اس روز‘ مینا چپ ہی نہیں‘ اداس بھی تھی اور یہ‘ معمول سے
باہر کی چیز تھی۔ میں نے دو تین بار‘ اسے متوجہ بھی کیا‘ لیکن وہ اپنی
کیفیت سے‘ باہر نہ آئی۔ باغ میں‘ میرے ہم جنس‘ اٹھکیلیوں میں مشغول تھے۔ اس
کے ساتھ‘ مجھے شروع سے‘ نادانستہ انسیت سی تھی۔ اس کا دکھ‘ مجھے اپنا دکھ
محسوس ہوتا تھا۔ جب وہ دکھی ہوتی‘ میں بھی دکھی ہو جاتا۔ جب وہ خوش ہوتی‘
تو میرے بھی تن بدن میں‘ خوشیوں کے جل ترانگ بجنے لگتے۔ یہ کیسا رشتہ تھا‘
میں نہیں جانتا۔ اس کا سلوک بھی میرے ساتھ کچھ برا نہ تھا۔ خدا معلوم‘ آج
وہ‘ اس طرح کیوں پیش آ رہی تھی۔ ضرور کوئی بہت بڑی بات رہی ہو گی۔
میں اسے‘ دکھی دکھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ سمجھ میں نہیں پا رہا تھا‘ کہ کس
طرح‘ اس کے دل کا حال معلوم کروں۔ اس سوچ نے‘ مجھے بےکل سا کر دیا۔ میں نے
معاملہ جاننے کی ٹھان لی۔ چاہے وہ ناراض ہی کیوں نہ ہو جائے‘ میں سب کچھ
جان کر ہی دم لوں گا۔ اس سے پہلے‘ کہ میں اصرار سے کام لیتا‘ وہ خود ہی
بولی‘ اندر کا لاوا‘ شاید وہ بھی ہضم نہ کر پا رہی تھی۔
انسان کے متعلق سنا ہے‘ کہ اس کی آنکھیں‘ سیر نہیں ہوتیں‘ کتنا ہی کیوں نہ
مل جائے‘ وہ مزید کے لیے‘ الٹے سیدھے حربے اختیار کرتا ہے۔ ہم میں‘ یہ
عادتیں کیوں آ گئی ہیں۔
جس باغ میں‘ ہمارے ڈیرے ہیں‘ کسی جنگل میں نہیں ہے‘ انسانی آبادی میں ہے۔
انسان یہاں آتا جاتا رہتا ہے۔ ہم بھی خوراک کی تلاش میں‘ آبادی میں جاتے
ہیں۔ قربت کے باعث‘ ہم نے کی اچھی بری عادتیں لی ہیں‘ مگر یہ سب‘ تم کیوں
سوچ رہی ہو۔ کیا ہوا ہے‘ کچھ پتا بھی تو چلے۔
کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں‘ اگر کچھ بھی نہیں‘ تو تم چپ چپ اور دکھی سی کیوں
ہو؟ باتیں بھی تو‘ معمول سے ہٹ کر رہی ہو۔ کوئی بات تو ضرور ہے۔
کہہ جو دیا‘ کہ کچھ نہیں‘ بس یوں ہی پوچھ رہی تھی۔
معمول کی زندگی میں‘ بیٹھا نہیں جاتا۔ دیکھو‘ سارے موج مستی کر رہے ہیں‘
اور تم اداس بیٹھی ہو اور انسانوں کے طرز پر‘ سوچے جا رہی ہو۔
تمہیں کیا ہے‘ تم بھی تو بیٹھے ہو‘ جاؤ‘ تم بھی موج مستی کرو‘ اور مجھے
میری حالت پر چھوڑ دو۔
میں تمہیں اکیلا چھوڑ کر‘ نہیں جا سکتا۔
میں تمہاری جنس کی نہیں ہوں‘ پھر بھی‘ میری اتنی کیوں پرواہ کر رہے ہو۔
مجھے تم اچھی لگتی ہو۔
مگر میں تمہیں کیوں اچھی لگتی ہوں۔ ہم نے کون سا ایک ساتھ چلنا ہے۔ جنس کے
اعتبار سے‘ ہم ایک ساتھ چل بھی نہیں سکتے۔
تمہارا ویہار اور معمول کا چلن‘ سلجھا اور رکھ رکھاؤ کا سلیقہ رکھتا ہے‘
اسی لیے‘ مجھے اچھی لگتی ہو۔
کمال ہے‘ عمومی طور پر حسن‘ ضرورت اور مطلب کے تحت ہی‘ قربتیں جنم لیتی
ہیں۔ یہاں تو‘ ایک چیز کی بھی سانجھ موجود نہیں۔
جن چیزوں کا‘ تم ذکر کر رہی ہو‘ وہ تو خود غرضی کی راہ پر ہوتی ہیں۔
انسان جانور پالتا ہے‘ ان پر خرچ بھی کرتا ہے‘ کیا وہ یہ سب‘ بےلوث کرتا
ہے؟
نہیں۔۔۔۔۔
ہم جنس کی بات مختلف ہے‘ لیکن کسی غیر جنس سے تعلق‘ بلامطلب کیسے استوار ہو
سکتے ہیں۔
ہم جنس مخلوق کی قربت اور سانجھ‘ مطلب کے بغیر بےمعنی سی ہے۔ مجھے تم سے‘
