انسانیت کا معدوم احساس
(Samra Waheed, Wah Cantt)
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانیت ختم ہوتی جارہی ہیں۔ تین ایسے واقعات اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہمیں ایسی کاوشوں پر توجہ دینی چاہئے جو ہمارے اور ہم سےجڑے لوگوں کو بہتر مستقبل فراہم کریں گی۔ |
|
|
Lonliness |
|
مجھے یہ سن کر انتہائی افسوس ہوتا ہے کہ ہم کتنے بے حس ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں اور نئی انے والی نسلوں کو اپنے اوپر کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ ہم وہ نسل ہیں جو ایموشنلی ویک ہیں اور ہمیں اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ یہ نہ صرف ہمارا بلکہ ہم سے جڑے لوگوں کا کتنا نقصان کرتی ہے۔ میری نظر سے تین واقعات ایسے گزرے ہیں جن نے مجھے یہ تحریر کرنے پر مجبور کیا ہے کہ ہمیں خود پر کتنی محنت کی ضرورت ہے نہ صرف خود پر بلکہ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی فکر بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی اپنی فکر اور پرواہ۔ پہلا اداکار عائشہ کی موت ہے جن کی ڈیڈ باڈی ان کے اپارٹمنٹ سے ملتی ہے اور افسوس کی بات تو یہ کہ نہ کسی کو ان کی خبر تھی نہ ہی فکر۔ عمر کے اخری سال جب انسان کو قریبی رشتوں کی حد سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے تب بھی وہ اکیلی تھی۔ نہ جانے کیا کچھ ان نے ان اخری لمحات میں سوچا ہوگا۔ دوسرا واقعہ اداکارہ حمیرہ کی موت کے حوالے سے ہے کہ ایک انسان کتنا تنہا تھا کہ ۲۰۲۴ اکتوبر سے کسی نے یہ سوچا نہیں وہ کہاں ہے؟ کیا اس کی زندگی میں ایک بھی مخلص انسان نہیں تھا جو سوچتا فکر کرتا کہ پچھلے نو ماہ سے کیوں اس سے رابطہ نہیں ہوا؟ دراصل یہ ہماری کمزوریاں ہیں جن کو ہم بہت عام سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں. مجھ سمیت بہت سے لوگ اس بارے میں اواز تو اٹھا رہے ہیں لیکن کیا یہ سب ہم نہیں کرتے ہے؟ کوئی بھوکا ہے، بیمار ہے ناراض ہے، ہمیں خود ان چیزوں کی پرواہ نہیں ہوتی لیکن جب کوئی اس حالت کو پہنچتا ہے کہ پھر تمام منتیں اور گزارشیں صرف ویسٹ اف ٹائم ہوتی ہیں تبھی ہم ان تمام لوگوں کو وقت اور اہمیت دینا شروع کرتے ہیں ، جس وقت ان کو اس کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ کیسی بھی تھی کیا وہ اتنی بری تھی کہ نو ماہ تک کسی کو خبر بھی نہیں ہوئی، فکر بھی نہیں ہوئی؟ اتنا وقت تو دشمن اگر خاموش ہو جائے تو بھی فکر ہوتی ہے۔ کیا اس سگ کسی نے محبت نہیں کی تھی؟ کیا کسی نے اس سے پیار نہیں کیا تھا تھا ؟ جو اسے چاہتا، اس کی فکر کرتا! یہ بہت زیادہ اہم مسئلہ ہے۔ شاید ہم سب نئی خبر کے سامنے اتے ہی اسے بھول جائیں لیکن یہ جان لینا چاہیے کہ ہم انسانیت ہارتے جا رہے ہیں۔ اس مسئلے کو میں دو پہلوؤں سے دیکھتی ہوں؛ پہلا پہلو یہی کہ ہم کتنے بے حس ہیں کہ کوئی ہمارے سامنے مر جاتا ہے اور ہم اس کی فکر تک نہیں کرتے۔ ہم کیا واقعی اتنی ایموشنلی ویک ہوتے جا رہے ہیں کہ کسی کا سہارا نہیں بن سکتے؟ کسی کو پوچھ نہیں سکتے؟ مسلم ہوتے ہوئے تو ہمیں ان چیزوں کی طرف زیادہ دھیان دینا چاہیے پر افسوس ہم اس کے برعکس کرتے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ کہ ہم لوگ خود بھی اپنے پرابلمز شیئر نہیں کرنا چاہتے اپنی زندگیوں کو اتنا لمیٹڈ نہیں کرنا چاہیے کہ پھر لوگوں کی ہم تک رسائی مشکل ہو جائے۔ ہم بیک وقت سوشل بھی ہیں اور اینٹی سوشل بھی موبائلز اور دیگر ڈیوائسز کے استعمال سے ریلز اور پوسٹ کی حد تک تو سوشل ہیں لیکن اگر کوئی ہم سے واقعی یہ پوچھ لے کہ کوئی ہے تمہارا پرسان حال تو ہمارا جواب ہمیشہ نہیں ہوگا۔ ہم لوگ ریل گیدرنگ ہیں سے کتراتے ہیں اور اپنے مسائل کسی کے ساتھ شیئر نہیں کرتے ہمیں لگتا ہے کہ کوئی ہمیں انڈرسٹینڈ نہیں کرے گا نہ ہی کر سکتا ہے۔ شاید کہ ہم اپنے بہت سے پرابلم شیئر بھی نہیں کرتے یہ ائسولیشن ہم نے خود بلٹ کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پھر لوگ ہمارے قریب بھی نہیں اتے۔ یہی وہ دوسرا پہلو ہے جو ہمیں ایموشنلی سٹرانگ نہیں ہونے دیتا۔ تیسرا واقعہ میری اپنی فیملی سے ریلیٹڈ ہے جہاں ۳۲ سالہ نوجوان نے سوسائڈ کر لیا. ہمیں ایک ایسی سوسائٹی میں رہ رہے ہیں جہاں سب نے خود کو محدود کر لیا ہے۔ جو پہلو میں نے پہلے ڈسکس کیے ہیں وہی اس کی وجوہات بھی ہیں۔ ساتھ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ہم نے یہ سب کرنے پر لوگوں کو خود مجبور کیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں سب کچھ فیڈ ہوتا جا رہا ہے وہاں ہم سب کا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم ایک پوزیٹیو رول پلے کریں اور کوشش کریں کہ جس قدر، جس انتہا تک جا کر۔۔۔ ایسے ڈپریسڈ لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں کریں تاکہ ایسے قدم وہ کبھی نہ اٹھائیں۔ ہمیں خود بھی کوشش کرنی چاہیے کہ خود سے پیار کریں، خود کو وقت دیں، توجہ دیں اور وہ سب جو ہم دوسروں سے ایکسپیکٹ کرتے ہیں، اپنے لیے کریں۔ میں نے اس متعلق بہت آرٹیکلز لکھے ہیں اور میرا سب سے پہلا آرٹیکل بھی اسی حوالے سے تھا کہ ہمیں خود سے پیار کرنے کی کتنی ضرورت ہے۔ ان تمام واقعات سے ہم سب کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ آئے روز ان واقعات میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جو میرے لیے لمحہ فکریہ ہے اور اپ کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہی ہونا چاہیے۔ اپنے آپ پراور اپنے ارد گرد موجود لوگوں پر توجہ دینا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ اج کیا گیا فیصلہ کل سب کو بہترین مستقبل دے گا۔ دعا ہے کہ آئندہ کوئی ایسی خبر ہماری سماعت سے نہ گزرے جو باعث تکلیف یا باعث پریشانی ہو۔ آمین
|
|