1993میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر آسٹن میں سٹیو جیکسن گیمز
انکورپوریشن نے امریکی سیکرٹ سروس کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا۔ مقدمے
کی وجہ امریکی سیکرٹ سروس کا سٹیو جیکسن گیمز انکورپوریشن کے دفتر پر چھاپہ
مارنا تھی۔ امریکی سیکرٹ سروس نے یہ چھاپہ E911 نامی الیکٹرونک فائل کی بیل
ساؤتھ کمپیوٹر سے غیر قانونی کاپی کی تلاش میں مارا گیا تھا۔ E911 نامی یہ
فائل شہرہ آفاق 911 ایمرجنسی ٹیلیفون سروس سے متعلق تھی اور اسے ایک ہیکر
نے کاپی کر کے فراک نامی آن لائن نیوز لیٹر کے ذریعے سے انٹر نیٹ پر شائع
کر دیا تھا۔ اس مقدمہ میں سٹیو جیکسن گیمز انکورپوریشن کی پیروی جارج،
ڈانلڈسن اینڈ فورڈ نامی قانون دان فرم نے کی۔ عدالت نے فیصلہ سٹیو جیکسن
گیمز انکورپوریشن کے حق میں دیتے ہوئے امریکی سیکرٹ سروس کو تنبیہ کی کہ
اسے اپنے اہلکاروں کو زیادہ بہتر طور پر امریکی قوانین سے روشناس کرانے کی
ضرورت ہے جبکہ سٹیو جیکسن گیمز انکورپوریشن پر چھاپہ امریکی سیکرٹ سروس کی
غیر ذمہ داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سٹیو جیکسن گیمز انکورپوریشن نے
نقصانات کی مد میں امریکی سیکرٹ سروس سے 50,000 امریکی ڈالر اور قانونی
چارہ جوئی کے اخراجات کی مد میں 250,000 امریکی ڈالر وصول پائے۔
حال ہی میں امریکی سینیٹر رینڈ پال نے امریکی انتظامیہ اور نیشنل سیکیورٹی
ایجنسی کے خلاف امریکی شہریوں کے ٹیلیفون اور انٹرنیٹ ڈیٹا کی خفیہ نگرانی
کرنے کے حقائق سامنے آنے پر عدالت میں امریکی شہریوں کی ذاتی زندگی میں
مداخلت کی بنیاد پر مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔ اسی طرح کے دیگر مقدمات امریکی
شہریوں، اداروں، عوامی نمائیندوں کی جانب سے امریکی سیکرٹ سروسز کے خلاف
عدالتوں میں ماضی میں بھی دائر کیے جاتے رہے ہیں اور حال میں بھی کئے جا
رہے ہیں۔ عدالت ان مقدمات کو سنتی بھی ہے اور قوانین کے عین مطابق فیصلے
بھی کرتی ہے جن میں کئی فیصلے ان سیکرٹ سروس ایجنسیوں کے خلاف بھی جاتے ہیں
!!!
مہذب معاشروں میں قانون کی بالادستی قائم کی جاتی ہے۔ انسان چاہے کسی بھی
منصب پر ہو اور ادارہ چاہے کمرشل ہو، قانون نافذ کرنے والا ہو، سرحدوں کی
حفاظت پر معمور ہو یا ملکی سلامتی کاخفیہ ادارہ ہو!! نہ ہی کوئی شخص یا
ادارہ’ مقدس گائے‘ تصور ہوتا ہے اور نہ ریاست اور قانون سے بڑھ کر کوئی ہو
سکتا ہے!!!
کراچی میں ایک معروف صحافی پر قاتلانہ ہوتا ہے۔ خبر بنتی ہے۔ پھر حملے کا
الزام پاکستان کے خفیہ ادارے کے سربراہ پر لگا دیا جاتا ہے۔ سنسنی پروان
چڑھتی ہے اور مزید گہری ہو جاتی ہے۔زخمی صحافی فی الوقت بے ہوش ہے اور
میڈیا ہاؤس الزام تراشی میں جت چکا ہے۔ دیگر چینلوں کو اپنے طاقتور ترین
حریف چینل پر چڑھ دوڑنے کا نادر موقع ہاتھ آتا ہے ۔ اس کے بعد باقائدہ
میڈیا وار کا آغاز ہوتا ہے۔ جو ٹی وی چینلز خفیہ ادارے کی حمایت میں
چھلانگیں لگا رہے ہیں اور ان اداروں پر تنقید و الزامات کو پاکستان سے
دشمنی قرار دے رہے ہیں دراصل اِن کو خفیہ ادارے سے زیادہ میڈیا انڈسٹری اور
عوام میں حب الوطن ، سچے اور کھرے ٹی وی چینل ہونے کا ٹیگ لگوانا اور ریٹنگ
حاصل کرنا مقصود ہے جبکہ وہ جو جذبات کی رو میں بہہ کر خفیہ ادارے کے خلاف
بنا کسی ٹھوس ثبوت کے ہرزہ سرائی میں سب سے آگے نکل گئے اب بغلیں جھانک رہے
ہیں!!!
