حامد میر۔جیو نیوزکا پاک فوج پر حملہ

پاکستان میں کسی کی بھی جان محفوظ نہیں اور خاصکر اُن کی تو بلکل نہیں جو اپنے خیالات کو اخبارات، میڈیا یا سوشل میڈیا کے زریعے لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ پاکستان میں بے شمار صحا فی صرف اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے کہ اُن کے خیالات سےاُن کے مخالفین متفق نہیں تھے۔ تازہ مثال "جیو نیوز کے اینکر حامد میر" کی ہے جن کو ہفتہ 19 اپریل کو اسلام آباد سے کراچی آمد پر قتل کرنے کی بھرپور کوشش کی گی۔ حامد میر کی اپنی ایک سوچ ہے اوروہ اپنی سوچ میں اکثر انتہا پسندی کو چھولیتا ہے۔ بلوچستان کے مسنگ پرسن ہوں، یا پرویز مشرف کیس حامد میر نے اپنا ذہن فوج کے خلاف بنایا ہوا ہے، پرویز مشرف کیس میں وہ پرویز مشرف کی مخالفت میں ذاتی ہوجاتا ہے۔ اسکے علاوہ وہ کوئی موقعہ نہیں چھوڑتا جب روزانہ اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں بہانے بہانے سے فوج کو اور خاصکر آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کرتا ہو، گذشتہ ہفتہ تو پاکستان کا وزیر دفاع اور وزیر ریلوئے بھی اُسکے ساتھ فوج کو بدنام کرنے میں پیش پیش تھے۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے پاکستان میں لاکھوں لوگ اُس کے خلاف سوشل میڈیا اور دوسرئے طریقے سے اُس کے خلاف لکھتے ہیں اور ذاتی طور پر میں بھی اُس کے خیالات کو سخت ناپسند کرتا ہوں مگراپنے دل کی گہرائیوں سےحامد میر پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی حامد میر کو جلد از جلدصحت کامل عطا فرمائے ۔

ایک عرصے سے یہ خبر میڈیا میں گردش کررہی تھی کہ کچھ صحافی حضرات دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ میں موجود ہیں، ان میں ایک نام حامد میر کا بھی تھا، مسنگ پرسن اور کچھ صحافیوں کی موت کی وجہ سے آئی ایس آئی بھی بدنام ہے کہ یہ لوگوں کو غائب کرتی ہے اور کچھ صحافیوں کو مروانے میں اسکا ہاتھ ہے، آئی ایس آئی نے اسکو کبھی تسلیم نہیں کیا لیکن اس ادارئے کے کچھ لوگوں پر ذاتی طور پر یہ الزام ضرور لگا۔ حامد میر نے ایک عرصے سے اپنے ادارئے جنگ اور جیو میں ، کچھ صحافیوں اور اپنےجاننے والوں میں جس میں اُس کے خاندان کے لوگ بھی شامل ہیں یہ الزام لگانا شروع کردیا تھا کہ آئی ایس آئی اُسکوجانی نقصان پہنچانا چاہتی ہے، اس الزام کو آگے بڑھانے میں جنگ گروپ کے اخبارات اور جیو نیوز پیش پیش رہے، صحافت کی بےایمانی کی انتہا یہ ہے کہ جنگ گروپ سے منسلک انصار عباسی جو طالبان دہشت گردوں کا کھلا حامی اور پاک فوج کا کھلا مخالف ہے وہ روز دوتین مضمون یا تو پاک فوج کے خلاف لکھتا ہے یا طالبان کی حمایت میں، جنگ گروپ اپنے اخبارات میں ان مضامین کو خبر کے طور شایع کرتا ہے اور جیو نیوز اُسکو خبر کے طور پر نشر کرتا ہے۔ خبر اور خیالات میں بہت فرق ہوتا ہے لیکن جنگ گروپ ایک عرصے سے یہ صحافتی بےایمانی کررہا ہے۔ طالبان کے پجاری انصار عباسی اور جنگ گروپ اورجیو نیوز کے کرتا دھرتا اس بات کا کبھی ذکر نہیں کرتے کہ حامد میر کو نہ صرف طالبان دہشت گردوں سے بلکہ دوسری کالعدم تنظیموں سے بھی موت کی دھمکیاں مل چکی ہیں جبکہ حامد میر اپنے پروگرام میں خود اُسکا تذکرہ بھی کرچکا ہے، مگر امن کی آشا کا پجاری جنگ گروپ اور جیو نیوزکچھ اور کھیل کھیلنا چاہ رہے تھے۔

