تحریر:ڈاکٹر محمد خالدفواد(جامعۃ الازہر ،مصر)
عربی کی مشہور کہاوت ہے کہ دو دوست ایک سفر پر روانہ ہوئے کسی بات پر ایک
دوست نے اپنے دوسرے دوست کو تھپڑ رسید کر دیاجس سے دوست نے اس کو کسی طرح
کا جواب نہیں دیا باوجود اسکے کہ وہ اس امر کو اپنی زندگی کا بدترین دن
تصور کرنے لگا، اپنے غصہ کو جذب کر لیا ……اپنے غصہ کو دورکرنے کی غرض سے اس
نے ریت کے ٹیلے پر لکھ دیا کہ میرے دوست نے مجھے تھپڑ رسید کیا جس سے میرے
دل کو سخت اذیت پہنچی۔چندقدم آگے سفرکرنے کے بعد ان کے راستے میں پانی
آیا،وہاں دلدل کی وجہ سے وہی دوست جس کو تھپڑ رسید کیا تھا وہ دلدل میں
دھنستا جارہاتھا تو دوست جس نے کسی بات پر تھپڑ رسید کیاتھا، اپنے دوست کو
بچانے کی سر توڑ کوشش کی یہاں تک کہ وہ اپنے دوست کو محفوظ مقام پر منتقل
کرنے میں کامیاب ہوگیا۔مضروب دوست نے اپنے دوست کے ایک ہی سفر میں دو طرح
کے معاملے کا مشاہدہ کیا اور اس پر متعجب بھی ہوا اور اس کے اس احسان پر بے
حد خوش بھی ہوا کہ اس نے اپنی جان پر کھیل کر اس کی جان بچائی اسی وجہ سے
اس نے بڑے پتھرپر دوست کی اس نیکی کو ثبت کردیا ۔اس پر دوست نے استفسار کیا
کہ کیا معاملہ ہے جب میں نے تھپڑ رسید کیا تو تم نے ریت پر کچھ لکھا اور اب
جب میں نے تمہاری جان بچائی تو اب تم نے پتھر پر لکھ دیا مجھے یہ حکمت سمجھ
نہیں آئی۔اس پر دوست نے جواب دیا کہ میں نے ریت کے ٹیلے پر اس لیے لکھا تھا
کیوں کہ اس سے مجھے تکلیف تو ہوئی پر میں نے اس کو ریت پر لکھ دیاکہ جب ہوا
آئے گئی تو اس کو مٹا دے گی اور یہ دکھ میرے دل سے بھی مرور زمانہ کے ساتھ
اسی طرح مٹ جائے گا۔ جب کہ میں نے پتھر پر تمہارے احسان کو اس لیے محفوظ کر
لیا کہ کوئی آندھی یا ہوا اس کو نہیں مٹاسکتی۔اور میں نے آپ کے اس عظیم
احسان کو اپنے دل پر ثبت کردیاہے۔اس کہاوت کا درس یہ ہے کہ دوستوں کی
اچھائیوں کو زندہ و یادرکھا جانا چاہیے لیکن برائیوں کو اپنے دلوں پر نہ
جمنے دیاجائے۔
مذکورہ بالا کہاوت میں روداری و احسان مندی اور اچھائی کو محفوظ و یاد
رکھنے کی اہمیت عظیم مثال سے سمجھایاگیاہے۔اسلام بھی رواداری کی تعلیم
اوردوسروں کی اچھائیوں کو یاد رکھنے کی تعلیم دیتا ہے کہ اگر آپ پر کوئی حد
سے تجاوز کرے تو بقدر استطاعت اپنے نفس کو ضبط کریں اور اپنے حسن سلوک سے
اس پر اپنی برتری ثابت کریں۔اسلام میں رواداری مضبوط قوت و طاقت ہے نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ ’’مضبوط و طاقتور وہ نہیں جو بدلہ
لینے میں چستی دکھائے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے جذبات پر قابو
پالے ‘‘۔
نفسا نفسی کے موجودہ زمانے میں جب ہر ایک دوسرے کے حقوق پر دست درازی کر
رہاہے اور اپنا غلبہ و قبضہ کو باور کرانے کے لیے ہر طرح کے جائز و ناجائز
طورطریقوں کو اپنے استعمال میں لارہاہے مسلم و مؤمن پر لازم ہوتاہے کہ وہ
اپنے نفس پر قابوپاتے ہوئے حسن معاملہ اور رواداری کے ذریعہ اپنی بالادستی
ثابت کرے اور اپنے دوستوں کی اچھائیوں کو دل پرثبت کرئے۔اسی طرح اپنے پر
لازم دوسروں کے حقوق و فرائض کو ذمہ داری کے ساتھ پوراکرئے ،اس نیک امر کا
اجر اﷲ عزووجل دنیا و آخرت میں عطافرمائیں گئے۔
ترجمہ :عتیق الرحمن |