آجکل پاکستانی میڈیاکی آزادی پوری دنیا کے لیئے مثالی حیثیت رکھتی ہے۔یہ
آزادی آزادی پر بھی حاوی ہے۔ اینکر پرسن کیا ہوتا ہے؟ اینکر لغت میں لنگر
کو کہتے ہیں سمندر میں بحری جہاز کو آوارہ ہونے سے بچانے اور ایک مقام پر
ٹھہرنے کے لیئے بھاری بھرکم نتھ جو سمندر میں لڑھکادی جاتی ہے۔ ہر ٹی وی
چینل نے بڑے قادرالکلام ، تیز زبان ، فصیح للسان ،وسیع الروابط وغیرہ صفات
کے حامل بڑے معاوضوں پر رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں اینکر کہاجاتا ہے۔ لیکن انکے
پیچھے ایک اور ہوتا ہے جو مہمانوں کو اپنی مرضی سے چلانے کے لیئے اسے
ہدایات دیتا ہے جہاں مہمان انکی پالیسی پٹڑی سے اترا ، کانٹا تبدیل کرنے کا
حکم ملا، مہمان نے من مانی کی کوشش کی تو چھوٹی سی بریک آگئی۔ دراصل یہ تو
نتھ ہے اسکی ڈور کا کلہ وہ ادارہ ہے جس کایہ ملازم ہے۔ اصل پالیسی تو ادارہ
کی ہے ۔مادی مفادات کے پیش نظر اسکی سوت کہاں سے آرہی ہے؟ اس کے قول و فعل
سے عیاں ہوجاتا ہے۔ ہمارے ملک میں شتر بے مہار جمہوریت نے میڈیا کو بھی شتر
بے مہار بنادیا۔ بہت کم ہیں جو ملک و قوم کے تقاضوں سے ہم آہنگی یا مطابقت
رکھتے ہوں اور نظریاتی طور پر زندہ ہوں اور دوسروں کو زندہ رکھنا انکے
ایمان و ایقان کا حصہ ہو وگرنہ اکثریت سیکولر ہے جن کا مطمع نظر حصول دولت
ہے۔ بعض وہ ہیں جو دوسرے ملکوں کے ایجنڈے پر گامزن ہیں۔ موقع پاتے ہی
پاکستان کے کسی بھی نازک اور حساس حصے کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس کا تدارک
چنداں مشکل نہیں لیکن بات تو آجاتی ہے قانون کی ۔ کوئی انسانوں کا گوشت
کھائے یا عوام کو گدھوں، کتوں ، مردوں کا گوشت کھلائے، گندگی سے آئل نکال
کر مسلمانوں کو کھلائے۔ مگر اس کے ان جرائم کی سزا انگریز کے پینل کوڈ میں
نہیں جو پاکستان میں نافذالعمل ہے۔ وہ ایسا آسمانی صحیفہ ہے کہ پاکستانی
جمہوری منتخب پارلیمنٹ اس میں ترمیم و تنسیخ نہیں کرسکتی۔حامد میر ایک
صحافی ہیں اور انہوں نے کافی شہرت پائی ہے۔ یہ مثل مشہور ہے کہ وہ بھی کوئی
انسان ہے کہ جسکے کوئی دشمن نہ ہوں۔ ہر انسان کے دوست اور دشمن ہوتے ہیں۔
کسی کی ادا پسند آگئی تو دوستی نہ پسند آئی تو دشمنی۔ انسانی طبائع میں
باہمی تضاد اور اختلاف ہے۔ بعض لوگ ان معاملات میں اعتدال کی راہ اختیار
کرتے ہیں اور بعض قساوت قلبی کا شکار ہوتے ہیں۔ اختلاف تعمیری ہونا ملک و
قوم اور افراد کے حق میں بہتری لاتا ہے محض عناد اور سنت قابیل کی پیروی تو
قتل و غارتگری کو جنم دیتی ہے۔ بعض لوگ اپنے نظری و فکری مخالفین کو صفحہ
ہستی سے مٹانے کے درپئے ہوتے ہیں لیکن عین اس وقت انہیں اپنی دائمی بقا علی
الارض کے بارے بھی تسلی کر لینی چاہیئے۔ اس وقت جو معاملات ہیں ان کا دائرہ
گلوبل سطح کا ہے۔ یورپ اور امریکہ جہاں صیہونی اور صلیبی قوتیں منظم طور پر
مسلم امہ کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ جو کچھ اﷲ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ نے
فرمادیا وہی کچھ ہورہاہے۔ پاکستان میں سازشوں کے جال پھیلانا اور آئے دن
پاکستان کے لیئے طرح طرح کی مشکلات کا پیدا کرناان کے لیئے آسان ہے۔ صلیبی
افواج کے افغانستان پر حملوں سے پاکستان کو افغانستان سے زیادہ نقصان پہنچا
اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ہم نے دیکھا کہ گل مکئی عرف ملالہ پر نام نہاد حملہ
ہوا ۔ خصوصی طیارہ اسے برطانیہ لے گیا، براہ راست مناظر دکھائے گئے۔ علاج
کا ڈھونگ رچایا گیا۔ حیرت ہے کہ حملہ آور کی کسی نے مزاحمت بھی کی اور وہ
اپنے ٹارگٹ کو مارے بغیر چلاگیا۔ حکومت برطانیہ ہی نہیں ملکہ برطانیہ نے
اسے نوازا اور اوباما نے اسے خصوصی شرف ملاقات بخشا۔ فرانس، سپین اور دیگر
صلیبی ملکوں نے اسکی خوب بلائیں لیں۔ کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ ملالہ نے