کراچی آمد کے فورا بعد شام پانچ بجے کے قریب حامد میر پر جان لیوا حملہ ہوتا ہے اور جیو نیوز اسکے کچھ منٹ بعد ہی اپنا مکرودہ کھیل شروع کرتا ہے، اور کھل کر افواج پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیتا ہے۔ حامد میر کے بھائی عامر میر کے حوالے سے کھل کر آئی ایس آئی اور پاک فوج کے خلاف زہر اگلا جاتا ہے۔ "حامد میر کے بھائی عامر میر نے پندرہ منٹ سے زائد پاک فوج پر کیچڑ اچھالا جس میں اُس کا کہنا تھا کہ حامد میر نے ویڈیو پیغام ریکارڈ کروایا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر انہیں کچھ ہو جاتا ہے تواس حملے کی ذمہ داری آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام ہوں گے۔ عامر میر نے کہا کہ پاک فوج ہماری ملازم ہے اور ہمارے ٹیکس کے پیسے پر پلتی ہے اور یہ ہمارے ملازم ہیں۔ہم انہیں کسی بھی صورت اجازت نہیں دیں گے کہ وہ حق کی آواز کو دباسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حامد میر نے کھل کر بلوچستان کے مسئلہ پر پاک فوج پر تنقید کی۔ ہم آئی ایس آئی کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم کسی سے نہیں ڈرتے"۔ جیو نیوز جس طرح سے مسلسل افواج پاکستان کے خلاف اپنے ردعمل کا اظہار کررہا تھا ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ سب پہلے سے تیار منصوبے کے مطابق ہورہا ہے۔ حادثہ کےصرف ایک گھنٹہ کے اندر ہی بغیر کسی ثبوت یا تحقیقات کے آئی ایس آئی پر الزام لگادیا گیا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام کی تصویر مستقل جیو نیوز پر ایک مجرم کی حیثیت سے دکھائی جاتی رہی۔ جیونیوز جسطرح پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کررہا تھا اُس نے بھارتی پروپیگنڈہ کو بھی پیچھے چھوڑدیا تھا جو بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف کرتا ہے۔ یہاں یہ بات قبل ذکر ہے کہ "ٹائمز آف انڈیا" نے اس واقعہ پر لکھا کہ وہ صحافی نشانہ بنے ہیں جن کو طالبان سے خطرہ تھا یعنی بھارت نے بھی اس طرح کا الزام نہیں لگایا جس طرح جیو نیوز کی جانب سے دیکھنے میں آئے۔

پاکستان کے تمام ٹی وی چینل نے حامد میر پر حملے کی خبر کو نشر کیا اور اسکے بعد دوسری خبریں نشر کیں جن میں سابق صدر پرویز مشرف کی کراچی آمد اور جیو نیوز کے الزام کے جواب میں آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل عاصم باجوہ کی اِس الزام کی سختی سے تردید،اور حامد میر پر حملے اور آئی ایس آئی پر بلا ثبوت الزام کو افسوسناک قرادیتے ہوئے الزامات کی سختی سے تردید اور حملے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے نے کہا کہ بغیر کسی ثبوت آئی ایس آئی یا اس کے سربراہ کو حملہ کا ذمہ دار قرار دینا ’افسوسناک‘ اور ’گمراہ کن‘ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی اور ادارے کے سربراہ پر الزامات لگانا افسوس ناک ہیں۔ جیو نیوز نے یہ دونوں خبریں نامکمل نشر کیں کیونکہ اُسکو پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈے سے فرصت نہیں تھی۔ حامد میر پر حملے کے بعد سارئے ملک میں ہر طبقہ اس کی مذمت کررہاہے۔وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ،گورنروں،وزراءسمیت ہر کسی نے واقعے کی مذمت کی ہے۔ وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو ایک خط لکھ دیا جس میں ایک عدالتی کمیشن بنانے کی درخواست کی گئی ہے۔یہ کمیشن تین رکنی ہوگا اور تین ہفتوں کے اندر اپنی تحقیقات مکمل کرے گا۔ اس اقدام سے واضح ہے کہ حکومت کو بھی اس واقعے پر تشویش ہے اور وہ بھی تحقیقات کرانا چاہتی ہے کہ اس واردات کے محرکات کیا ہوسکتے ہیں۔ اسکے بعد آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم باجوہ نے حامد میر پر حملے کی تحقیقات کے لئے حکومتی کمیشن کے قیام کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ قومی اداروں کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کی جائے گی، دفاعی اداروں کے خلاف بات کرنا ملک کو کمزور کرنے کے مترادف ہے، میجر جنرل عاصم باجوہ نے کہا ہم قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتے ہیں، قانون کے مطابق چارہ جوئی کی جائے گی ،ڈی جی آئی ایس آئی پر الزامات جھوٹ پر مبنی اور گمراہ کن ہیں، یہ حملہ شر پسندوں کی کارروائی ہے۔ دفاعی ریاستی اداروں پر الزامات کا جواز نہیں بنتا، بے بنیاد الزامات سے جگ ہنسائی ہوئی ہے، انہوں نے کہا مسلح افواج ملک میں آزادی صحافت اور جمہوریت کے استحکام کے لئے مثبت سوچ رکھتی ہیں۔

