مسلم ہے محمد ۖ سے وفا صدیق اکبر کی
نہیں بھولی ہے دنیا کو ادا صدیق اکبر کی
اب اس سے بڑھ کے کیا ہوگی ثناء صدیق اکبر کی
نبی ۖ تعریف کرتے تھے سدا صدیق اکبر کی
نجابت میں شرافت میں رفاقت میں صداقت میں
ہوئی شہرت یہ کس کی جابجا صدیق اکبر کی
جو اُن کا ہے رسول اللہ ۖ اس کے ہیں خدا اس کا
کہیں گے داستاں ارض و سماں صدیق اکبر کی
کمی کیسی نصیر ان کے مدارج میں مراتب میں
بڑی توقیر ہے نام خدا صدیق اکبر کی
نائب مصطفیٰ ۖ ، صدق الاصدقاء ، خلیفہ اُولیٰ و اَ ولیٰ مخدوم اصحاب رسول ۖ
، افضل البشر، بعداز انبیاء بالتحقیق ، امیر المومنین ، امام المتقین ،
سیدنا و مولانا ابوبکر صدیق کا نام نامی مبارک عبداللہ کنیت ابوبکر ہے آپ
کا نسب نامہ ماں اور باپ کی طرف سے چھٹی پشت میں مرہ پر پہنچ کر حضور پاکۖ
سے جاملتا ہے حضور پاک ۖ کا شجرہ نسب پاکیزہ طیب و طاہر ہے آپ کا فرمان
ذیشان ہے حضرت آدم سے لیکر میرے ماں باپ تک میری ولادت نکاح سے ہے لہذا میں
اپنے نسب اور اپنی ذات میں تم سب سے بہترین ہوں حضرت ابوبکر صدیق بھی اسی
شجر مقدس کی ایک شاخ کے پھول ہیں تو کہنا بجا ہوگا کہ اللہ عزوجل نے سیدنا
صدیق اکبر کو پاکیزہ نسب عطا فرمایا ۔
اصدق الصادقین سید المتقین
چشم و گوش وزارت پر لاکھوں سلام
ایک باکمال استاد جو بہت سی خوبیوں کا جامع ہوتا ہے اپنے جس شاگرد میں جس
خوبی کی ممتاز صلاحیت پاتا ہے اسی خوبی میں اسے باکمال بنادیتا ہے لہذا
اپنے پیارے صحابی سیدنا صدیق اکبر کو صداقت میں ممتاز و باکمال بنادیا ۔
قرآن کریم میں فرمایا گیا ۔
ترجمہ و مفہوم ۔
اور وہ جو سچ لیکر تشریف لائے اور جنہوںنے ان کی تصدیق کی یہی لوگ ڈر والے
ہیں ۔
آپ کے والد ماجد ابو قحافہ مکہ مکرمہ کے ممتاز لوگوں میں سے تھے والدہ
محترمہ کا نام مبارک حضرت سلمیٰ کنیت ام الخیر تھی سیدنا صدیق اکبر کی
ولادت باسعادت عام الفیل کے اڑھائی برس بعد ہوئی اس حساب سے 571 آپ کا سن
پیدائش تھا ۔ آپ کو حسن صورت و سیرت کی بناء پر عتیق کہا جاتا تھا ( ابن
ہشام ج 1 165) ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ آقا کریم ۖ نے
فرمایا جو شخص دوزخ سے آزاد آدمی کو دیکھنا چاہتا ہے پس وہ ابوبکر کو دیکھ
لے ( ترمذی ج ، 2 ص 208 ، مشکوة 30 ، تاریخ الخلفاء ص 36) ام المومنین حضرت
سیدہ عائشہ صدیقہ کا قول مبارک یوں نقل کیا گیا ہے
بے شک ابوبکر صدیق حضور پاکۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ۖ نے فرمایا تجھے
اللہ تعالیٰ نے دوزخ سے آزاد کردیا ہے اس دن سے آپ کا نام عتیق ہوگیا ۔
حضرت علی المرتضیٰ فرماتے ہیں امت میں رسول پاکۖ کے بعد سب سے بہتر ابوبکر
و عمر ہیں ۔ ترمذی شریف میں ہے آقا کریم ۖ نے فرمایا کسی شخص کے مال نے مجھ
کو اتنا فائدہ نہ دیا جتنا فائدہ ابوبکر کے مال نے پہنچایا ۔ آپ ۖ نے
فرمایا (ترجمہ و مفہوم) غار ثور میں تم میرے ساتھ رہے حوضِ کوثر پر بھی تم
