جو کچھ قسمت میں ہوتا ہے وہ یا
تو ہوکر رہتا ہے یا پھر انسان ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ وہ ہوکر ہی رہتا
ہے۔ اب عمران بھائی ہی کی مثال لیجیے۔ ایک زمانے سے لوگ سمجھا رہے ہیں کہ
بھائی، اچھی خاصی زندگی ہے تو کیوں اُسے تلپٹ کرنے پر تُلے ہو۔ مگر وہ ہیں
کہ ماننے کو تیار نہیں اور بضد ہیں کہ شادی کرنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
ہم نے بارہا سمجھایا ہے کہ جناب! شادی کے بعد کبھی کوئی چین سے بیٹھ سکا ہے
جو آپ بیٹھیں گے! مگر اُن کی آنکھوں پر تو سہرے اور شہنائی کی پَٹّی بندھی
ہے۔
عمران بھائی کا کیس ’’آ بیل، مجھے مار‘‘ والا ہے۔ بلکہ ’’آ گائے، مجھے مار‘‘
کہنا زیادہ زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ ہم نے ہمیشہ اپنی رائے کو احترام کی
نظر سے دیکھا ہے کہ مَرد اﷲ میاں کی گائے ہوتے ہیں اور بیشتر معاملات میں
خواتین، اپنے مزاج میں پائے جانے والے خُرّانٹ پن کے باعث، بیل ثابت ہوتی
رہی ہیں! ہوسکتا ہے خواتین ہماری سادہ و پُرکار ٹائپ کی رائے سے متفق نہ
ہوں۔ اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ خواتین کبھی کسی بھی سَچّی بات سے
متفق نہیں ہوتیں۔ مَرد اگر ساری جیبیں چیک کرادے، بینک اسٹیٹمنٹ بھی پیش
کردے تب بھی خواتین زیرو بیلنس کی سَچّائی کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے
ہوئے ’’زیرو ٹولرنس‘‘ کی راہ پر گامزن رہتی ہیں یعنی شاپنگ کے لیے کہیں نہ
کہیں سے رقم کا بندوبست کرنے کی ضد پر اڑی رہتی ہیں اور بالآخر اپنی بات
منواکر دم لیتی ہیں۔
ہم نے بیسیوں مثالیں پیش کی ہیں۔ ہزار طریقوں سے سمجھایا ہے۔ حد یہ ہے کہ
حسن جہانگیر کے گائے ہوئے ایک ’’چشم کشا‘‘ گانے ’’شادی نہ کرنا یارو،
پچھتاؤگے ساری لائف‘‘ کا حوالہ بھی دیا ہے مگر عمران بھائی ماننے کو تیار
نہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کی مثال بھی پیش کی ہے کہ دیکھو، عمران خان
نے ایک بار فرازِ دار سے لَوٹنے پر فریبِ ثانی کو گلے لگانے کی ہمت اپنے
اندر نہیں پائی۔ اور سب سے بڑھ کر تو ہماری اپنی مثال ہے۔ ہم نے گھریلو
معاملات میں اپنی مثالی مظلومیت کا حوالہ دے کر بھی ازواجی زندگی کے گڑھے
میں گرنے سے روکنے کی کوشش کی ہے مگر عمران بھائی ہیں کہ کچھ سمجھنے کو
تیار نہیں۔ گویا محض ہمارے دوست ہی نہیں بلکہ سَچّے اور کھرے پاکستانی بھی
ہیں! پس ثابت ہوا کہ وہ ’’خود خوشی‘‘ کا مُصمّم ارادہ کرچکے ہیں۔ ٹھیک ہے
صاحب، ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟
جب ہم نے مرزا تنقید بیگ سے عمران بھائی کا ذکر کیا تو چند لمحات کے لیے وہ
گویا پَتّھر کے ہوگئے۔ ہم ڈر گئے کہ کہیں اُن پر سکتہ تو طاری نہیں ہوگیا۔
کسی زمانے میں وہ شعر بھی کہا کرتے تھے۔ تب اُن کے اشعار میں کچھ ایسا ہی
سکتہ پایا جاتا تھا! جب شادی ہوگئی تو اشعار والا سکتہ اُن کی زندگی کے
بیشتر معاملات پر محیط ہوگیا۔ اُنہوں نے کئی شعراء کے لیے سہرے لکھے۔ اِس
عنایت کا بدلہ یہ ملا کہ بعد میں اُن کے ازواجی معاملات دیکھتے ہوئے شعراء
میں سے بعض احباب نے مثنویاں نذرِ قرطاس کیں اور چند ایک نے تو اُنہیں
’’خراجِِ عقیدت‘‘ پیش کرنے کے لیے مرثیہ نُما نظمیں بھی کہہ ڈالیں۔ حالات
ایسے تھے کہ مرزا نے ایسی کسی بھی کاوش کا بُرا نہ مانا۔
عمران بھائی کا ذکر سُن کر اُن پر طاری ہونے والا سکتہ ٹوٹا تو ہم نے پوچھا
کیا ہوا تھا۔ کہنے لگے۔ ’’یہ محترم تو انتہائی نامعقول اور ناشکرے معلوم
ہوتے ہیں۔‘‘ ہم نے وضاحت چاہی تو فرمایا۔ ’’فی زمانہ لوگ شادی کے پھیر سے
بچے رہنے پر اﷲ کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتے اور یہ جناب رشتے کی فکر میں
گُھلنے سے نہیں تھک رہے۔‘‘ اِس کے بعد اُنہوں نے اپنے مخصوص ذخیرۂ الفاظ
اور انتہائی منفرد انداز سے عمران بھائی کو ایسا ’’خراجِ تحسین‘‘ پیش کیا
کہ ہم طُرّم خاں ٹائپ کے لکھاری ہونے کے باوجود وہ سب کچھ بیان کرنے کی ہمت
اپنے اندر نہیں پاتے!
