ایک نئی،انوکھی اور منفرد کتاب
رائے محمد کمال لکھتے ہیں کہ”اگرقادیانیت کے فکری پس منظر پر غور کیا جائے
تو بادی النظر میں یہی تاثر ابھرتا ہے کہ اِس خطہ ارض پر ابتداً تحریک
وہابیہ نے جنم لیااور اِس کے اثرات یوں پھیلے کہ متاثرہ افراد کے دلوں سے
دانائے راز ختم الرسول مولائے کل صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ سے
والہانہ محبت اور جذباتی تعلق کمزور ہوگیا،حسن عقیدت کی جلوہ باری اور بادہ
عشق و مستی کی کیفیت موجود نہ رہی،ہزار بار مشک و گلاب سے منہ دھوکر اپنے
آقا و مولا کا نام لینے اور پھر بھی بے ادبی خیال کرنے کا رنگ اُن کے
دلوںسے نکل گیا۔یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ قادیانی تحریک احمدیہ ،علمائے
دیوبند کی صدائے بازگشت تھی یا دیو بندی مسلک وہابیوں کے خمیر سے اٹھا،لیکن
یہ اَمر مسلمہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی،نیچریت،چکڑالویت،پرویزیت اور دہریت
وغیرہ اِن ہی کا ثمر ہے۔“
مگرایک بات طے ہے کہ قادیانیت انیسویں صدی کے ہندوستان کا ایک عظیم فتنہ
ارتداد ہے،جس کی نشوونما اور آبیاری ”عہد تسلط برطانیہ“ میں ہوئی،مرزا غلام
احمد قادیانی اِس کا بانی مبانی تھا،جس نے انگریز سرکار کے اشارے پر عامۃ
المسلمین سے علیحدگی کی روش اختیار کرتے ہوئے قادیانیت کی بنیاد رکھی اور
فتنہ ارتداد کی ایک نئی روش متعارف کروائی۔اِس تحریک کاتاریخی پس منظر واضح
کرتا ہے کہ 1857ءکی جنگ آزادی کے بعدبرٹش گورنمنٹ کی ایماءپر پادریوں کی
جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب اور موزوں آدمی کی
تلاش کاکام شروع ہوا،حالانکہ اِس سے قبل مولوی اسماعیل دہلوی کے ذریعے _¿بر
صغیر میں فرقہ واریت کی بنیاد رکھی جاچکی تھی اور تقویۃ الایمان اور تحذیر
الناس جیسی کتابوں نے” امکان کذب “اور” ظلّی نبوت“ کے دروازے تو پہلے ہی
کھول دیئے تھے،اب صرف انگریز سرکار کو تلاش تھی تو کسی ایسے فرد کی جو
برطانوی عملداری کے تحفظات میں کشف و الہام کا ڈھونگ رچاسکے اور خفیہ رپورٹ
میں بیان کئے گئے مقاصد کو بااحسن خوبی پوراکرسکے،چنانچہ اِس کام کیلئے
انگریزکی نگاہ_¿ انتخا ب مرزا غلام احمد قادیانی پر ٹہری۔
مرزا کے بیٹے مرزا بشیر احمد کے بقول مرزا غلام احمد قادیانی نے 1880ءمیں”
ملہم من اللہ“ ہونے کا اعلان کیااور اپنے” مجدد“ ہونے کا ناد
پھونکا،1888ءمیں اعلان کیا کہ اللہ نے اُسے بیعت لینے کا حکم فرمایاہے،اُس
نے 1891ءمیں اپنے” مسیح موعود“ ہونے کی خبر دی اور” ظلّی نبوت“ کا دعویٰ
کیا،پھر 1901ءمیں” نبوت“ کا اعلان کردیااور نومبر 1904ءمیں خود ہی ”کرشن“
کے مقام پر فائز ہوگیا۔مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے
کہ مرزا ذہنی طور پر غیر متوازن ہونے کے باوجود ایک چالاک فریب کار اور
عمداً مکار شخص تھا۔مگراپنے سیاسی مقاصد میں بالکل واضح موقف رکھتا تھا
اورشروع سے آخر تک اُس کا سیاسی موقف ایک ہی رہا۔مرزا کی تمام تحریروں
کابین السطور لب لباب تاج برطانیہ سے وفاداری،جہاد کی منسوخی و مذمت،اسلامی
دنیا کو سامراجی تسلط کے تحت رکھنے کی خواہش اور ہندوستان میں سامراج کے
استحکام کیلئے خدمات سرانجام دینا تھی۔مرزا غلام احمد قادیانی کی گندی
زندگی پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ مرزا کئی روحانی اور نفسیاتی عوارض
کے ساتھ مختلف اقسام کی جسمانی بیماریوں کا بھی شکار تھا، جس میں خصوصاً
اعصابی تناؤ،ذیابیطس،درد شقیقہ،قولنج،تپ دق،خفقان،مردانہ کمزوری اور شدید و
مستقل پیچش میں بھی مبتلا رہنا قابل ذکر ہے،خود اُس کی اپنی اور مرزائی