میرے ساتھ رہو گے ۔ آقا کریم ۖ کا فرمان ذیشان ہے (ترجمہ و مفہوم ) اللہ
عزوجل نے تجھے جہنم سے آزاد کردیا ہے ۔ ابودائود شریف کی حدیث ہے (ترجمہ و
مفہوم ) اے ابوبکر سن لو میری امت میں سب سے پہلے تم جنت میں داخل ہوگے ۔
حضرت انس سے روایت ہے (ترجمہ و مفہوم ) ابوبکر سے محبت کرنا اور ان کا
شکریہ ادا کرنا میری پوری امت پر واجب ہے ( مسند الفردوس صفحہ 142 ج 2) آپ
فصاحت و بلاغت میں کمال درجہ رکھتے تھے آپ عرب کے پڑھے لکھے افراد میں سے
تھے غیر معمولی ذہین عالم النساب کے ماہر تھے خواب کی تعبیر دینے میں بھی
آپ کو مہارت تھی اسلام سے پہلے پرہیز گاری رحمدلی ، سچائی اور امانت داری
میں مشہور ہوچکے تھے قاتلوں کی رقمیں اور وہ مال جو اپنی جان بچانے کی خاطر
مقتول کے بیوی بچوں کیلئے قبیلے لیکر آتے تھے آپ کے پاس ہی جمع ہوتے ۔ آپ
نرم دل تھے کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے شراب جوئے اور سودی
کاروبار سے نفرت تھی حضور پاکۖ فرماتے تھے کہ میں ا دینی و اسلامی کلمے کو
جس کے سامنے بھی پیش کیا ان کے اندر کچھ نہ کچھ جھجھک محسوس کی سوائے
ابوبکر کے ان کے اندر اسلام قبول کرتے وقت جھجھک اور تردّد نام کو نہ تھا
صحابہ کرام آپ کی کوششوں سے اسلام لائے سچی باتیں پاکیزہ زبان اور صاف دل
سے نکلتی ہیں تو بھلے آدمیوں پر اثرکرتی ہیں حضرت عبید بن زید ، حضرت عثمان
بن عفان ، حضرت زبیر ، حضرت طلحہ ، حضرت عبدالرحمان ، حضرت عثمان بن مظعون
، حضرت ابوعبیدہ بن جراح ، حضرت خالد بن سعید ، حضرت ابوسلمہ ، حضرت عامہ ،
حضرت ابوفکیہہ ، حضرت سیدنا بلال اور دیگر بہت سے غلاموں غریبوں اور بے
کسوں کو خرید کر آپ نے کافروں کے ظلم سے چھڑایا حضرت عبداللہ بن زبیر
فرمایا کرتے تھے کہ ابوبکر کے پاس کپڑے کی تجارت سے کمایا ہوا چالیس ہزار
روپیہ تھا انہوں نے وہ سارا غلاموں کو آزاد کرنے میں خرچ کردیاسیدنا صدیق
اکبر کی چار پشتوں کو اللہ عزوجل نے شرف صحابیت سے مشرف فرمایا ۔ آپ کے
والد ماجد ابوقحافہ عثمان ، سیدنا صدیق اکبر ، آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ
، محمد ، عبدالرحمان آپ کی صاحبزادیاں حضرت اسمائ ، حضرت ام کلثوم ، حضرت
عائشہ صدیقہ آپ کے پوتے محمد بن عبدالرحمان ، آپ کے علاوہ کسی صحابی کو چار
پشتوں سے صحابی ہونے کا شرف حاصل نہیں ہوا ( تفسیر خازن ج 6 ص160) سیدنا
صدیق اکبر اسلام لانے کے وقت کم و بیش 37 سال کے تھے تجارت کے پیشے میں
مہارت رکھتے تھے ہزاروں روپے کا لین دین تھا ۔ وہ سب انہوں نے اسلام پر
نچھاور کردیا آقائے دو جہاں کا فرمان ہے جتنا نفع مجھے ابوبکر کے مال نے
دیا کسی اور کے مال نے نہیں دیا کافروں نے آپ پر ظلم کے پہاڑ توڑ دئیے آپ
آقا کریم ۖ پر جان نچھاور کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے تھے ایک دفعہ آقا
کریم ۖ کعبة اللہ میں نماز پڑھ رہے تھے عقبہ بن ابی معیط ادھر آنکلا اور
