حامد میر کا واقعہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے. ان کا
حملہ میں محفوظ رہنا کوئی معجزہ سے کم نہیں ہے. مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ
آخر حامد میر کو مار کر قاتل فائدہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں. بظاہر تو یہ
طالبان ٹائپ حملہ لگتا ہے اور آج روزنامہ جنگ میں ان کے بارے میں یہ خبر
بھی موجود ہے کہ ان لوگوں نے ذمہ داری قبول کر لی ہے لیکن کیا وہ اتنے ہی
باخبر ہیں کہ ان کو حامد میر کے تبدیل شدہ سفری تفصیلات کا بھی معلوم تھا.
وہ کب کراچی پہنچیں گے اور کب اور کس گاڑی میں وہ سفر کررہے ہوں گے؟ اگر وہ
ایسے ہی باخبر ہیں تو وہ یقینا ہمارے نظام میں بہت اندر تک سرایت کرچکے
ہیں. ایسے میں ہمارے خفیہ اداروں کا وجود کہیں کیوں نظر نہیں آتا؟ اگر وہ
واقعی ایسا کرگزرنے کے قابل ہیں اور ہمیں اتنا قریب سے واچ کررہے ہیں تو
پھر تو ہمارا اللہ کی حافظ ہے. وہ تو پھر گویا ہماری سوسائٹی میں لگے ایک
ٹائم بم کی طرح ہیں ... کسی وقت بھی ... بگ بینگ کر سکتے ہیں. خدارہ ان کے
اس دعوے کو غلط ثابت کیجئے ورنہ میرے عزیز وطن کی ماؤں سے کہ دیں کہ اپنے
بچوں کی حفاظت کا خود کوئی مناسب بندوبست کرو اور یہاں سے نکل جاش.
حامد میر کا واقعہ بہت افسوسناک بھی ہے اور سبق آموز بھی. ہمارا ملک ترقی
کی راہ میں جس تیزی سے اپنے پیدائش کے دنوں میں بڑھا بعد کے دنوں میں اچانک
اس کی رفتار سب دنیا سے کمزور پڑ گئی اور اس کی وجہ تھی تحفظ. ہم لوگوں نے
ہندوستان کے ساتھ کشمیر سمیت کئی محاظ کھولے اور پھر عوام میں عسکری سوچ
بھردی.
اسی سوچ کے زیراثر ہم نےطے کیا کہ ملکی سلامتی کی خاطر ہم گھاس کھالیں گے
لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے. اس وقت ہم جاھلوں کو بس اتنا ہی معلوم تھا کہ
اگر ایٹم بم نہ بنا تو ہندوستان ہمیں کھا جائے گا اور اگر ہم یہ بم بنانے
میں کامیاب ہوگئے تو پھر دشمن ہمارے ملک کو میلی آنکھ سے دیکھ نہ سکے
گا....
ہم نے اپنے وسائل کا بہت بڑا حصہ یہ ڈیٹرینس حاصل کرنے میں لگادیا اور جب
ہم اپنے خوابوں کے شہزادے کو حاصل کرچکے ہیں توہماری حالت پہلے سے بھی ابتر
ہو چکی ہے.. کیوں؟
تحفظ نام کی کوئی چیز کم از کم عوام کو تو حاصل نہیں ہے. ہاں البتہ سول اور
ملٹری بیوروکریسی کو بہت سے تحفظات حاصل ہوچکے ہیں جو ان کو پہلے حاصل نہ
تھے. ان کے تحفظ کا یہ عالم ہے کہ اب تو ان پر کوئی انگلی اٹھائے تو اس کی
انگلی بدن سمیت لقمہ تقدیر بن جاتے ہیں. اور دوسری طرف ہم عوام ہیں کہ ان
کی قسمت میں مرنا لکھا ہو تو کوئی کیا کرے. ہم ہندوستان کی دشمنی کا قرض
اتارتے اتارتے خود اپنے وجود کے دشمن بن چکے ہیں. جہالت کا عالم یہ ہے کہ
کوئی بھی کسی قسم کی جھوٹی بات تقسیم کررہا ہو اسے ہم اپنا مسیحا سمجھنے
لگتے ہیں. تحفظ کی اس لمبی جنگ نے شائد ہمیں ذہنی مریض بنادیاہے. اب ہمیں
تحفظ کی ضرورت ہے نہ کسی دشمن کی. اب ہم سب چیزوں میں خود کفیل ہوچکے ہیں.
ہندوستان , امریکہ, اسرائیل, انگلستان بلکہ ساری دنیا ہماری دشمن ہے مگر
کیا فرق پڑتا ہے ہم تو ان سب سے بےنیاز ہیں اور ان سب سے زیادہ سمجھدار بھی
وہ سارے بےوقوف مل کر بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے... ہم دنیا کی سپر قوم
ہیں. اگر کسی کو یقین نہ آئے تو ہماری تاریخ کے چند ابواب جن کو ہم نے پچپن
سے رٹا ہوا ہے ان کا مطالعہ کر کے دیکھیں.
ہمیں معلوم ہے کہ ساری دنیا ہمارے خلاف اکٹھی ہو چکی ہے. وہ دن رات ہمارے
خلاف سازشیں بناتے رہتے ہیں اور ان کی زندگیوں کا مقصد ہمیں کامیاب نہ ہونے
دیناہے اور بس..... مگر پھر بھی ہمیں کیا فرق پڑتا ہے ہم تو سپرمین ٹائپ
قوم ہیں. ہمیں تو جدید علوم کی بھی ضرورت نہیں یہ تو چند سرپھرے ایسے ہی دن
رات محنت کرتے رہتے ہیں ہم تو ہرچیز بازار سے ارزاں نرخوں میں خرید سکتے
ہیں تو پھر یہ سائنس اور ٹیکنالوجی وغیرہ کا عزاب کیوں سہیں.... آپ سمجھ
گئےنا میری بات..... بس اب جائیں اور کسی بات کی فکر نہ کریں....... |