کونسا کارنامہ سرانجام دیاتھا۔ سوائے نیٹو فورسز کیلیئے جاسوسی کرنے کے۔
بعد میں یہ ثابت ہوا کہ وہ یوسف زئی قبیلہ کی نہیں بلکہ یہودی النسل گودی
لی گئی ہے۔ جناب حامد میر صاحب کراچی تشریف لے گئے۔ ایرپورٹ سے نکلتے ہی
دوموٹر سائیکل سواروں اور ایک کار کے سکواڈ نے انہیں گھیر کر قاتلانہ حملہ
کیا۔ یہ جارحانہ کاروائی تقریبا ڈیڑھ میل تک جاری رہی۔ اس دوران دائیں
بائیں ٹریفک رواں دواں رہی۔ جبکہ حامد میر صاحب فون پر اس حملہ کی اطلاع
بھی لوگوں کو دیتے رہے۔ انکی گاڑی چلتی رہی ۔حملہ آوربڑے اناڑی تھے یا ان
کو اتنی ہی کاروائی کا فریضہ سونپا گیاتھا۔ پھر آپ کی گاڑی سیدھی نجی شاہی
آغا خان ہسپتال جارکی ۔ جسم کا اوپر کا حصہ انتہائی حساس ہوتا ہے جہاں گولی
لگ جائے تو موت کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن انہیں جتنی گولیا ں لگیں وہ جسم کے
نچلے حصہ پر لگیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حملہ آوروں کو صرف زخمی کرنے کا
فریضہ سونپا گیا تھا۔ جان سے مارنے کا نہیں۔ کراچی میں کئی سرکاری بڑے
ہسپتال موجود ہیں ، نیوی ، ائیرفورس اور آرمی و سول کے لیکن مغربی سرپرستی
کے حامل آغا خان ہسپتال کا انتخاب کس نے کیا؟ ظاہر ہے حامد میر صاحب تو
ہسپتال کا انتخاب کرنے کی پوزیشن میں ہی نہ تھے۔ اب عدالتی کمیشن بن چکا ہے
اس بارے تو وہی تحقیقات کرے گا۔ابھی بمشکل حامد میر صاحب ہسپتال پہنچے ہوں
گے کہ ان پر حملہ کرانے والوں کی نشاندہی کردیگئی اور کچھ دیر بعد ISI کے
جنرل ظہیر الاسلام صاحب کی تصویر اس الزام کے ساتھ کہ حملہ انہوں نے
کرایا۔یہ سب کچھ اس طرح کیا گیا کہ پہلے سے سب کچھ تیار تھا ۔ آئی ایس آئی
پاکستان کا قابل فخر دفاعی ادارہ ہے اور پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہے۔ جنرل
صاحب کی تصویر جیو ٹی وی پر نہائت غیر ذمہ دارانہ اور عامیانہ طریقہ سے
نہائت گھناؤنے الزام کے ساتھ نشر کرنا پاکستان کے اس اہم ادارہ کومفلوج
کرنے سے کم نہیں۔ حامد میر بڑے پائے کے صحافی سہی مگر اتنے بھی نہیں کہ
پاکستان کی دفاعی فورسز انہیں قتل کرنے کی سازش کریں۔ انہیں کوئی اور کام
نہیں۔ پھر سوچنے کی بات ہے کہ اگر دفاعی فورسز ایسا کام کریں تو ڈیڑھ میل
تک انکے نشانچی حامد میر کی گاڑی کو اپنے درمیان رکھ کر چلتے رہے لیکن
ٹارگٹ نہ کرسکے۔ جیو پر شور تو خوب مچا۔ پھر عامر لیاقت نے جیو انتظامیہ کی
طرف سے ISI کے بارے معذرت کی کہ یہ انکے بھائی کے جذبات ہیں، جنگ ادارہ کا
اس سے کوئی تعلق نہیں لیکن 21 اپریل 2014 کے جنگ اداریہ میں جنگ کے مالکان
و انتظامیہ کا مؤقف کھل کر سامنے آگیا جس میں انہوں نے بلاشرکت غیرے کہا کہ
آئی ایس آئی بطور ادارہ ملوث ہے یا پھر بعض افراد۔عامر لیاقت کی ملائیت کا
پول بھی کھل گیا۔ ابھی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی، کوئی تفتیش نہیں ہوئی اور
پاکستان کے دفاعی ادارہ پر اتنی بڑی الزام تراشی ، کہ اسے بھارت ، برطانیہ،
امریکہ اور دیگر مغربی صلیبی ممالک نے پاکستان کے خلاف خوب اچھالا۔ جس سے
پاکستان کی عظمت پر حملے کیئے گئے۔ پاکستان کا نمک کھانے والے اگر اسکی عزت
و عظمت پر حملے کریں تو انہیں غدار پاکستان ہی تصور کیا جائے گا۔ ادارہ جنگ
نے بطور ادارہ اس غداری کا اظہار کردیا ہے ۔ یقینا تحقیقاتی کمیشن ان امور
کا شدید نوٹس لے گا۔تحقیقاتی کمیشن اس سازش کے مقاصد اور محرک عناصر کے
بارے حقائق dig out کرے گا۔ میرے یہ جذبات ایک پاکستانی مسلمان ہونے کے
ناطے میرے دل و دماغ کی آواز ہے اور میں پاکستان کے بچے بچے کی یہی آواز سن
رہاہوں۔ اﷲ پاکستان اور پاکستان کے محافظین کو اپنے حفظ و امان میں رکھے
اور شرپسندوں ، یہودی اور صلیبی ایجنٹوں سے محفوظ رکھے آمین۔ |