سیاستدان نے نہیں رکھے تھے ٹھیک
اُسی طرح ایسے اور بھی بہت بُرے کام ہیں جو ہم خود کرتے ہیں لیکن نام کسی
اور کا لگا رہے ہیں۔گُناہ بھی خود کرتے ہیں اور الزام سیاستدانوں پر لگا
دیتے ہیں۔
حضورؐ کا ارشادہے کہ اﷲ تعالی کسی قوم پر ان کے اعمالوں کے مُطابق حاکم
مُسلط کرتا ہے۔
پھر ہم کیوں اپنے سیاستدانوں پر تنقیدکرتے وقت اس ارشاد کو بھول جاتے ہیں؟؟
جب ہم اپنے اپکو بُرائیوں اور غلط کاموں سے نہ روکے تب تک ہم اُن پر بھی
تنقید کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔اب چونکہ ایک شخص خود سر سے پاؤں تک غلط
کاموں اور بُرائیوں میں ڈوبا ہو وہ کسی اور کو گناہوں سے کیسے روک سکتا ہے
اور اُسے صحیح راستے پر لانے کی تلقین دیں سکتا ہے ؟ سیاستدانوں کی کرپشن
وغیرہ کچھ حد تک دور رکھ کر ہمیں اپنے اپ کوسُدھارنا اور سنبھالنا ہے۔اپنے
نفس کو قابو میں کرنا ہے۔ ہمیں حضرت ابوبکرصدیقؓ کی صداقت وسچائی اور حضرت
عمرؓ کی طرح عدل وانصاف کا فلسفہ اپنانا ہے۔پھر ہم معاشرے میں وہ سب کچھ کر
سکتے ہیں جو ہمارے دین نے ہمیں بتایا ہے۔پھر ہم ہر کسی کو امربالعروف ونھی
عن المنکر کا درس دیں سکتے ہیں۔گناہوں پر قابو پا سکتے ہیں۔ پھر نہ توکوئی
دوسری طا قت ہم پر مُسلط ہو سکتا ہے اور نہ کوئی ہمیں ہرا سکتے ہیں۔ اور
اخر میں جیت ہماری ہوگی، صرف ہماری۔۔۔۔۔ |