تخلیق کار کب کس کی سنتا ہے؟۔۔تخلیق کار کی کب کون سنتا
ہے؟لکھنے والا اور پڑھنے والا دونوں ایک دوسرے سے آجکل شاکی اور قدرے
معاصرانہ چشمک رکھتے ہیں۔ہمارے ملک میں اتنے لکھنے والے نہیں،جتنے پڑھنے
والے موجود ہیں،کتابیں نہ سہی ہم کم از کم اخبارات تو روزانہ ہی پڑھتے
ہیں،آپ خود دیکھ لیں ہمارے ہاں ہر ٹی سٹال،چھپر ہوٹل،تھڑے بازار،حتیٰ کہ
حمام تک میں لوگ اخبار بینی سے اپنے ذوق مطالعہ کو پروان اور فروغ دیتے نظر
آتے ہیں بلکہ اپنے اسی مطالعہ کے زور پربے لگام حکمرانوں کی بھی خوب خبر
اور لتئے لیتے ہیں۔بعغےٰ تو ابامہ کوبھی راہ راست پر چلنے کی تلقین کرتے
نظر آتے ہیں ،اب اس سے زیادہ مطالعہ کی آفادیت اور کیا ہوسکتی ہے،بھلا کوئی
اخبار کے مطالعہ سے ایٹم بم اور نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں امن کا ایوارڈ لینے
سے تو رہا،البتہ ابامہ صاحب اس شرط سے مستشنیٰ ہیں وہ اخبار کے محض ورق
گردانی کے زور پر امن،ادب،فزکس کمیسٹری اورانسانی حقوق کی علمبرداری پر
نوبل انعام حاصل کر سکتے ہیں۔اور ان سے کسی نے پوچھنا بھی نہیں!! اسے کہتے
ہیں مطالعے کی کرامات۔خیرجانے دیجئے ․․بڑے شہروں میں ایسے چھوٹے واقعات
ہوتے رہتے ہیں،یہ تو ہم نے بس ایوں ہی تزکرہ فی سبیل اﷲ کر دیا،ورنہ آج
پاکستان کا ایک اہم ترین مسلۂ ادبی قزاقی کے حوالے سے بات کرنے لگے تھے،
ریسرچر حضرات مت گھبرایئں،ہاں تو محنت اور قلم کی مزدوری کرنے والوں کو آج
انتہائی روبہ زوال،بے قدری،ناآشنائی،بے توقیری،احساس محرومی،بلند ایوانوں
سے دوری،حکمرانوں کی عدم توجہی،رائٹ ساہیڈ پر بے پناہ ہجوم میں جگہ کی عدم
دستیابی جیسے قومی نوعیت کے مسائل سے نبردآزما تخلیق کار آج ایک ذہنی کشمکش
اور اذیت کا شکار ہوچلا ہے،جس کا دکھ سوائے میرے اور کوئی اسکا ادراک نہیں
کر سکتا،آپ بے شک مجھے شاباش اور میری بلے بلے کر سکتے ہیں کہ آپ ہی کو تو
صاحبان ذوق کہا جاتا ہے،ہمارے حکمران آج بھی تخلیق کاروں کو ’’ارباب نشاط‘‘
سے کم درجہ نہیں دیتے،اسکا معنی آپ فرھنگ آصفیہ میں دیکھ سکتے ہیں،اس
ناقدری اور ناشکری پر میرا خون کھول اٹھتا ہے،حکمرانوں اور ارباب بست و کشا
پر نہیں مجھے تو غصہ اپنے ارباب نشاط پر آتا ہے، جو میری تھیوری سے اختلاف
کر کے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہیں،میں نے ان کوتاہ اندیشوں کو ہزارہابار
سمجھایاکہ فی زمانہ کامیابی کا گر اب محنت شاقہ میں نہیں رہا․․اب تو شارٹ
کٹ کا دور ہے،’’مسلمانوں تکا لگاؤ‘‘جیسے سلوگن میڈیا پربہار دکھا رہے
ہیں،بازار میں’’30 دنوں میں ڈاکٹر بنئیے‘‘ جیسا ادب کتابی صورت میں عام
دستیاب ہے،اب اس چشمہ فیض سے جہاں دیگر شعبہ ہائے جات فاہدہ اٹھا رہے
ہیں،وہاں میرے ارباب نشاط کیوں دور رہیں؟لہذا میں آج سے یہ اعلان کرتا ہوں
کہ آیندہ میں کسی تخلیق کار کے قول و فعل کا ذمہ دار نہیں اور وہ میری
تھیوری اور کشف کے بغیر آسمان ادب پرچمک کے دکھایئں تو میں مانو․․البتہ اگر
کوئی صبح کا بھولا شام کو میرے آستانے پر آنکلا تو وہ راندۂ درگاہ ہونے بچ
نکلے گا۔ مورخ لکھ لئے آج سے ہم کسی سے کم نہیں،تبدیلی کا ڈنکا بج چکا
ہے،کوئی ہماری تعریف کرئے نہ کرئے ہم اپنی تعریف اب خود کیا کریں گے۔ ہم تو
وہ قوم ہیں کہ بے شک اپنے اسلاف اور اپنے دیسی تخلیق کاروں کو گھاس نہ
