بھارت کی اٹکھیلیاں خطے میں امن کی دشمن
ہیں
بھارتی ٹی وی کے مطابق ایک بار پھر بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپنی
ہندوآنہ طرزِ عمل اور اپنی سرزمینِ بھارت کی منافقانہ خصلت کے ساتھ ساتھ
اپنی اپوزیشن کی جماعتوں کے دباؤ کے باعث ریاست راجستھان کے شہر باڑ میر
میں ایک آئل فیلڈ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران پاکستان کی جانب سے
جنوبی ایشا میں (دو ایٹمی قوتوں) پاک بھارت پرامن مذاکرات کی خواہشات کا
ٹکا سا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان کے ساتھ تعلقات
اتنے اچھے اور اتنے بھی ساز گار نہیں ہیں کہ بھارت پاکستان کے ساتھ امن
مذاکرات شروع کرسکے جبکہ یہاں بھارتی قیادت کی سوچ اور اِس کے فکر کے حوالے
سے یہ امر بھی قابلِ افسوس ہے کہ اُدھر دوسری جانب من موہن کے مشیر برائے
قومی سلامتی ایم کے نرائن نے بھی ٹائمز آف انڈیا کو ایک انٹرویو میں اپنے
منافقانہ طرزِ عمل کا اظہار کیا ہے اور پاکستان پر دباؤ بڑھاتے ہوئے کہا ہے
کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنے اقدامات مزید سخت کرے انہوں نے کہا کہ
دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جانب سے اطمینان بخش اقدامات تک مذاکرات کی
بحالی کا امکان نہیں اِن کا یہاں یہ کہنا انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ بھارتی
قیادت کو پاکستانی حکام سے ملاقات پر کبھی اعتراض نہیں رہا تو میرے خیال سے
پاکستانی قیادت کو بھی بھارتی پریشانیوں اور الجھنوں کے سبب کبھی بھی
بھارتی حکام سے ملاقات پر نہ تو اعتراض ہی رہا اور نہ کبھی بھی پاکستانی
قیادت نے بھارتی حکام سے ملاقات کرنے میں کہیں بھی اور کسی بھی مقام پر ہیل
حجت سے کام لیا یہ سارے چونچلے بھارتی قیادت کو ہی آتے ہیں وہ فضول میں
اپنی اہمیت کو بڑھانے اور اپنا پاکستان کے سامنے زبردستی کا قد اونچا کرنے
کے لئے ایسی حرکتیں کرتے ہیں اور اِس پر ایم کے نرائن کا یہ کہنا بھی اِن
کے پاگل پن کے سوا اور کچھ نہیں کہ کیتھرنبرگ اور شرم الشیخ کے مشترکہ
اعلامیہ کی غلط تشریح کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ راقم الحروف کے نزدیک
پاکستان نے اِس کی جو تشریخ کی ہے اِس کے درست ہونے پر کسی قسم کے شک و
شہبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی اور اگر شرم الشیخ کے مشترکہ اعلامیہ کی
غلط تشریح کسی نے کی ہے تو وہ بھی بھارت ہی کی جانب سے اب کی جارہی ہے اِس
میں بھی موجودہ بھارتی حکمرانوں کی اپنی سازش ہے۔
جبکہ اِدھر پاک بھارت مذاکرات کے حوالے سے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ
کی جانب سے انکار کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے
بھارتی حکمرانوں کی آنکھ میں آنکھ ڈالتے ہوئے اسلام آباد میں ایک پُر ہجوم
پریس کانفرنس میں بھارتی قیادت کو للکارتے ہوئے اِس عزم کا برملا اظہار کیا
ہے کہ بھارت اگر پاکستان سے بات چیت سے گریزاں ہے تو وہ بتائے کہ آگے بڑھنے
کا کیا راستہ ہے اِن کے اِس جملے سے بھارت پر اچھی طرح سے واضح ہوجانا
چاہئے کہ پاکستان خطے میں امن کے قیام کے لئے کتنا مخلص ہے اور وہ یہ چاہتا
ہے کہ خطے میں مکمل امن کے کے پاک بھارت امن مذاکرات بہت ضروری ہیں اِس کے
بغیر خطے میں پائیدار امن کا سوچا بھی نہیں جاسکتا اور اِس موقع پر انہوں