حضور پاکۖ کی گردن مبارک میں اپنی چادر ڈال کر اس طرح بل دیا کہ آپ کا دم
گھٹنے لگا اتنے میں صدیق اکبر بھی پہنچ گئے اور عتبہ کو دھکے دے کر ہٹایا
اور فرمایا ظالمو تم اس شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب
اللہ عزجل ہے ( صحیح بخاری ج 1 ، ص 544،)
اسلام اپنی سچائی اور خوبیوں کے زور پر پھیلتا چلا گیا حضور پاکۖ اور آپ کے
صحابہ کی کوششوں اور محنتوں کے ایک ایک دو دو کی تعداد میں لوگ دائرہ اسلام
میں داخل ہوتے گئے کافروں کی پھیلائی ہوئی افواہوں رکاوٹوں ظلم و زیادتیوں
کے باوجود مسلمانوں کی تعداد بڑھتی گئی جب کفار کا ظلم بہت بڑھ گیا تو آپ
نے آقا کریم ۖ کے ساتھ یثرب کی طرف ہجرت کی غار ثور میں قیام کیا 3دن اور
3راتیں اسی غار میں رہے آپ کے صاحبزادہ عبداللہ کافروں کی ارادوں کا پتہ
لگاتے اور تمام خبریں دیتے آپ کی پیاری بیٹی حضرت اسماء کھانا تیار کرکے
بھجواتیں اور حضرت ابوبکر صدیق کا چرواہا صبح سویرے اپنی بکریاں لیکر پہنچ
جاتا اور دودھ پلاتا تھا جو خدمت جناب صدیق اکبر نے محبوب دو عالم ۖ کی
انجام دی تاریخ اس پہ نازاں ہے حضرت ابوبکر صدیق مدینے آکر ہر کام میں آقا
کریم ۖ کے ساتھ رہے یہاں کی آب و ہوا مہاجرین کو موافق نہیں آئی تو آقا دو
جہاں ۖ نے دعا فرمائی (ترجمہ و مفہوم ) اے اللہ عزوجل ، تو مدینہ کو بھی
ہمارے نزدیک ایسا ہی محبوب بنادے جیسا کہ مکہ تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ
یہاں کی آپ و ہوا کو صحت بخش کردے اے اللہ ، یہاں کے ناپ تول میں بھی برکت
عطا فرما اور بخار کی تکالیف کو یہاں سے منتقل فرمادے حجفہ کی طرف ( دلائل
النبوة ج 2 ، ص 560 آپ کی مبارک دعا کی برکت سے صحت یاب ہوگئے اور آج بھ
پورے حجاز میں آب و ہوا کے لحاظ سے مدینہ منورہ بہترین جگہ ہے آپ کی صداقت
سخاوت شجاعت بے مثال تھی مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ
کام فرمان ذیشان ہے کہ سیدنا صدیق اکبر سب سے زیادہ بہادر اور دلیر تھے آپ
نے تمام غزوات میں بہادری کے جوہر دکھائے جنگ بدر میں آپ شمشیر برہنہ لیکر
حضور پاکۖ کے پاس کھڑے ہوگئے اور جو کافر بھی نزدیک آتا اس پر ٹوٹ پڑتے آپ
نے اپنا سب کچھ آقا کریم ۖ پر وار دیا اپنی جان اپنی مال و متاع سب کچھ
حضور پاکۖ پر قربان کردیا اپنی پیاری بیٹی سیدہ عائشہ صدیقہ کی شادی آپ کے
ساتھ فرمائی اور وہ ام المومنین قرار پائیں جب اسلام کیلئے ایثار کرنے کو
کہا گیا تو تمام صحابہ کرام نے دل کھول کر مال دیا سیدنا عمر فاروق نے آدھا
مال پیش کردیا آقا کریم ۖ کے فرمانے پر عرض کیا کہ آدھا اہل و عیال کے لئے
چھوڑ آیا ہوں پھر صدیق اکبر بھی آگیا وہ جس پر میرے رسول پاکۖ کو ناز تھا
وہ اپنا سب کچھ لیکر آگئے پوچھا اے ابوبکر اپنے اہل و عیال کے لئے بھی کچھ
چھوڑا عرض کی اے محبوب کائنات ۖ اے وجہ تخلیق کائنات ۖ ان کیلئے اللہ عزوجل
اور اس کے محبوب ۖ کو چھوڑ آیا ہوں ۔ اسی بات کو مرشد کریم حضرت علامہ محمد
