ڈاکو والدین ،یقیناً والدین کے ساتھ ڈاکو
کا لفظ جڑا دیکھ کر سب کو حیرانگی ہوئی ہوگی لیکن یہ آج کی حقیقت ہے کوئی
خواب و خیال نہیں۔کچھ دن قبل گلشن اقبال کراچی سے پولیس نے ایسے والدین کو
ایک ساتھ گرفتار کیا جو اپنے بچے کا دودھ خریدنے کیلئے ڈکیتی کرنے میں
مصروف تھے ۔ڈاکوماں کے مطابق گھر میں بچوں کا دودھ خریدنے کیلئے پیسے نہیں
تھے اس لئے ڈکیتی کرنے کی کوشش کی لیکن یہ معاملہ تھوڑا تھوڑا مشکوک بھی ہے
کیونکہ پولیس کے مطابق ملزم اریب اور اُس کی بیوی افشاں کے ساتھ 2لوگ اور
بھی تھے جو رکشہ ڈرائیور سے لوٹ مار کررہے تھے ۔پولیس کے آنے پر ڈاکووالدین
کے 2ساتھی موقع واردات سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ۔گلشن اقبال کراچی کے
ان والدین کی وجہ ڈکیتی مشکوک ہے لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حالات
کچھ اسی طرح کے ہیں ۔والدین بچوں کی پرورش ،تعلیم و تربیت اور صحت کے حصول
کے لئے بے ایمانی،فراڈ،دھوکہ دہی،چوری ڈکیتی سمیت اپنے جسم کے اعضاء فروخت
کرتے بھی نظر آتے ہیں،کچھ ایسے واقعات بھی نظر سے گزر چکے ہیں جن میں والد
یا والدہ نے بھوک و غربت سے تنگ آکر اپنے بچوں کو قتل کرنے کے بعد خود موت
کے حوالے کردیا ۔میرے نزدیک اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہی ہے کہ والدین
اپنے بچوں کی پرورش کے لئے ڈاکو بھی بن سکتے ہیں،اپنی جان دے سکتے ہیں اور
دوسرے کی جان لے بھی سکتے ہیں۔لیکن افسوس کہ وہی بچے جوان ہوکر اپنے والدین
کی عزت کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔چند روپوں کی خاطر اپنے بوڑھے والدین کا علاج
نہیں کرواتے ۔اپنے بچوں کو تو بہترین غذائیں کھلانے کی کوشش کرتے ہیں اُن
کو سیروتفریح کیلئے مختلف مقامات پر لے جاتے ہیں لیکن جن والدین نے اپنی
جوانی اُن کی پرورش میں صرف کردی اُن کو اپنے اولاد کے کھانے کے بعد بچنے
والا کھانا دیتے ہیں،اپنی مصروف زندگی کے چند منٹ بھی اپنے والدین کیلئے
نہیں نکال پاتے ہیں اور کچھ لوگ تو اپنے بوڑھے والدین کو گھر تک سے نکال
دیتے ہیں ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوا ’’اور تمھارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ
اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرواور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو،اگر ان
میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کوپہنچ جائیں توان کواُف تک نہ
کہنا اورنہ انہیں جھڑکنااور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنااور عجزونیازسے ان
کے آگے جھکے رہواور ان کے حق میں دعا کروکہ اے پرودگار جیسا انہوں نے مجھے
بچپن میں(شفقت سے)پرورش کیا توبھی ان پررحمت فرما(سورۂ بنی اسرائیل)والدین
کو جب اُمید ہوجاتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کو اولاد جیسی نعمت سے نوازنے والا
ہے تو وہ اپنی جائزو ناجائز خواہشات کو ترک کرکے اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے
اپنی اولاد کی بہتر پرورش کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں ۔خالق کائنات کے بعد
انسان پروالدین کااحسان سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔والدین اولاد کی پیدائش سے
پرورش تک بڑی مشکلات سے گزرتے ہیں۔ایسی مشکلات جن کا اس وقت اولاد تصور بھی
نہیں کرسکتی ۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اپنی شکرگزاری کے ساتھ ساتھ والدین کی
شکرگزاری کابھی حکم دیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’میرا بھی شکر کرتا
رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی‘‘والدین جتنی مشکلات اپنی اولادکے لیے اُٹھاتے
ہیں۔ اس کے صلے میں انسان کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ اپنے والدین کی خدمت
کرے اس طرح انسان صرف والدین کی خدمت ہی نہیں کرتا بلکہ اپنے خالق (اﷲ
تعالیٰ)اور اس کے رسول سرکار دوعالم حضرت محمد ؐ کے احکامات پر عمل بھی
کرتا ہے جو یقیناانسان کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی کا سبب ہے ۔ارشاد نبوی
ہے کہ ’’وہ شخص ذلیل ہواجس نے والدین کا بڑھاپا پایا اور دونوں( یا ان میں
سے ایک جوبھی زندہ ہو)کی خدمت کرکے جنت میں نہ پہنچ جائے ۔کتنا خوبصورت
فرمان ہے میرے اورآپ کے حقیقی رہنماء کااور کس قدر افضل اور اﷲ تعالیٰ کے
نزدیک پسندیدہ عمل ہے والدین کی خدمت کرنا ۔اگر دیکھا جائے تو انسان اپنے
والدین کے بے پناہ احسانات کابدلہ ہی نہیں چکاسکتا چاہے ساری زندگی ان کی
خدمت میں گزار دے اور اس پر جنت کے ا نعام کا وعدہ ، کیا یہ ایک اور احسان
نہیں میرے اور آپ کے خالق کا؟ ہوسکتا آج ہم جن بچوں کی پرورش کیلئے چوری ،ڈکیتی
اور جسم فروشی کی حد تک چلے جاتے ہیں کل جب ہم بوڑھے ہوجائیں گے توہماری
طرح ہمارے بچے بھی اپنے والدین (ہمیں)گھر سے نکال دیں۔ کسی نے کہا ہے کہ
جیسا کرنا ویسا بھرنا،جیسا سلوک ہم اپنے والدین کے ساتھ کریں گے کل ویسا یا
اُس سے بھی خراب ہمارے بچے ہمارے ساتھ کریں گے ۔اگر ہم اپنے والدین کے ساتھ
بھلائی کرتے ہیں تو اصل میں ہم اپنے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔اﷲ تعالیٰ ہمیں
اپنے والدین اور تمام بزرگوں کی عزت اور اُن سے محبت کے ساتھ پیش آنے کی
توفیق عطا فرمائے(آمین) |