نرسنگ کا شعبہ جو کہ پاکستان کے
ہیلتھ کئیر کا بنیادی حصہ ہے۔ پاکستان میں اس پروفیشن کو بہت سے مسائل کا
سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اور اس پروفیشن کو لاحق خطرات کو دور کرنے کے لئے
حکومتِ وقت کو بھی اس پر سختی سے عمل درآمد کر نا پڑے گا۔پاکستان کی
ہسپتالوں میں نرسنگ کے شعبہ سے وابستہ خواتین کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا
جاتا۔لوگ نرسوں سے جلد فری ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔بعض لوگ تو دوران ڈیوٹی
نرسوں کے موبائل سے فوٹو بھی بنا لیتے ہیں جب وہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دی رہی
ہوتی ہیں ۔ اور بعد میں یہ لوگ موبائل فون پر ایک دوسرے سے شیئر کرتے ہیں
جو کہ ایک اسلامی نقطہ نظر سے ایک اسلامی ریاست کے لوگوں کا عمل نہیں
جاناجاتا۔حتٰی کہ بعض تو نرسوں سے موبائل نمبر اور گھروں کے ایڈریس تک
پوچھنے لگ جاتے ہیں۔پھر بھی اس شعبہ سے وابستہ خواتین ان غیر اخلاقی اور
گندگی حرکات کو پس پشت ڈال کر اپنی ڈیوٹی کو پورا کرنے میں لگی رہتی
ہیں۔نرسنگ جو کہ ایک مقدس پیشہ ہے جس کو ہر معاشرہ اور ہر جگہ عزت کی نگاہ
سے دیکھا جانا چاہیے ایسا کم ہی نظرآ تا ہے۔نرس مریضوں کے علاج و معالجہ
میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔مریض کی دیکھ بھال، وقت پر چیک اپ، ادویات
وغیرہ کا خیال رکھنا اپنا فرض ِ اول سمجھتی ہیں۔اس شعبہ سے وابستہ نرسوں کو
بہت سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں کم تنخواہ، ضروریات زندگی
کی کم سہولیات، پک اینڈ ڈراپ سٹم، اضافی تعلیمی قابلیت کا فقدان، ایمرجنسی
کو کس طرح کنڑول کیا جائے، محدود ذرائع تعلیم اور اگر کوئی نرس فیل ہو جاتی
ہے تو اس کو کلاس سے بیک کر دیا جاتا ہے اور وہ ریگولر کلاس میں حصہ نہیں
لے سکتی، بیٹھنے کے لئے بہترین جگہ مہیا کرنا، جاب سکیورٹی مہیا کرنا، اور
ان کوکی اپنی صحت سے لاحق خطرات شامل ہیں۔ بعض دفعہ تو نرسوں سے اُسی
ہسپتال کے ملازمین بھی عزت نہیں کرتے۔جس کی وجہ سے وہ اپنی ڈیوٹی کو
سرانجام کرنے سے قاصر ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اکثر جب نرس کسی مریض کو چیک کرنی
کے لئے آتی تو اس کے رشتہ دار ااس کے آس پاس جمع ہو جاتے ہیں جس سے وہ اپنے
آپ کو غیر تسلی بخش سمجھتی ہے اور کام پر توجہ نہیں دے پاتی۔ اس قسم کی
حرکات کی وجہ سے نرسنگ کے شعبہ کا وقار کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس شعبہ سے
وابستہ خواتین ذہنی طور پر خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگ گئی ہیں۔ وہ عوام کے
غیر اخلاقی رویہ کی وجہ سے اس شعبہ میں خود کو ٹھیک طور پر ایڈجسٹ نہیں کر
پاتی۔ بعض افراد تو صرف عارضی مریض بن جاتے اور خود اسرار کرتے کہ ان کو
