فی زمانہ کسی بھی متنازع معاملے
میں دلچسپی رکھنے کا اعتراف گناہ، بلکہ کفر کے مترادف ہے۔ کرکٹرز جس طور
راتوں رات باری باری عِزّت اور ذِلّت سے ’’سرفراز‘‘ ہوتے ہیں اُسے دیکھتے
ہوئے یہ بتاتے ہوئے دل سہم سا جاتا ہے کہ کبھی ہم بھی کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔
کھیل کے معاملے میں کوئی خاص تیر تو ہم نہ مار سکے مگر ہاں، کرکٹ کے نام پر
خوب دل پشوری ضرور کی۔ کھیل کے میدان میں اُترتے تو کرکٹ سے زیادہ ہم ایک
دوسرے کے جذبات اور انا سے کھیلا کرتے تھے۔ کسی کا پستہ قد یا بلند قامت
ہونا جملے بازی کے لیے کافی تھا۔ کوئی بہت موٹا لڑکا اگر بولنگ کرا رہا ہو
تو سمجھ لیجیے اُس کی تو شامت ہی آگئی۔ غیر معمولی قد یا جسامت والے ہر
لڑکے پر دل کھول کر جملے کسے جاتے تھے اور کھیل سے زیادہ مزا اِس کھیل میں
تھا۔
جب کوئی لڑکا خاصا اونچا شاٹ لگاتا تھا تو فیلڈرز کیچ لینے کی کوشش کرتے
تھے۔ گیند اگر فضا میں دیر تک رہے تو فیلڈر کو اُس کے نیچے آنے کا درست
زاویہ طے کرنے میں دِقّت پیش آتی ہے۔ جب کوئی لڑکا کیچ کی تیار کر رہا ہوتا
تھا یعنی اُس کی نظریں گیند پر ہوتی تھیں اور ٹانگیں مسلسل حرکت کر رہی
ہوتی تھیں تب ہم اُسے پریشان کرنے کے لیے خوب شور مچاتے تھے، ہُوٹ کرتے تھے
تاکہ توجہ بٹے اور وہ کیچ چھوڑ دے۔ کبھی ہم کامیاب ہوتے تھے اور کبھی فیلڈر۔
اِس وقت چین کے معاملے میں امریکا اور یورپ وہی کچھ کر رہے ہیں جو ہم کیچ
لینے کی تیاری میں مصروف فیلڈر کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ چین نے ایسی اُڑان
بھری ہے کہ ہاتھ آنے کا نام نہیں لے رہا۔ اُس کی معیشت نے اکنامک پاور ہاؤس
کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں چین نے ہر ترقی یافتہ ملک
کی ’’واٹ‘‘ لگادی ہے۔ آبادی اِتنی زیادہ ہے کہ ہر چیز بہت بڑے پیمانے پر
تیار کی جاتی ہے یا کرنی پڑتی ہے۔ نتیجہ لاگت کے انتہائی کم رہنے کی صورت
میں برآمد ہوتے ہے۔ جب لاگت کم ہوگی تو عالمی منڈی میں مقابلہ آسان ہی ہوگا۔
یوں چین کا مال دنیا بھر کی منڈیوں میں تیزی سے پہنچتا ہے اور تیزی سے
فروخت ہو جاتا ہے۔ کئی ممالک نے اپنے مینوفیکچرنگ کے شعبے کو چین سے درپیش
مسابقت کے باعث تبدیل کیا ہے اور مقامی صنعت کاروں کے لیے حالات بہتر بنانے
پر توجہ دی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ بَچھڑے ہاتھی سے ٹکّر کِس طرح لیں؟ آدمی
لڑتا وہاں ہے جہاں گنجائش ہوتی ہے۔ جب فریقِ ثانی گنجائش ہی ختم کردے تو
کوئی کیا کرے؟ چین نے عالمی منڈی میں مسابقت کی گنجائش یا تو چھوڑی ہی نہیں
یا پھر اِتنی کم کردی ہے کہ اب تک راج کرنے والے تاراج ہوکر رہ گئے ہیں۔