اقبال نے یوں شعر میں ڈھالا کہ
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کیلئے ہے خدا کا رسول ۖ بس
حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں کہ میں کسی چیز میں کبھی حضرت ابوبکر صدیق سے
سبقت نہیں لے جاسکوں گا ۔ حضرت صدر الافضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد
آبادی فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابوبکر صدیق نے راہ خدا میں چالیس ہزار دینار
خرچ کئے دس ہزار دینا دن میں دس ہزار چھپا کر دس ہزار رات کو اور دس ہزار
اعلانیہ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں یہ آیت نازل فرمائی ۔ ترجمہ و
مفہوم ۔ یعنی جو لوگ اپنے مال خیرات کرتے ہیں رات میں اور دن میں چھپ کر
اعلانیہ تو ان کیلئے ان کے رب عزوجل کے پاس ان کا اجر ہے اور نہ ان کو کچھ
خوف ہوگا نہ ہی وہ لوگ غمگین ہوں گے ۔ ( پارہ 3 ع 6) ترمذی شریف میں ہے
رسول پاکۖ نے فرمایا کہ جس کسی نے بھی میرے ساتھ احسان کیا میں نے ہر ایک
کے احسان کا بدلہ اتار دیا علاوہ ابوبکر کے احسان کے ۔ انہوں نے میرے ساتھ
ایسا احسان کیا ہے جس کا بدلہ ان کو خدائے تعالیٰ ہی عطا فرمائے گا ۔یعنی
اور ہرگز کسی کے مال نے مجھے اتنا فائدہ نہ پہنچایا جتنا فائدہ ابوبکر کے
مال نے پہنچایا حضرت ابوبکر صدیق کو آقا کریم ۖ سے بے پناہ محبت تھی اور اس
محبت کو ظاہر کرنے پر آپ پر بے شمار تشدد بھی ہوئے لیکن آپ کے پائے استقامت
میں کبھی لرزش نہیں آئی محبوب خدا کو بھی آپ سے بے پناہ محبت تھی ترمذی
شریف میں ہے کہ اے صدیق غار ثور میں تم میرے ساتھ رہے حوض کوثر پر بھی تم
میرے ساتھ رہو گے ابو دائود شریف کی حدیث ہے کہ رسول پاکۖ نے فرمایا اے
ابوبکر سن لو میری امت میں سب سے پہلے تم جنت میں داخل ہوگے حضرت انس سے
روایت ہے کہ رسول پاک ۖ نے فرمایا ابوبکر سے محبت کرنا اور ان کا شکر ادا
کرنا میری پوری امت پر واجب ہے ۔ آقا کریم ۖ نے فرمایا (ترجمہ و مفہوم ) اے
لوگو سن لو میرے دوست کو میرے لئے چھوڑ دو تمہاری حیثیت کیا ہے ؟ اور ان کی
حیثیت کیا ہے ؟ تمہیں کچھ معلوم ہے ؟ خدا کی قسم تم لوگوں کے دروازے پر
اندھیرا ہے مگر ابوبکر کے دروازے پر نور کی بارش ہورہی ہے ۔ خدائے ذوالجلال
کی قسم تم لوگوں نے مجھے جھٹلایا اور ابوبکر نے میری تصدیق کی تم لوگوں نے
مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لیا ابوبکر نے میرے لئے اپنا مال خرچ کیا اور
تم لوگوں نے میری مدد نہیں کی مگر ابوبکر نے میری غمخواری کی اور میری
اتباع کی ۔
یہ چند حدیثیں قارئین کرام کے سامنے ہم نے پیش کیں اس کے علاوہ بھی شان
صدیق اکبر میں بہت سی احادیث وارد ہوئیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ
سرکار مقدس کے کتنے مقرب کتنے پیارے اور کتنی فضیلت و عظمت کے مالک تھے
درحقیقت آپ سب صحابہ کرام سے زیادہ افضل تھے آپ کی جانشینی کے حق دار تھے