نے دو ٹوک انداز سے یہ بھی کہا کہ ہم ہر معاملے کا حل مذاکرات سے ہی چاہتے
ہیں اور ہم مذاکرات کے لئے تیار ہیں بھارت بتائے کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ اِن
کا یہ کہنا اپنی جگہ بلکل درست ہے کہ پاکستان کو اپنی سلامتی ہر شے سے
زیادہ عزیز ہے اور پاکستان اپنی سلامتی کے تقاضوں سے پوری طرح سے آگاہ بھی
ہے اور اِس کے ساتھ ہی انہوں نے بھارت کو یہ بھی باور کرایا کہ جنگ کسی بھی
مسئلے کا حل نہیں بلکہ جنگ دونوں ملکوں کی خودکشی ہوگی البتہ انہوں نے
بھارت کے اعتراضات اور مخمصوں کو یکسر رد کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں خارجہ
سیکٹریوں کی تیسرے ملک میں ملاقات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میرے خیال سے
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی اِس پریس کانفرنس سے یہ واضح
کردیا ہے کہ اب تک پاکستان کا رویہ بھارت کے ساتھ محض ایک اچھے پڑوسی ہونے
کے ناطے خوشامدی تھا مگر اب جبکہ بھارتی قیادت پاکستان کے خلوص اور نیت پر
شک کئے ہوئے ہے تو پھر پاکستان بھی اتنا گیا گزرا ہے نہیں کہ وہ بھارت کی
جی حضوری کرتا رہے اور بھارتی حکمرانوں کے نخرے آسمان پر پہنچ جائیں۔ یہ
بھی ٹھیک ہے کہ پاکستان نے بھارت کو ہمیشہ اپنا پڑوسی اور اپنے سے بڑا ملک
ضرور جانا ہے مگر اِس کا یہ تو ہرگز مطلب نہیں کہ بھارتی حکمران پاکستان کے
اِس نرم رویہ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ہر ناجائز فعل کو بھی جائز
منوانے کے لئے پاکستان جیسے خود مختار اور خودار ملک پر اپنے اور بیرونی
دباؤ کے ذریعے اِس سے اپنی ہی من مانی کرواتے رہیں اور پاکستان اِس کے
ہاتھوں کھلونا بنا رہے۔
اِسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ کسی شخص کی خودپسندی کو تقویت دینا اور اِسے یہ
باور کرانا کہ وہی بڑا آدمی ہے یہی تو خوشامد ہے اور اِسی طرح کسی کی
ناجائز خوشامد کرنا بھی اپنے ضمیر کو پراگندہ کرنا ہے اِسی لئے تو داناؤں
نے ایسی خوشامد کرنے کو سختی سے منع کیا ہے کہ جس سے اپنا ہی ضمیر پراگندگی
کی جانب مائل رہے اور یہ بھی کہ کسی کی حق سے زیادہ تعریف چاپلوسی کے زمرے
میں آئے اور استحقاق سے کم حسد میں شمار ہو کسی کا ایسا عمل بھی بہت سارے
سوالات اور اندیشوں کو جنم دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھارت پاکستان سے
اپنے حق سے زیادہ تعریف کو چاپلوسی اور استحقاق سے کم کو حسد تصور کر کے
اِیسے ہی مواقع پر جب پاکستان اِسے بڑا سمجھتے ہوئے ایک اچھے پڑوسی کی طرح
اِس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے اور تمام گلے شکوے دور کرنے کے لئے
مذاکرات کی دعوت دینے کی کوشش کرتا ہے تو بھارت اپنی اٹکھیلیوں سے پاکستان
کی تمام کوششوں کو ایک ذرا سی کوئی بات کہہ کر خاک میں ملا دیتا ہے کہ جس
سے پاکستان اپنا زرا سا منہ بنا کر واپس اُسی مقام پر لوٹ آتا ہے جہاں سے
وہ چلا تھا۔
اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان بھارت سے برابری کی سطح پر بات کرے اور
اِس کم ظرف سے اپنا روا رکھا گیا خوشامدی رویہ ترک کر کے اِس کی آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کر بات کرے اور اب اِس کی ہر بات ماننے کے بجائے اِس سے اپنی
بات منوائے۔ |