کوئی مطلب نہیں۔
تم مجھے ادھر ادھر کی باتیں کرکے الجھا رہی ہو۔ اصل مدے پر آؤ‘ تم دکھی اور
اداس کیوں ہو؟ کوئی وجہ تو ہو گی۔
میرا ساتھی‘ کبھی ایک قسم کے چوگے پر‘ مطمن نہیں ہوا۔ وہ نئے ذائقے کے لیے‘
نئے قسم کے چوگے کے لیے‘ بھٹکتا رہتا تھا۔ کئی بار‘ وہ اپنے شوق اور نئے
ذائقے کے جنون میں‘ خطروں میں گھرا لیکن قدرت اسے موقع دے رہی تھی۔ خطروں
کے پیش نظر‘ اسے آگاہ ہو جانا چاہیے تھا۔ آخر اور کتنے موقع ملتے۔
کئی دن پہلے وہ گیا‘ میں نے سوچا‘ آ جائے گا‘ لیکن جب نہ آیا‘ تو مجھے
تشویش ہوئی۔ میں اسے تلاش کرنے نکلی۔ بہت سی‘ جگہیں دیکھیں‘ لیکن وہ نظر نہ
آیا۔ شام کو تھک ہار کر‘ واپس آ گئی۔ اگلی صبح‘ میں نے پھر سے‘ تلاش شروع
کر دی‘ لیکن وہ کہیں نہ ملا۔ میری تلاش کا عمل‘ کئی دن جاری رہا۔ میں ناکام
رہی۔
مجھے دن آ گیے۔ مجبورا‘ مجھے کسی دوسرے سے‘ رابطہ کرنا پڑا۔ میں نے انڈے
بھی دیے‘ بچے بھی نکلے۔ اگرچہ زندگی معمول پر آ گئی تھی‘ تاہم اس سوچ نے‘
کبھی پیچھا نہ چھوڑا‘ کہ آخر وہ گیا‘ تو کہاں گیا۔ مارا گیا‘ یا کسی انسان
کے ہتھے چڑھ گیا۔
آج میں‘ بچوں کے لیے چوگا لا رہی تھی‘ کہ اچانک‘ میری نظر اس پر پڑی۔ میں
رک گئی۔ وہ ایک مداری کے لیے‘ کام کر رہا تھا۔ مداری نے‘ اسے پنجرے سے باہر
نکالا۔ میرا خیال تھا‘ کہ فورا سے پہلے‘ اڈاری مار کر‘ میرے پاس لوٹ آئے
گا۔ اس نے میری طرف دیکھا بھی‘ لیکن وہ اس کے لیے‘ کام کرتا رہا۔ آزادی‘ اس
سے چند قدم دور تھی۔ پھر بھی‘ وہ پنجرے کا باسی رہنا چاہتا تھا۔
کیا غلامی اسے راس آگئی تھی‘ یا مداری اسے نئے نئے ذائقے فراہم کرکے‘ اس کی
فطرت کو‘ تسکین دے رہا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے‘ غلامی‘ سوچ کے دروازے بند کر
دیتی ہے۔ اسے کسی ناکسی سطح پر‘ اطمنان ضرور میسر آ گیا ہے‘ ورنہ وہ کب‘
نچلا بیٹھنے والا تھا۔
مینا بولتی رہی‘ اس کی آنکھوں میں‘ ساون کی گھٹائیں امڈتی چلی گئیں۔ وہ یہ
نہ سمجھ سکا‘ کہ یہ پیار کا موسم تھا یا اس کے ساتھی کے بدلے رویے کے خلاف‘
مجبور اور بےبس احتجاج تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے‘ وہ اپنی نسل کے فرد کی
غلامی پر دکھی دکھی ہے۔
مینا چپ ہو گئی‘ لیکن توتا‘ سوچ سمندر میں بہتا چلا گیا۔ مینا اپنے من کا
بوجھ ہلکا کرکے‘ اپنے نئے ساتھی کے پاس‘ جا چکی تھی‘ لیکن توتا ابھی تک‘
اسی شاخ پر بیٹھا‘ سوچوں کے گرداب میں پھنسا‘ اپنی ذات سے‘ بہت دور چلا گیا
تھا۔
جانے کتنے‘ اس کی نسل کے‘ انسان کی غلامی میں‘ اپنا ماضی کھو چکے ہوں گے۔
وقت کی گردش میں‘ ماضی گم ہو جاتا ہے۔ بس سنی سنائی کہانیاں ہی‘ دل کو خوش
رکھنے کے لیے‘ رہ جاتی ہیں۔ فردوسی نے کتنا اور کہاں تک‘ سچ کہا‘ کوئی کیوں
تلاشے۔ بس اتنا کافی ہے‘ کیوں کہ ہر اگلے لمحے‘ پھر سے‘ اور پہلے سے الگ
تر‘ چوگے کی چنتا‘ سچائی کھوجنے نہیں دیتی۔ موجود ہی کو‘ سچائی کا درجہ
حاصل ہو جاتا ہے۔ پنجرے کے سب توتے مینا‘ ماضی کے جھوٹے سچے قصے بھول جاتے
ہیں۔ انہیں صرف اور صرف وہ ہی یاد رہتا ہے‘ جو مداری ان کے کان میں پھونک
دیتا ہے۔ |