کتاب حاضر ، قاری غائب۔ کمپیوٹر اسکرین کسی
طور مطبوعہ نگارش کا متبادل نہیں
اقوام متحدہ نے اپنے قیام کے ابتدائی سالوں میں دنوں ، ہفتوں ،سالوں اور دس
سالوں کا انتخاب کیا جس کا بنیادی مقصد عالمی سطح کے مسائل اور issuesجن
میں اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے دلچسپی رکھتے تھے کو اجاگر کرنا
تھا۔بسا اوقات یو این کے ذیلی ادروں نے اپنے پروگرام کے مطابق بعض مسائل کو
اہمیت د یتے ہوئے مخصوص دنوں کو مقرر کرلیا جیسے عالمی ادارہ صحت WHOنے صحت
کا عالمی دن، World No-Tobacco Day، گردوں کا عالمی دن دل کا عالمی دن،ٹی
بی کاعالمی دن وغیرہ کے انعقاد کی بنیاد رکھی ۔ اسی طرح یونیسکو نے بھی بعض
موضوعات کو اجاگر کرنے اور عوام الناس میں شعور بیدار کرنے کے لیے مختلف
دنوں کا انتخاب کیا اور اس دن اس موضوع کی مناسبت سے سیمینار، ورکشاپ،
کانفرنسیزاور نمائش کااہتمام کیا جانے لگا۔ جیسے ’پانی کا عالمی دن‘، عالمی
لٹریسی ڈے‘، عالمی ماحولیاتی ڈے‘، ماں کا عالمی دن، باپ کا عالمی دن،مادری
زبان کا عالمی دن اوراسی طرح دیگر موضوعات پر دنوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
علم و ادب اور تحقیق کی دنیا میں کتاب اپنامُماثل نہیں رکھتی اور اسے حصول
علم، ترسیل علم اور فروغ علم میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ پڑھنا یعنی اقراء
ہمارے ایمان کا حصہ ہے ، ہماری کتاب ’قرآن مجید ‘ کی ابتداء ہی لفظ ’اقراء‘
سے ہوئی۔ اہلِ مغرب کے لیے کتاب جتنی اہمیت رکھتی ہے مسلمانوں کے لیے بھی
کتاب اتنی ہی اہم اور اَفضَل ہے۔آنحضرت محمد ﷺ نے خطُبۂ حجّتہ الوَداع کے
موقع پر ارشاد فرمایا ’’میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ
کبھی گمراہ نہ ہوگے اگر اس پر قائم رہے اور وہ اﷲ کی کتاب ہے‘‘۔
کتاب کے عالمی دن کے لیے یونیسکو نے ۲۳ اپریل کا انتخاب کیا اور اس دن کو
’’کتاب اور کاپی رائٹ کا عالمی دن‘‘ قرار دیا۔بنیادی مقصد عوام الناس میں
کتاب کی اہمیت اجاگر کرنا،کتاب سے محبت اور انسیت کا شعور بیدار کرنا،
لوگوں میں مطالعہ کی عادت کا فروغ شامل ہے ااس کے علاوہ کاپی رائٹ یعنی حقِ
تصنیف کا بنیادی مقصد ادیبوں، شاعروں ، مصنفین و مؤلفین کے حقوق کی حفاظت
کو یقینی بناناہے جو انہیں قلمی کاوشوں اور تخلیقات کی نسبت سے ان کو ادا
کیا جانا چاہیے، پاکستان میں یہ قانون ’’پاکستان کاپی رائٹ ایکٹ ۱۹۶۲ء‘‘ کے
نام سے نافذ العمل ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس قانون پر نظر ثانی بھی کی جاتی
رہی ۔۲۳ اپریل کے انتخاب کی وجہ اور اس کا تاریخی پس منظر دلچسپ بھی ہے اور
منطقی بھی۔ کتاب کسی بھی انسانی عمل کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے، اس کا
خالق عرفِ عام میں مصنف کہلاتاہے ۔ چنانچہ اقوام متحدہ نے کتاب اور ان کے
خالقوں یعنی مصنفین کو عالمی سطح پر خراج تحسین پیش کرنے کی غرض سے اس دن
’’کتاب کے عالمی دن ‘‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ ۲۳ اپریل اہل مغرب کے
اعتبار سے مناسب دن ضرور ہے لیکن اسلامی اعتبار سے یا مسلمانوں کے حوالے اس
دن میں کوئی منطق اور معقول وجہ نظر نہیں آتی۔ یہ تاریخ متعدد مغربی مصنفین
اور دانشوروں کی پیدائش یا اس دنیا سے رخصت ہوجانے کا دن ہے۔اس دن کا کتاب
سے کیا تعلق ہے ؟ تحقیق سے واضع ہوا کہ سب سے پہلے اسپین کے شہر کیٹا
لونیاCataloniaمیں کتب فروشوں نے اس دن کو تقریب کے طور پر منانے کا اہتمام
