تاریخ عالم گواہ ہے کے “تقدس“ کے نام پر شیطان صفت
انسانوں نے اپنے ہی جیسے گوشت پوست کے انساتوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔
الہامی مذاہب تک اس چیرہ دستی سے محفوظ نہ رہ سکے۔ حالانکہ الہامی مذاہب کی
بنیادی تعلیمات میں انسانوں سے محبت، اعلیٰ ترین اخلاقیات اور بہترین سماجی
رویّہ اختیار کرنے کی ترویج شامل ہے۔
آج کی یہ مادی طور پر ترقی یافتہ دنیا “تقدس“ کی آڑ میں مظالم کے ضمن میں
کافی حد تک جائز طور پر مذاہب پر تنقید کرتی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ آدھا سچ
ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ اگر آپ تاریخ کے اوراق پلٹیں تو انسانوں کو
سویلائزیشن کی راہ پر چلنے کی تعلیم دینے کا بنیادی اور مرکزی کردار مذہبی
پیشواؤں نے ہی ادا کیا۔ (ملاحظہ فرمائیں “انسائکلوپیڈیا“ Education in the
earliest civilizations)۔ پرانی مثل ہے کہ جسطرح چاقو اگر مسیحا کے ہاتھ
میں ہو تو مریض کا زخم ٹھیک کرنے کے کام آتا ہے اور اگر وُہی چاقو ڈاکو کے
ہاتھ میں ہو تو انسان قتل ہوتے ہیں۔ یہی حال لفظ “تقدس“ کا ہے۔ انسانوں کے
ہاتھوں ہی اسکا اتنا زیادہ غلط استعمال ہؤاکہ مذاہب تک کا حلیہ بدل ڈالا۔
آج کی اس مہذب دنیا میں بھی، چاہے وہ ترقی یافتہ دنیا ہو یا ترقی پزیر،
“تقدس“ کی آڑ میں انسانوں کی غارتگری کرنے والوں کی کمی نہیں۔ بس ان کے نام
بدل گئے ہیں، کہیں انکو “عدلیہ“ کا نام دیا گیا ہے، کہیں “دفاعی محکموں“ کا
اور کہیں “انٹیلیجنس ایجنسیوں“ وغیرہ کا۔ انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اس “مقدس
مقام“ کی بلندی کا انداذہ اسطرح لگایا جاسکتا ہے کہ نہ تو انکی بھاری بھرکم
رقوم کے اخراجات کا آڈٹ ہوتا ہے اور نہ ہی اہلکاروں کو ایک دوسرے کے کاموں
سے واقفیت ہوتی ہے۔ سابقہ دونوں عالمی جنگیں ہوں، کولڈ وار ہو یا مسلم
ممالک کے خلاف لڑی جانے والی جنگیں اِن “مقدس“ اداروں نے ظلم و ستم کی نئی
نئی تاریخیں رقم کیں۔ ہر جگہ سب کچھ غلط بھی نہ تھا اور سب کچھ صحیح بھی
نہیں۔
گولیوں سے چھلنی ہوجانے کے باوجود معجزانہ طور پر زندہ بچ جانے والے سینیئر
ترین پاکستانی صحافی حامد میر کے آئی ایس آئی پر الزامات کا معاملہ بھی کچھ
ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ بلا شبہ آئی ایس آئی نے ماضی میں پاکستان کے تحفظ و
سلامنی کی ناقابلِ فراموش مثالیں رقم کی ہیں، اس کے جاںثاروں نے اپنے لہو
سے چراغ پاکستان کو روشن رکھا ہے۔ لیکن جسطرح آہستہ آہستہ ہمارے تمام ادارے
تنزّلی اور پستی کا شکار ہوتے چلے گئے، جنمیں مقدس عدلیہ اور مقدس فوج
کابھی نام لیا جاتا ہے۔ کیا آئی ایس آئی حوادثِ زمانہ سے محفوظ رہا ہے۔
گلوبل ولیج کے اِس دور میں شدید ترین بیرونی دباؤ اور کچھ مال و زر کی لالچ
نے ان کے معیار کو متاثر نہیں کیا۔ کیا بیرونی ایجنٹوں سے بڑی بڑی رقوم
حاصل کرنے کی ہوس میں اِن اداروں میں “کالی بھیڑوں“ نے جنم نہ لیا ہو گا۔
کیا ہمارے یہاں ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کرنے والے دستیاب نہیں ہوتے۔ ہمیں
ٹھنڈے دل سے ان باتوں پر غور کرنا چاہیئے اور اپنے قومی اداروں پر تنقید
کرنے والے ہر فرد کو غدار کا لقب عطا کرنے کے بجائے محکمہ جاتی تعصّب اور
طاقت سے احتراز کرتے ہوئے صرف اور صرف میرٹ پر حامد میر کے خدشات و الزامات
کی تحقیق کرکے سیاہ و سفید قوم کا سامنے پیش کرنا چاہیئے اور ذمہ داروں کو
بلا لحاظِ جاہ و منصب جزاء و سزاء ملنی چاہیئے۔ ورنہ ملک و ملت سمیت قومی
اداروں کو بھی ناقانلِ تلافی نقصان پہنچ جائے گا۔ اس بات کی اہمیت اس لیئے
بھی عیاں ہے کہ سابق وزیرِاعظم بینظیر بھٹو بھی اپنے قتل سے پہلے اسی طرح
کے اداروں پر اپنے قتل کی سازش کرنے کا الزام عائد کر چکی ہیں۔
ماضی میں جسطرح پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے قتل، سقوطِ مشرقی پاکستان
پر بننے والے حمودالرحمان کمیشن پر پردہ ڈالنے، وزیرِاعظم بھٹو، ضیاءالحق،
بینظیر بھٹو کے قتل کے اصل محرکات کو چھپانے اور حقائق سے سبق حاصل نہ کرنے
کی روش نہ اپنائی جاتی تو آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ
“مقدس“ صحافت کالی بھیڑوں سے پاک ہے۔ اگر ایسا ہے تو وہاں بھی غیر
جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیئے اور سب کچا چٹھا قوم کے سامنے آنا چاہیئے۔ |