ایڈمٹ کیا جائے اور ان کا مقاصد صرف نرسوں کو تنگ کرنا ہوتا ہے۔لیکن ہم
پاکستانی ایک اسلامی معاشرہ اور اسلامی روایا ت کے پیروکار ہیں۔کیا ہم کو
یہ بات زیب دیتی کہ ہم اس طرح ان نرسنگ کے شعبہ سے وابستہ خواتین کی تنزلی
کریں۔آخر وہ بھی کسی کی بیٹی، بہن اور عزت ہیں جیسا کہ ہماری عزتیں قابل
احترام ہیں۔غیر اخلاقی طور پر کسی بھی کام کرنے والی خواتین کو دوران ڈیوٹی
تنگ کرنے پر حکومت ِ پاکستان نے قانون بھی بنایا اور اس پر عمل درآمد بھی
ہونا چاہیے۔ دوران ڈیوٹی خواتین کو دھمکیاں دینا، غیر اخلاقی حرکات کرنا یہ
سب Sexual Harassmentکے زمرہ میں آ جاتا ہے۔ ایک دفعہ شیر شاہ سوری کے سپہ
سالار اعلیٰ صاحب خان جو کہ بعد میں خواص خان کے نام سے مشہور ہوگیا ایک
جنگل میں لومڑیوں کا شکار کر رہا تھا کہ اس کو ایک لڑکی کی چیخ سنائی دی تو
وہ اس وقت اپنے باپ کے ساتھ شکا ر کر رہا تھا اور اسی سمت باپ بیٹا گھوڑوں
کو دوڑاتے ہوئے آئے جہاں سے وہ آواز آ رہی تھی۔ تو سامنے دیکھا کہ ایک لڑکی
کو چند مر د اپنے ساتھ گھوڑوں پر بیٹھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تو خواص خان
نے گرج کر پوچھا کہ کیوں لڑکی کے ساتھ زبردستی کر ر ہے ہو جبکہ وہ تمھارے
ساتھ نہیں آنا چاہتی۔ تو ان کے ایک سردار نے کہا کہ یہ ہندو ہے اور شہزادی
ہے اور ہم اس کو اغوا کر اپنے ساتھ لے کر جانا چاہتے ہیں اور تمھاری خیر
اسی بات میں کہ تم ہمارا راستہ نہ روکو۔تو خواص نے کہا کہ عزت چاہے ہندو کی
ہو یا مسلمان کی عزت ، عزت ہوتی ہے ۔ اور میں اور میرا باپ تم کو اس طرح
عزت کو زبردستی لے کر نہیں جانے دیں گے۔ پھر ان کے درمیان زبردست لڑائی ہو
گئی جس میں خواص خان کا باپ بھی مارا گیا اور دوسرے سب آدمیوں کو خواص خان
نے مار دیا۔مختصر یہ کہ اسی بات کی وجہ سے شیر شاہ سوری نے اس کو بہت پسند
کیا تھا کہ عزت ہر بیٹی کی ایک جیسی ہوتی ہے چاہے مسلمان کی ہو یا ہندو یا
کسی اور مذہب کی۔ اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ پرانے دور کے
مسلمان بہنوں، بیٹیوں کی عزت کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں۔ لیکن چند لوگ
اس اہم شعبہ سے وابستہ خواتین کو ہر وقت تنگ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
بعض ہسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے ایک ہی نرس ان کی صحت کے لئے
متعین ہوتی ہے جو کہ ایک نرس کے لئے کافی مشکل ہوتا ہے۔ایڈمنسٹریشن تک اپنی
آواز کو پہنچانے کے لئے نرسیں یونین کو جوائن کرنے لگتی ہیں جو کہ ان کو
جوابات کے لئے مثبت اقدام نہیں۔آخر میں یہ سب ہم لوگ کا فرض بنتا ہے کہ ہم
اپنی نظروں میں شرم و حیا پیدا کریں ۔ اس کے علاوہ متعلقہ محکموں کے
سربراہاں کا بھی یہ فرض بنتا کہ نرسنگ کے شعبہ سے وابستہ خواتین کی مکمل
حفاظت کے لئے اقدامات کیے جائیں۔ |