سَر پر سجا ہوا ترقی کا تاج ہِل جُل رہا ہے، کسی بھی وقت گر کر دُھول چاٹ
سکتا ہے۔ چین نے ایسا ’’وختا‘‘ ڈالا ہے کہ مغرب کے بڑے بڑے دِماغوں نے کام
کرنا چھوڑ دیا ہے۔
جب کسی بھی مسابقت کی سکت نہ رہے تو؟ واویلا ہی رہ جاتا ہے۔ مغرب بھی چین
کے معاملے میں واویلا ہی کر رہا ہے۔ جو کچھ چین نے پانچ عشروں کی محنت سے
حاصل کیا ہے اُس سے خائف اور بدظن ہوکر اب مغرب کی پروپیگنڈا مشینری چین کو
لتاڑنے پر تُل گئی ہے تاکہ اُس کی توجہ ہٹے اور وہ کیچ چھوڑ دے! مگر چینی
بھی کچّی گولیاں نہیں کھیلے۔ اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہاتھی کی سواری
گزرتی ہے تو کُتّے بھونکتے ہی ہیں۔ کُتّے بھونکتے رہ جاتے ہیں اور ہاتھی کی
سواری گزر جاتی ہے۔ اِس مشرق کی طرف سے ہاتھی کی سواری چلی ہے اور مغرب میں
کُتّون نے بھونکنا شروع کردیا ہے۔ ’’شِدّتِ بھونک‘‘ کا عالم دیکھیے کہ چین
کے جن معاملات سے باہر کی دنیا کا کوئی تعلق نہیں اُن کا رونا بھی خاصی دل
جمعی سے رویا جارہا ہے۔ بعض ’’خواتین‘‘ خیر سمجھدار ہوتی ہیں مگر بیشتر ’’عورتوں‘‘
کا شیوہ یہ ہے کہ جب کچھ نہ بن پڑے تو کوسا جائے، لتاڑا جائے، طعنے دیئے
جائیں۔ چین کے معاملے میں مغرب کے بُرزجمہر یعنی پالیسی میکرز اور ’’تِھنک
ٹینکرز‘‘ اِس وقت یہی کر رہے ہیں۔ جب کسی کی خوش حالی ایک آنکھ نہیں بھاتی
تو عورتیں اُس خوش حالی میں بھی بدحالی کے پہلو تلاش کرتی ہیں اور اپنی
دانست میں کامیاب ہوکر مورچہ بند ہو جاتی ہیں۔ اِس کے بعد کوسنے اور طعنہ
زن ہونے کی منزل آتی ہے۔ مغربی تِھنک ٹینک بھی چین کے خلاف مورچہ بند ہیں
اور ہر اُس معاملے کو اُچھالا دینے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا کسی بھی ملک،
خطے یا علاقائی و عالمی منڈی سے کوئی تعلق نہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ چین
کی ترقی پائیدار نہیں۔ اب کوئی پوچھے کہ بھائی ترقی چین کی ہے۔ پائیدار ہو
یا نہ ہو، آپ سے مطلب۔ کوئی یہ راگ الاپ رہا ہے کہ چین کے لیے آگے چل کر
ماحول کے حوالے سے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ماحول بگڑے
گا تو چین کا بگڑے گا، کسی کو کیا غرض؟ بعض تجزیہ کاروں کو یہ فکر لاحق ہے
کہ چین کا انسانی حقوق کا ریکارڈ شاندار نہیں۔ کوئی اُن سے پوچھے کہ انسانی
حقوق کے شاندار ریکارڈ سے کیا مُراد ہے؟ کیا چینیوں کو عزت سے دو وقت کی
روٹی نہیں مل رہی؟ کیا وہ رات دن دہشت گردی کا شکار رہتے ہیں؟ کیا اُن کی
انفرادی ترقی کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ ہے؟ کیا چین میں کسی خاص یا چند