آپ کو امیر حج بنایا اور آپ کی امامت پر تقرری آقا کریم ۖ نے فرمائی ۔ حضور
پاک ۖ کے پردہ فرمانے کے بعد صحابہ کرام غم میں ڈوبے ہوئے تھے حضرت عمر پر
اس کا بڑا اثر ہوا وہ جوش اور جذبہ سے فرما رہے تھے جس نے بھی کہا کہ حضور
وفات پاگئے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا حضرت ابوبکر نے حضرت عمر سے
فرمایاعمر بس کرو اور بیٹھ جائو آپ نے لوگوں سے فرمایا جو لوگ محمد ۖ کے
ماننے والے ہیں انہیں معلوم ہوجانا چاہیے کہ وہ تو وفات پاچکے ہیں لیکن جو
لوگ اللہ کے بندے اور اس کی بندگی کرنے والے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ
خدا زندہ ہے اور اسے موت نہیں خدا نے اپنے پیغمبر سے خود فرمایا کہ تم وفات
پائو گے اور سب لوگ بھی محمد ۖ اللہ کے رسول ۖ ہیں ان سے پہلے اور رسول بھی
گزر چکے ہیں پھر اگر وہ وفات پاجائیں یا شہید کردئیے جائیں تو کیا تم لوگ
الٹے پائوں پھر جائو گے یاد رکھو جو اسلام کو چھوڑ کر کفر کی طرف پھر جائے
گا وہ اللہ عزوجل کا کچھ بھی نقصان نہیں کرے گا البتہ جو لوگ ( ہر حالت)
میں اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بن کر رہیں گے وہ انہیں اس کی جزاء دے گا آپ
کی یہ تقریر سن کر صحابہ کرام کی ہچکیاں بندھ گئیں خود حضرت عمر کی حالت
غیر ہوگئی اور وہ دھڑام سے فرش زمین پر گر پڑے آپ کو خلیفہ المسلمین بنایا
گیا بیعت عام کیلئے آپ نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے اپنے خیالات اور
منشور کا نہایت بلاغت کے ساتھ اظہار کیا آپ نے فرمایا۔
صاحبو! میں تم پر حاکم مقرر کردیا گیا حالانکہ میں تم سے بہترین نہیں ہوں
اگر میں اچھے کام کروں تو ان میں میری مدد کرو اور اگر دیکھو کہ میں برائی
کی طرف جارہا ہوں تو مجھ کو سیدھا کردو سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت اس
لئے مجھے صداقت اور سچائی کی راہ خود بھی اختیار کرنا ہے اور دوسروں کو بھی
سچائی پر قائم رکھنا ہے ۔ اے لوگو تم میں سے جو ضعیف ہے وہ میرے نزدیک قوی
ہے یہاں تک کہ میں اس کا حق دلادوں انشاء اللہ اور بہ ظاہر زور و قوت رکھنے
والا آدمی بھی میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں بے سہارا کمزور آدمی کا
حق اسے دلادوں انشاء اللہ تعالیٰ ۔
جو قوم اللہ عزوجل کی راہ میں جہاد کرنا چھوڑ دیتی ہے اس کو خدا ذلیل و
خوار کردیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری عام ہوجائے خدا اس کی مصیبت کو بھی
عام کردیتا ہے میں خدا اور اس کے رسول ۖ کے بتائے ہوئے راستے پر چلوں تو تم
لوگ میری اطاعت کرنا لیکن اگر میں خدا اور اس کے رسول پاکۖ کے راستے کو
چھوڑ دوں تو تم میں سے کسی ایک پر بھی میرا حکم نہیں چل سکتا ۔ اچھا اب
نماز کیلئے کھڑے ہوجائو اللہ عزوجل تم پر رحم کرے ۔
تعظیم مصطفیٰ ۖ آپ کی زندگی کا حاصل تھا اس کا عملی مظاہرہ پورے دور خلافت
میں آپ نے کیا آپ نے نظام مصطفیٰ ۖ کا نفاذ کیا اور مقام مصطفیٰ ۖ کا تحفظ