پیروکاروں کی تحریروں میں اِن بیماریوں کا تذکرہ جابجا ملتا ہے۔
زیر نظر کتاب ”مرزا قادیانی کا طبی محاسبہ“دراصل مرزا قادیانی کی اِن ہی
جسمانی بیماریوں کے تذکرے پر مبنی ہے،جسے مجاہد ختم نبوت جناب صادق علی
زاہد(ننکانہ صاحب) نے ترتیب دیا ہے،محترم صادق علی زاہد اِس سے قبل
”علماءحق اور ردِ فتنہ مرزائیت،تذکرہ مجاہدین ختم نبوت،عقیدہ ختم نبوت اور
فتنہ مرزائیت،عقیدہ ختم نبوت اور ردِ فتنہ مرزائیت سوالاً جواباً اور عقیدہ
ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت سوالاً جواباً “ جیسی معرکة العراءکتابیں مرتب
کرچکے ہیں اور تحفظ عقیدہ ختم نبوت اور ردِ فتنہ مرزائیت کے حوالے سے آج
علمی و تحقیقی حلقوں میںاُن کا نام ایک مستند و معتبرحوالہ رکھتا ہے۔ ہمیں
ذاتی طور پر جناب صادق علی زاہد صاحب سے خصوصی تعلق کا اعزاز حاصل ہے
،انہوں نے ہماری کتاب ”تحریک تحفظ ختم نبوت سیّدنا صدیق اکبر تا علامہ شاہ
احمد نورانی“کے سلسلے میں نہ صرف ہم سے قلمی تعاون فرمایا بلکہ اپنے دولت
خانے پر مہمان نوازی کا شرف بھی بخشا، آپ ایک مخلص و ملنسار دوست اور محبت
کرنے والے ساتھی ہیں،ایک حادثے میں دائیں ہاتھ کی کلائی سے محروم ہونے کے
باوجود اُن کے عزم و حوصلے بہت بلند اور قابل ستائش ہیں،عقیدہ ختم نبوت کا
تحفظ اور منکرین ختم نبوت کی سرکوبی اُن کی زندگی کا مشن اور اِس مشن کی
تکمیل انہیں ہمہ وقت متحرک و فعال رکھتی ہے۔
متذکرہ کتاب بھی اُن کے انہی عزائم کی آئینہ دار ہے،اپنے موضوع کے اعتبار
سے یہ ایک نئی،انوکھی اور منفرد کتاب ہے جس میں مرزا قادیانی کو لاحق
269جسمانی بیماریوں کا تذکرہ بمعہ حوالاجات موجود ہے،مرزا کے جسمانی وجود
پراِن بیماریوں کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ مرزا کاذب و ملعون تھا،کیونکہ
اللہ کا سچا نبی حسن وجمال کا پیکر،نفاست و صفائی سے آراستہ اور قابل رشک
جسمانی صحت واعضاءکا مالک ہوتا ہے،قانون فطرت تو یہ ہے کہ اُس کے جسم پر تو
مکھی تک نہیں بیٹھتی۔لیکن یہ کیسا مدعی نبوت تھا جس کا جسم ”نامردی،دماغی
کمزوری،ضعف قلب،ذیابیطس،درد سر، تشنج، خارش، جزام، رعشہ، فالج، مراق،اعصابی
کمزوری، مالیخولیا،دق،سل،کثرت دست اور کثرت بول وغیرہ“ جیسی 269 خبیث اور
قابل شرم و نفرت بیماریوں کی آماجگاہ تھا،یقینا یہ تازیانہ عبرت اورعذاب
الٰہی تھا جس نے ہر لمحہ مرزا کو کسی نہ کسی جان لیوا بیماری میں جکڑے
رکھا،حتٰیکہ اُس کی موت بھی مرض ِ ہیضہ کے سبب ہوئی۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ قادیانی لٹریچر سے اخذ کردہ مرزا قادیانی کی موذی
بیماریاں اُس کے جھوٹے الہامات”ہم نے تیری صحت کا ٹھیکہ لیا ہے۔“یا ”اُس نے
مجھے براہین احمدیہ میں بشارت دی کہ ہر ایک خبیث عارضہ سے تجھ کو محفوظ
رکھوں گا اور اپنی نعمت تجھ پر پوری کردونگا۔“ کی بین دلیل اور مرزا کے
پیروکاروں کیلئے دعوت غورو فکر ہے،جناب صادق علی زاہد نے بڑی عرق ریزی سے
قادیانی لٹریچر کا مطالعہ کرکے 269بیماریوں کی طویل فہرست جدید انداز تحقیق
کے ساتھ ایک نئے اسلوب سے قارئین کے سامنے پیش کی ہے،جو اِس موضوع پر فاضل
مولف کے وسیع تجربے،عمیق تجزیئے اور ماہرانہ قلمکاری کا عملی ثبوت ہے،محترم
جبار مرزا درست فرماتے ہیں کہ ”اگر ذوق و جنوں زندہ ہو تو کوئی کام مشکل
نہیں ہوتا۔“فاضل مولف نے ننکانہ جیسے دور افتادہ علاقے میں رہتے ہوئے جس
محنت شاقہ سے مطالعہ و تحقیق کا یہ مشکل مرحلہ طے کیا ہے،وہ یقینا قابل
ستائش ہے،ہماری دعا ہے کہ ربّ کریم انہیں مزید کامیابیاں و کامرانی اور
سعادت ِ دارین عطا فرمائے۔ آمین |