بسم اﷲ الرحمن الرحیم
تبصرہ کتاب:جامعہ حنیفیہ ،فاروقی مسجدسعودآباد کراچی،پاکستان
دیدہ زیب،خوبصورت اور آیت قرآنی سے مزین سرورق کے ساتھ ’’دوماہی
الحنیف‘‘موصول ہوا،مطالعہ کے نتیجہ میں اسے ایک ہمہ جہت رسالہ پایا جس میں
اصلاحیات واخلاقیات کے ساتھ مزاحیات بھی بڑے معیاری اورشستہ وچستہ اندازمیں
پیش کیے گئے ہیں۔اپنی جداگانہ ترتیب کے باعث قاری کی توجہ شروع سے آخر تک
رسالہ میں مبذول رہتی ہے۔ماہرالقادریؒ اورمولانا ابوالکلام آزادؒکی تحریروں
کا انتخاب بہت عمدہ اورقابل صد ستائش ہے۔خاص طور پر اردومضامین میں بھی
بدیسی زبان کی فراوانی استعمال کے باعث طبع اسلوب پربعض اوقات جو کوفت گراں
گزرتی ہے ،ان بزرگوں کی تحریروں نے اسکا کافی و شافی تدارک کیا۔ کسی ’’بندہ
خدا ‘‘کی طرف سے دیے گئے اشتہارات سے اندازہ ہوا کہ اہل ایمان کی حرارت
ابھی دنیاکو زندہ و تابندہ رکھے ہوئے ہے،اﷲ تعالی اس ’’بندہ خدا‘‘کو
اجرعظیم عطا کرے کہ جہاں اپنی مسکراہٹیں بھی برائے فروخت رکھی جاتی ہوں
وہاں ﷲیت کایہ جزبہ قابل تقلید ہے۔
رسالہ میں حمدونعت کو درمیان میں جگہ دی گئی ہے لیکن ان کا مقام اولین
صفٖحات میں بنتاہے،پروف کی بعض اغلاط نظر ثانیہ کاشدت سے تقاضا کرتی
ہیں،اور جو نسخہ فقیرکوموصول ہوااس کی جلد بندی میں بھی صفحات کی ترتیب الٹ
پلٹ سی ہے،امید ہے باقی نسخوں میں یہ خامی نہ ہوگی۔حالت حاضرہ پر تبصرہ اور
خاص طور پر دیگر دنیاؤں کے احوال اس رسالے کی عمدگی کوچار چاند لگا سکتے
ہیں۔مجلے کے ذمہ داران کا ذوق شعرونثربھی بہت پسند آیا،خاص طورپر اکبرالہ
آبادی کاانتخاب بہت اچھالگا۔ماضی کے وہ ادیب و شاعر جنہوں نے دورغلامی میں
مسلمانان برصغیرمیں روح آزادی پھونکنے کاکٹھن بیڑااٹھایاان کاتذکرہ اپنے
مستقبل کی زلفیں سنوارنے کے لیے بہت ضروری ہے،امید ہے یہ سلسلہ گم نام
ادیبوں اور شاعروں کے ضمن میں بھی جاری رہے گا۔
اﷲکرے یہ مجلہ اپنے مقاصدکی تکمیل کر پائے اور وطن عزیزکے لیے خاص
طورپراورامت مسلمہ و عالم انسانیت کے لیے عام طور پرایک اچھے دور کی نوید
بن سکے،آمین۔
|