مخصوص علاقوں کو پس ماندہ رکھا گیا ہے؟ کیا چین کے دیہات کا نقشہ بعض ترقی
پذیر ممالک کے شہروں سے بہتر نہیں؟ کیا چین میں تعلیم عام نہیں؟ خواندگی کی
شرح گِری ہوئی ہے؟ کیا چینی روزمرہ معاملات میں غُصیلے اور اشتعال پسند ہیں؟
کیا وہ محنتی نہیں؟ کیا اُنہیں تمام بنیادی سہولتیں میسر نہیں؟ آخر وہ کون
سی چیز ہے جو اہلِ مغرب کو پریشان رکھتی ہے؟
مغرب نے بہت کچھ پایا ہے مگر بہت کچھ کھو کر۔ چینیوں نے بھی بہت کچھ پایا
ہے مگر اب تک کچھ خاص کھویا نہیں۔ اُن کی قدریں سلامت ہیں، روایات زندہ ہیں۔
ترقی یافتہ قوم ہوکر بھی چینی اب تک اُن چونچلوں سے آشنا نہیں ہوئے جنہیں
اہلِ مغرب نے دُم چَھلّے کی طرح اپنے ساتھ لگالیا ہے۔ چینیوں نے بہت کچھ
پاکر بھی خود کو قابو میں رکھا ہے، متوازن زندگی بسر کر رہے ہیں، وطن سے
پیار کرتے ہیں، مذہب کو بھی اپنی زندگی میں جائز مقام دے رکھا ہے، بہت سے
معاشرتی اور اخلاقی عُیوب سے دور اور پاک ہیں، فضول خرچی کے عادی نہیں،
کھانے پینے میں اعتدال کی راہ پر گامزن ہیں اور بہت سے دوسرے معاملات میں
بھی میانہ روی کے قائل ہیں۔
انٹرنیٹ پر تلاش کیجیے تو مغرب کے تجزیہ کار جا بجا چینیوں کو نصیحت کرتے
اور ڈراتے ملیں گے۔ کوئی تیس مار خاں یہ کہتا ہے کہ چین ترقی کی دوڑ میں
زیادہ دور نہیں جاسکے گا۔ کسی کا فرمان ہے کہ چینی قیادت کو اب ترقی کے
بارے میں سوچنا چھوڑ کر اپنے باشندوں کا معیارِ زندگی بلند کرنے پر توجہ
دینی چاہیے۔ گویا یہ دونوں الگ معاملات ہیں! چینی پالیسی میکرز کو مشوروں
سے نوازنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ تائیوان کے تنازع کو اِشو بناکر چین کو
گھیرنے کا مشورہ دینے والے بھی معقول تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اہلِ مغرب
کا جتنا وقت دوسروں کے بارے میں سوچتے ہوئے گزرتا ہے اُتنا وقت وقت اگر وہ
اپنے خطے کی اصلاح کے بارے میں سوچنے پر صرف کریں تو فلاح پاجائیں!
چین کو بظاہر اِس بات کی پروا نہیں کہ اُس کے بارے میں کیا سوچا جارہا ہے۔
اُس کی قیادت تو فی الحال اِس فکر میں غلطاں ہے کہ کل اُس کے ملک کے بارے
میں کیا سوچا جائے گا اور وہ ترقی کے زینے پر کہاں کھڑے ہوں گے۔ ترقی کے
میدان میں کیچ لینے کے لیے سنجیدہ فیلڈرز یہی ایسی ہی سوچ رکھا کرتے ہیں۔
ہاتھی کی سواری گزر رہی ہے۔ کُتّوں کے بھونکنے میں شِدّت آتی جارہی ہے۔ مگر
ہاتھی اپنی چال میں اور اپنے حال میں مست ہے۔ ترقی کرتی ہوئی اقوام کو بہت
کچھ نظر انداز بھی کرنا پڑتا ہے، آنکھیں کہیں کہیں بند بھی رکھنی پڑتی ہیں۔
ع
دریا کو اپنی موجوں کی طُغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے! |