کیا جو آقا کریم ۖ نے حکم فرمائے آپ نے من وعن اس پر عمل کیا حضور پاکۖ کے
وصال کے بعد نازک ترین دور آیا حضور پاکۖ کی وفات سے کفار کے حوصلے بڑھ گئے
اور ان کے مردہ ہمتوں میں جان پڑ گئی تھی منافقین سمجھتے تھے کہ اب کھل
کھیلنے کا وقت آگیا ضعیف الایمان دین سے پھر گئے ہیں مسلمانوں کے دل گھائل
ہیں آنکھوں سے اشک جاری ہیں اس وقت حضور پاکۖ کے جانشین کا نظم قائم کرنا
دین کو سنبھالنا مسلمانوں کی حفاظت کرنا ارتداد کے سیلاب کو روکنا کس قدر
دشوار تھا اس کے ساتھ ساتھ ایک لشکر حضرت اسامہ کی قیادت میں آقا کریم ۖ نے
روم روانہ کیا تھا کبّار صحابہ کرام کی رائے تھی کہ یہ فی الحال نہ جائے یا
کسی بہت تجربہ کار جرنیل کو بھیجا جائے مگر اللہ اکبر حضرت صدیق اکبر کے
پائے ثبات میں ذرہ برابر لغزش نہ ہوئی آپ نے فرمایا کہ اگر پرندے میری
بوٹیاں نوچ کر کھائیں تو مجھے گوارا ہے مگر حضور پاک ۖ کی مرضی مبارک میں
اپنی رائے کو دخل دینا اور حضور پاکۖ کے روانہ کئے لشکر کو واپس کرنا گوارا
نہیں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا ۔ یہ لشکر روانہ ہوا رومیوں کو ہزیمت ہوئی لشکر
فتح یاب ہوا اس وقت وہ قبائل جو مرتد ہونے کا ارادہ کرچکا تھا اس ناپاک قصد
سے باز آئے اور اسلام کی سچائی پر سختی سے قائم ہوگئے آپ نے زکوة کے منکرین
سے بھی سختی سے نبٹا ، آپ نے فرمایا خدائے ذوالجلال کی قسم اگر وہ لوگ ایک
رسی یا بکری کا ایک بچہ بھی حضور پاکۖ کے زمانے میں زکوة دیا کرتے تھے اب
اگر وہ دینے سے انکار کریں گے تو میں ان سے جنگ کروں گا۔ ( تاریخ الخلفاء ص
51)
مقام مصطفیٰ ۖ کے تحفظ کو آپ نے اپنی زندگی کا حاصل رکھا جب مسلمہ کذاب
سجاح کو آپ نے سختی سے کچل دیا اگرچہ اس میں کبّار صحابہ کرام شہید ہوئے
مگر آپ نے ان فتنوں کو جڑ سے اکھاڑ کر دم لیا اور آقا کریم ۖ خاتم النبین
کی محبت کا حق ادا کردیا اور یہ ثابت کردیا کہ آپ سب سے پہلے مجاہد تحفظ
ختم نبوت ہیں آپ کے فرامین جو آپ وقتاً فوقتاً دیتے رہے تاریخ میں سنہرے
حروف سے رقم ہیں آپ نے حضرت عمروبن عاص کی قیادت میں ایک لشکر شام کی طرف
بھیجنے کا ارادہ فرمایا جب وہ لشکر روانہ ہوا تو آپ ان کی سواری کے ساتھ چل
رہے تھے اور ان کو نصیحت کرتے ہوئے فرمارہے تھے اے عمرو ہر کام میں اللہ سے
ڈرتے رہنا کوئی کام چاہے وہ خفیہ ہو یا اعلانیہ اس میں اللہ تعالیٰ عزوجل
سے حیاء کرنا کیونکہ وہ تمہیں اور تمہارے تمام افعال کو دیکھ رہا ہے تم
دیکھ رہے ہو کہ میں نے تمہیں (عسکری وجوہات کی بناء پر ) امیر بنا کر ان
لوگوں پر بھی مامور کردیا ہے جو تم سے زیادہ پرانے ہیں اسلام میں بھی تم سے
سبقت رکھتے ہیں اور تمہاری نسبت اسلام اور مسلمانوں کیلئے زیادہ مفید بھی
ہیں ۔ تم آخرت کے لئے کام کرنے والے بنو اور تم جو کام بھی کرو محض اللہ کی
رضا حاصل کرنے کی نیت سے کرو جو مسلمان تمہارے ساتھ جارہے ہیں تم ان سے ایک