پروان چڑھتے معاشروں میں بحث بھی ہوتی ہے اور تنقید بھی! الزامات لگنا
لگانا بھی کوئی انہونی بات نہیں! الزامات کے درست یا غلط قرار دیے جانے کا
طریقہ کار بھی موجود ہے! پھر اتنا شور کیوں ہے بھائی؟
کسی بھی ادارے یا شخص پر تنقید اس کی کارکردگی کی بنیاد پر کی جاتی ہے یا
کی جانی چاہیے۔ عام فہم بات ہے کہ کوئی بھی ادارہ اتنا ہی اچھا کام کر سکتا
ہے جتنا کہ اس ادارے کو چلانے والوں کی اہلیت ہے۔ اگر آج کسی ادارے پر
تنقید ہوتی ہے تو ماضی کی کارکردگی، اہلکاروں کے فیصلوں، ملک پر ان فیصلوں
کے اثرات اور زمینی حقائق کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ تنقید کا مقصد غلطیوں کی
نشاندہی اور ادارے کے مستقبل کے لئے بہتر کارکردگی کی بنیاد رکھنا ہے۔
تنقید کیوں نہ ہو؟بہر طور نہ کوئی شخص اور نہ ہی کوئی ادارہ ’مقدس گائے‘
ہے!غلطیاں سب کر تے ہیں پر غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ترقی کا عمل ہے۔
افواجِ پاکستان اور خفیہ اداروں کا آزادی کے بعد سے پاکستان کی سیاست،معیشت،
جغرافیے، عالمی تعلقات، خارجی و داخلی معاملات اور ایوانِ اقتدار میں جو
کردار رہا ہے تاریخ اس کی گواہ ہے۔ اس کو بدلا نہیں جا سکتا ۔ ہاں البتہ
شتر مرغ کی طرح سر زمیں میں ڈال کر تاریخ سے انکار ضرور کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان تبدیل ہوتا ملک ہے جہاں ریاست کے ستون اپنی اپنی جگہ کام کرنا
سیکھنے کے عمل سے گزر رہے تو اس صورتحال میں اگر ایک جانب سے صحافی پر
قاتلانہ حملے کا الزام خفیہ ادارے کے سربراہ پر عائد کیا گیا ہے تو اسی
ادارے کو بلا جھجک و شرمندگی عدالتی کمیشن کے روبرو اپنا دفاع کرنا چاہیے
اور عدالت کو مکمل انصاف کرنا چاہیے جیسا کہ مہذب دنیا کا طرزِ عمل ہے۔
صحافی پر قاتلانہ حملہ کیا جانا شرمناک فعل ہے پر بات تو یہ ہے کہ ایک
معروف میڈیا کی شخصیت پر گولی چلے تو تمام اطراف سے آہ و بکا اور چیخ و
پکار پھٹ پڑتی ہے! اقتدارِ ایوان میں بیٹھے سیاستدانوں سے لے کر وزیرِ اعظم
تک بھاگم بھاگ کراچی کے ہسپتال جا پہنچتے ہیں اور قاتلوں کی گرفتاری و
الزامات کی نوعیت کی بنیاد پرفی الفور عدالتی کمیشن قائم کر دیا جاتا
ہے۔بہت اچھی بات ہے ! حکومت کو اپنے شہریوں کی حفاظت کے پیش نظر یوں ہی اٹھ
کھڑے ہونا چاہیے!لیکن اب انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ کراچی شہر میں روزآنہ
کی بنیاد پر ایسی ہی گولیوں کا نشانہ بننے والے عام غیر معروف پاکستانی
شہریوں کی عیادت کے لئے بھی عوامی نمائیندے جوق در جوق کراچی پہنچا کریں
اور ہر زخمی یا ہلاک ہونے والے شخص کے مجرموں کو پکڑنے اور سزا دلوانے کے
مقصد سے وزیرِ اعظم عدالتی کمیشن قائم کیا کریں!!!کیا پاکستان کے آئین کے
تحت تمام شہریوں کے حقوق برابر نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو حکومت کی طرف سے سلوک
اور انصاف بھی برابر کا ملنا چاہیے!!! |