مسلسل چوبیس گھنٹے سے زیادہ جیو نیوز پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈے کے بعد جو کچھ حاصل کرنا چاہ رہا تھا ایسا ممکن نہ ہوا بلکہ خود جیو نیوز کے پروگرام کے شرکا نے جن میں جیونیوز سے منسلک اینکر پرسن بھی شامل تھے علاوہ انصار عباسی کے جیو نیوز کی پاک فوج مخالف پالیسی کی مخالفت کردی، اکثر شرکا نے آئی ایس آئی پر لگائے جانے والے الزام کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، جبکہ دوسری طرف یہ الزام بھی سامنے آیا کہ یہ حملہ طالبان نے کیا ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے حامد میر پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت، حملہ آوروں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ اور پارلیمنٹ کی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے تاہم یہ بھی واضح کیا ہے کہ پی ایف یوجے کسی صورت بھی آئی ایس آئی کیخلاف یکطرفہ طور پر اپنا پلیٹ فارم فراہم نہیں کرے گی ۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے تقریبا چوبیس گھنٹے بعد جیو نیوز نے کراچی سینٹر میں اپنے اینکر عامر لیاقت حسین کے زریعے اپنی پسپائی کا اعلان کیا اور عامر لیاقت نے کہا کہ "آئی ایس آئی پر جو الزام عامر میرنے لگا ئے ہیں وہ حامد میر اور عامر میر کے ذاتی ہیں اور جنگ گروپ یا جیو نیوز کا اس سے کوئی تعلق نہیں ، جیو نیوز اپنی افواج کے خلاف قطعی نہیں ہے"، اسکے بعد عامر لیاقت نے بہت ہی بھونڈئے انداز میں اس حملہ کی ذمیداری طالبان پر ڈالی اور اپنی نام نہاد بہادری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی۔ رات تک جیونیوز کے غبارئے میں سے ہوا نکل چکی تھی جسکا واضع ثبوت رات آٹھ بجے کے پروگرام "آپس کی بات " سے مل گیا جس میں نجم سیٹھی اور میزبان منیب نے جیونیوز کی گذشتہ چوبیس گھنٹے کی نشریات کی باقاعدہ مذمت کی۔

حکومتی کمیشن کو چاہیے کہ جہاں وہ اس بات کی تحقیقات کرئے کہ حامد میر پر کس نے حملہ کیا، اُسکے محرکات کیا تھے تو دوسری طرف وہ جنگ گروپ اور جیونیوز کے پاک فوج مخالف طرز عمل پر بھی ضرورتحقیقات کرے تاکہ آیندہ کوئی میڈیا گروپ اس طرح کے طرز عمل کا مظاہرہ نہ کرئے۔ آخر میں ایک مرتبہ پھر حامد میر کےلیے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی انکو جلد از جلد صحتیاب کرئے اور وہ دوبارہ اپنے بچوں کے ساتھ اچھی زندگی گذاریں۔

Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 485398 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More