باپ کی طرح شفقت کا معاملہ کرنا تم لوگوں کی اندر کی باتوں کو ہرگز افشاء
نہ کرنا بلکہ ان کے ظاہری اعمال پر اکتفا کرلینا اپنے کام میں پوری محنت
کرنا دشمن سے مقابلے کے وقت جم کے لڑنا اور بزدل نہ بننا اگر مال غنیمت کے
معاملہ میں کسی قسم کی خیانت ہونے لگے تو اس خیانت کو آگے بڑھ کر فوری روک
دینا اور اس پر تادیبی کاروائی کرنا جب تم اپنے ساتھیوں کو خطبہ دو تو اسے
مختصر رکھنا اگر تم اپنے آپ کو ٹھیک رکھو گے تو تمہارے سارے ماتحت تمہارے
ساتھ ٹھیک چلیں گے آپ میں بہت سی خصوصیات تھیں جن میں سے چند یہ ہیں ابن
عساکر امام شعبی سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ حضرت صدیق اکبر کو
خدائے عزوجل نے ایسی چار خصلتوں سے مختص فرماای جن سے کسی کو سرفراز نہیں
فرمایا اول آپ کا نام صدیق رکھا کسی اور کا نہیں ، آپ رسول پاکۖ کے ساتھ
غار ثور میں رہے ، سوئم آپ رسول پاکۖ کے ہجرت میں رفیق سفر رہے سرکار اقدس
ۖ نے آپ کو حکم فرمایا کہ آپ صحابہ کرام کو نماز پڑھائیں ایک دو نہیں
ہزاروں لاکھوں ایسی باتیں و کرامات ہیں کہ جن کے تحریر کیلئے کتابوں کے
دفاتر درکار ہیں قاسم بن محمد کہتے ہیں حضرت ابوبکر صدیق نے دو افراد کو
قبیلہ قصناعہ کے صدقات وصول کرنے کیلئے مقرر کیا انہیں رخصت کرنے کے لیے ان
کے ساتھ باہر تک آئے اور یوں فرمایا ، ظاہر و باطن میں اللہ عزوجل سے خوف
زدہ رہنا کیونکہ جو اللہ سے ڈرے گا اللہ تعالیٰ اس کیلئے ہر دشواری سے
نکلنے کا راستہ ضرور بنادے گا اور اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے روزی
ملنے کا گمان بھی نہ ہوگا اور جو اللہ عزوجل سے ڈرے گا اللہ اس کی غلطیاں
معاف فرمادے گا اور اسے اجر عظیم عطا فرمائے گا اللہ کے بندے جن اعمال کی
ایک دوسرے کو وصیت کرتے ہیں ان میں سب سے بہتر اللہ رب العزت کا خوف سے تم
اس وقت اللہ کے راستوں سے ایک راستے پر ہو تمہارے اس کام میں حق کی کسی بات
پر چشم پوشی کرنے کی اور کسی کام میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور جس
کام میں تمہارے دین کی بھلائی ہے اور تمہارے کام کی ہر طرح سے حفاظت بھی ہو
اس کام سے غفلت برتنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے لہذا سست نہ پڑنا اور کسی
قسم کی کوتاہی نہ کرنا ( طبری ابن عساکر)
یہ محب محبوب خدا بہ روایت حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ 7جمادی الثانی کو علیل
ہوئے سردی میں غسل کی وجہ سے آپ کو بخار آگیا اور پندرہ دن تک آپ علیل رہے
آخر کار بظاہر اسی بخار کے سبب 63 سال کی عمر میں 2 سال 2 ماہ سے کچھ زائد
عرصہ امور خلافت انجام دینے کے بعد 22 جمادی الثانی 13 ہجری کو آپ کی وفات
ہوئی اور آقائے دو عالم کے پہلو میں دفن ہوئے ۔
فروغ صدق سے معمور جس کا اک اک لفظ
وہ حق پرست حق آگاہ حق نوا صدیق
بہتری جس پر فخر کرے وہ بہتر صدیق
سروری جس پہ کرے ناز وہ سرور صدیق |