ڈالیں لیکن فرنگی ادیبوں اور فنکاروں کی فنی عظمت اور انکے پاکیزہ
خیالات،نظریات اورافکار کو ہمیشہ لائق تحسین جانتے ہیں کیوں کہ ہم آج بھی
امید سے ہیں کہ ’’ رند بخشے گئے قیامت کے روز۔شیخ کہتا رہا حساب حساب‘‘۔ اب
کل کلاں کو ہم نے بھی اﷲ کو منہ کھانا ہے۔ہم کیوں مفت میں اپنے تخلیق کاروں
کی تخلیقات اور نیک نامی کا ڈھونڈارہ پیٹتے پھریں کیا ضرورت ہے اپنے ان
تخلیق کاروں کی بلی گاڑنے کی،جو لکھتے ہیں محض اپنی پی آر او کے لیے،یا
اپنی آہ اور واہ کے لیے۔میں تو کہتا ہوں وزیراعلیٰ پنجاب نے ان تخلیق کاروں
کو انکی اوقات یاد دلا دی اور الحمراء میں ہونے والی شاعروں ادیبوں کی
عالمی کانفرنس میں مجال ہے جو کوئی جینوئن تخلیق کار اندر داخل ہونے میں
کامیاب ٹھہرا ہو،ادب کی اس نوازی میں بلاشبہ ہمارے کم اور ن۔لیگی حکمرانوں
کے چہیتے قاسمی صاحب کے کردار اور ہاتھ کو نظرانداز کرنا بہت بڑی زیادتی
اور ہماری کمینگی ہوگی،اچھے کاموں پر داد نہ دینا ہماری فطری کمینگی کا
خاصہ ہے،ہم تو شاعر کو داد بھی اسکے اعلیٰ کلام پر نہیں اسکے اعلیٰ مقام کو
مدنظر رکھ کے دیتے ہیں،لیکن چونکہ معاملہ قومی غیرت اور ادب پروری کا
ہے،لہذا میرے تمام ادبی برادری قاسمی صاحب کو ادب کی اس گراں قدر خدمات پر
سلیوٹ کرتی ہے’’۔۔سر جب تک آپ زندہ ہیں انشااﷲ تب تک ادب میں آپکا نام زندہ
رہے گا۔‘‘میرے ایک بدخواہ نے جب یہ سنا تو جیلس ہو کے کہا اس میں تھوڑا
ترمیم کر لیں’’۔۔سر جب تک ن لیگ زندہ ہے انشاﷲ ادب میں۔۔۔‘‘ میں نے فورا ٰ
اس طاغوتی کے منہ پر ہاتھ رکھ کے اس کا ٹینٹوا دبا دیا،کم بخت کالی زبان کے
حوالے سے لازوال شہرت رکھتا تھا۔بہرحال فی اوقت قاسمی صاحب کو ہماری مدح
سرائی کی ضرورت نہیں،ایک دنیا انہیں اس عالمی ادبی کانفرنس کے انعقاد
پراپنے اپنے طور پر خراج تحسین پیش کر رہی ہے یوں ہمارے دیسی اور راندہ
درگاہ تخلیق کاروں کومنہ کی کھانا پڑئے گی،اگر وہ اب بھی نہیں سنبھلے،اور
جم کے ٹک کے نہ لکھا،درباری قصیدہ گوئی کی برکات اور فیضان سے منکر ہوئے،
’’ جی حضوری،واہ واہ ،حضور کا اقبال بلند ہو،جیوے جیوے بھٹو جیوے،دیکھو
دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا، بھاگ لگے رہن ․․․‘‘ جیسے تیربہدف قسم کی
مارکیٹنگ سے لاعلم رہے تو جان جاہیں کہ وہ کبھی عالم ادب میں زندہ نہیں رہ
سکتے․․وہ کبھی قاسمی صاحب کے رتبے تک نہیں پہنچ سکتا․․وہ کبھی ایوان صدر سے
کسی ایوارڈ کی توقع بھی نہ رکھے،ویسے تو کوئی گونگا بہرا اور بے حس ایوان
صدر آسکتا ہے لیکن کوئی تخلیق کار اپنی ’’ تخلیق‘‘ کے بغیرکیا مجال جو اندر
اپنا سینگھ سماء سکے لہذا اب بھی وقت ہے جاگ جاؤ․․میرے ادبی بھائیو !! کوئی
جیک لگاؤ، کسی سے سر ملا لو․․کسی سے لائن،نین اور ٹانکہ فٹ کرو ، آج
ادب،حکومت اورپبلک ریلیشن کا لوہا گرم ہے،ایسا ماحول اور زمانہ بہت کم
دیکھنے سننے کو ملتا ہے،آج کے دن رات برکتوں والے ہیں،کیا بندہ کیا بندہ
نواز سبھی برکتوں کو سمیٹنے میں لگے ہیں،تو میرے تخلیق کار کیوں پیچھے رہیں
، غالب ہی کو دیکھ لیں جب تک دربار میں قصدہ گوئی کے عالم معراج پر متمکن
تھے دنیا میں ’’ اسد‘‘ جانے جاتے تھے،اب اور میں کیا کیا مثال دوں․․عاقل
راہ اشارہ کافی است۔ویسے تخلیق کار کب کس کی سنتا ہے؟ راقم الحروف۔تخلیق
کار کی کب کون سنتا ہے؟ |