مرزا اپنے ذاتی تجربات (یعنی حوادث) کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ فی زمانہ
جس کی شادی نہیں ہوئی ہے وہ ہر گز دِل چھوٹا نہ کرے بلکہ دن میں دو تین بار
شُکر کے سجدے کیا کرے کہ چھوٹی سی زندگی مزید چھوٹی ہونے سے بچ گئی ہے!
مرزا جب کسی کو شادی کے لیے اُتاؤلے پن کا مظاہرہ کرتا پاتے ہیں تب اُن کی
رگِ مذمّت پھڑک اُٹھتی ہے اور وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ اِس میں اُن کا
کوئی قصور نہیں۔ بھابی کے سامنے اُن کی نہیں ایک نہیں چلتی۔ دِل میں پائے
جانے والے غُبار کو اخراج کا راستہ چاہیے۔ جب کوئی شادی نہ ہونے پر افسردہ
نظر آتا ہے تو مرزا موقع غنیمت جانتے ہوئے اُس کے دِل و دِماغ کی مذمّت و
مرمّت کر ڈالتے ہیں اور پھر ذرا سی دیر میں فریقِ ثانی کے چراغوں میں روشنی
نہیں رہتی!
عمران بھائی بکروں کے دھندے سے وابستہ ہیں۔ یعنی ایک قصّاب کی دُکان پر
کاریگر ہیں۔ بُغدا چلانا اُن کا کام ہے اور آن کی آن میں سالم بکرے کا تیا
پانچا کر ڈالتے ہیں۔ مرزا نے جب یہ سُنا کہ عمران بھائی ’’بُغدا نواز‘‘ ہیں
تو مزید حیران ہوئے۔ کہنے لگے۔ ’’رات دن بُغدا چلانے پر بھی یہ صاحب شادی
کے لیے بے تاب ہیں۔ کیا اِنہیں کسی نے بتایا نہیں کہ ازواجی زندگی بھی
بُغدے کی زد میں آنے جیسی ہی کیفیت کا دوسرا نام ہے۔ بُغدے کے ہاتھوں ٹکڑے
ٹکڑے ہونے والا بکرا تو پھر بھی کام کا رہتا ہے یعنی پکاکر کھالیا جاتا ہے۔
مرد بے چارے ازواجی زندگی کے بُغدے سے کٹنے کے بعد کسی کام کے نہیں رہتے،
اِدھر سے اُدھر رُلتے رہتے ہیں۔ ہوسکتا عمران بھائی یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ
بُغدا چلانے کا کام کرتے ہیں اِس لیے ہونے والی شریکِ حیات غریقِ حیات ہو
رہیں گی یعنی بُغدے کے خوف سے بکری کی طرح سہمی سہمی گزر بسر کرلیں گی۔ اب
اُنہیں کون سمجھائے کہ دُلہن بکری کی طرح صرف دو چار دن ہی سہمی رہتی ہے۔
اِس کے بعد وہ خود چُھری بن کر دولہا میاں کے گلے پر چل جاتی ہے!‘‘
ہم مرزا کی کسی بھی بات کو تسلیم کرنے سے گریز نہیں کرتے کیونکہ اُن کی
زندگی کا حشر نشر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ مرزا کا معاملہ تو چلیے،
اُن کا اپنا معاملہ ہے۔ ہم کیا حقیقت پسند نہیں؟ کیا ہم اپنی حقیقت بُھول
جائیں؟ شادی کے بعد ہم نے زندگی کے معرکے میں ایسے کون سے تیر مار لیے ہیں
جو عمران بھائی کو آگے بڑھنے کی تحریک دیں۔ عمران بھائی جس انہماک سے گھر
بسانے کی کوشش کر رہے ہیں اُسے دیکھتے ہوئے باقیؔ صدیقی مرحوم یاد آتے ہیں
جو کہہ گئے ہیں
اپنی قسمت سے ہے مَفَر کِس کو؟
تیر پر اُڑ کے بھی نِشانے لگے!
مولانا محمد حسین آزادؔ نے سوا صدی پہلے قبل کہا تھا کہ انسان کسی حال میں
خوش نہیں رہتا۔ اب پتا چلا کہ اِنسان اُس حال میں تو کسی حال میں خوش نہیں
رہتا جس میں وہ خوش رہ رہا ہوتا ہے! ہماری نیک تمنائیں عمران بھائی کے ساتھ
ہیں کیونکہ آخر آخر میں اِس راہ میں صرف نیک تمنائیں ہی رہ جاتی ہیں! اب
اگر عمران بھائی مُصر ہی ہیں تو ہم پورے خلوص سے کہیں گے ’’جا بیل، اُسے
مار!‘‘ |