بلوچستان میں ماں اور بچوں کی شرح
اموات نہایت زیادہ ہے۔ بلوچستان میں ایک لاکھ خواتیںن جب زچگی کے عمل سے
گزرتی ہیں تو 785 مائیں موت کی آغوش میں چلی جاتی ہیں۔ پاکستان ھیلتھ
ڈیموگرافک سروے 2012 کے مطابق بلوچستان میں پیدائیش کے فوری بعد ایک ہزار
نوزائیندہ بچوں میں سے 63 بچے فوت ہو جاتے ہیں جبکہ ایک ہزار زندہ پیدا
ہونے والے بچوں میں سے 97 بچے موت کے منہ میں جلے جاتے ہیں اسی طرح ایک
ہزار زندہ پیدا ہونے والے بچوں میں سے 111 بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے
سے پہلے انتقال کر جاتے ہیں۔ ماں اور بچوں کی یہ شرح اموات دنیا بھر میں
زیادہ اور شرمناک ہے۔
بلوچستان میں صرف 29.1 فیصد زچگی تربیت یافتہ عملہ کے ذریعے ہوتی ہے۔
بلوچستان میں کمیونٹی میڈ وائیٍف کی تعداد صرف 167 ہے، جبکہ لیڈی ھیلتھ
ورکرز کی تعداد 6720 ہے اور صوبہ بھر میں ویکسینیٹرز کی تعداد 943 ہے۔ ماں
اور بچے کی شرح اموات کو کم کرنے میں لیڈی ھلتھ ورکرز اور کمیونٹی میڈ
وائیٍز نہایت اہم کردار کی حامل ہیں۔ کیوں کہ لیڈی ھلتھ ورکرز اور کمیونٹی
میڈ وائیٍز اپنی کمیونٹی میں ہر وقت موجود ہوتی ہیں اور اور بر وقت حاملہ
خواتین کو زچگی کے دوران مدد کرتے ہوئے ماں اور بچے کی زندگی کو لاحق خطرہ
سے بچا سکتی ہیں۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبائی شعبہ غذایت کے لیئے حکومت کی جانب سے فنڈز
مہیا نہیں کیے گیے۔ ضررت اس امر کی ہے کہ بلوچستان میں میڈ وائیٍف، لیڈی
ھیلتھ ورکرز اور ویکسینیٹرز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے صوبائی شعبہ غذایت
کے لیئے حکومت کی جانب سے فنڈز مختص کیئے جائیں تا کہ ماں اور بچوں کی
انتہائی ذیادہ شرح اموات کو کم کیا جا سکے۔ |