کیا جس کا مقصد معروف مصنف Miguel de Cervantes کو خراج عقیدت پیش کرنا تھا
جس کا انتقال ۲۳ اپریل کو ہو ا تھا۔پھر اس ریجن میں یہ تقریب Saint Georg's
Day کا حصہ بن گئیں۔عہد قدیم medieval era سے ایک روایت یہ بھی چلی آرہی
تھی کہ اس دن مرد حضرات خواتین کو گلاب کا پھول پیش کیا کرتے تھے، ۱۹۲۵ ء
میں اس روایت میں ایک خوش گوار تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ جواب میں خواتین
مردوں کو کتاب تحفے میں دینے لگیں۔کیٹالونیا شہر میں اس دن چار لاکھ کتابیں
فروخت ہونے لگیں اور اس کے مقابلے میں چار ملین گلاب کے پھول خریدے جاتے
تھے۔
۲۳ اپریل عالمی ادب کے لیے ایک symbolic date for world literature تھی
کیونکہ اس دنCatalonian festival کے علاوہ مغربی دنیا کے معروف دانشور
اورمصنفین شیکسپئر(Shakespearکی موت ۲۳ اپریل ۱۶۱۶ء کو واقع ہوئی، ولیم
ورڈسورتھ(William Wordsworth)۲۳ اپریل ۱۸۵۰ء کو اس دنیا سے رخصت ہوا،،
کاروینٹیس(Carvantes)، انکا گارسیلاسو ویگا ڈرؤن(Inca Garcilaso de la Vega
Maurice Druon) ، کے لیکسنیس(K. Laxness) ولاڈیمور نابوکو (Valdimir
Nabokov)، جوزیف پلا(Josep Pla)اور میونیل ماجیا ولیجوکا(Manuel Mejia
Vallejo) کی تاریخ پیدائش یا تاریخ وفات بھی ہے۔ دنیا کی معروف ادبی شخصیات
کا اس دن سے تعلق یونسکو کے لیے وجہ بنا کہ وہ اس دن کو عالمی سطح پر کتاب
اور اس کے خالق کو tributeپیش کرے کے لیے اختیار کرے۔ ۱۹۹۵ء میں
یونیسکوجنرل کانفرنس پیرس میں پہلی بار منعقد ہوئی جس میں عالمی سطح پر کتب
اور مصنفین کو خراج عقیدی پیش کیا گیا اورریڈنگ، پبلشنگ اور کاپی رائٹ کے
فروغ کے لیے ہر سال اس دن کو عالمی سطح پر منا نے کی سفارش کی۔ اس کا
بنیادی مقصد to promote reading, publishing and copyright ہے۔اور مصنفین،
ناشرین، لائبریرینز اور پڑھنے والوں کے مابین رابط، تعلق پیدا کرنا اور
انہیں خراج تحسین پیش کرنا ہے۔کتاب لکھنے والوں کو لکھنے کی ترغیب دینا اور
ان کے حوصلہ افزائی کرنا، مطالعہ کی عادت پیدا کرناور لوگوں کو کتاب کی
جانب مائل کرنے کی ترغیب دینا، کتاب شائع کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا
ہے۔ کتاب کی اہمیت ہر دور اور ہر زمانے میں رہی ہے، آج بھی ہے اورآئندہ بھی
رہے گی۔بعض احباب کا کہنا ہے کہ انٹر نیٹ اور کمپیوٹر سے کتاب کی اہمیت اور
وَقَعت ختم ہوگئی ہے نہیں ہر گز نہیں، کتاب کی اہمیت آج بھی و ہی ہے، آج
بھی best sellerمنظر عام پر آرہی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کتاب چھپ رہی
ہے، فروخت ہورہی ہے اور پڑھی بھی جارہی ہے۔البتہ لوگوں میں مطالعہ کی عادت
بہت خفیف ہوگئی ہے۔ مطبوعہ کتاب پڑھنے کا جو لطف ہے وہ کمپیوٹر اسکرین پر
کتاب پڑھنے میں ہر گز نہیں۔ برقی ترقی کے حوالے سے ہم کتنی ہی ترقی کرلیں
کتاب کی وقعت اپنی جگہ مسلم رہے گی۔
کتاب سے محبت و عقیدت کی بے شمار مثالیں تاریخ کا حصہ ہیں جن سے کتاب کی
اہمیت اُجاگر ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ علامہ ابن رشد نے ساری عمر کتب بینی
میں صرف کر دی اس کی عمر میں صرف دو ’۲‘راتیں ایسی گزری کہ جب وہ مطالعہ نہ
کر سکا، ایک شادی کی اور دوسری والدہ کی وفات کی رات۔اسی طرح مشہور عالم
جاحظ نے تو اپنی جان ہی ذوق مطالعہ کی نظر کر دی وہ آخری عمر میں مفلوج ہو
گیا تھا لیکن اس حالت میں بھی کتا بیں اس کے چاروں طرف لگی رہتی تھیں اور
وہ مطالعہ میں منہمک رہتا تھاایک دن کتا بیں جاحظ پر گر پڑیں اور وہ ان کے
نیچے دب کر مر گیا۔ جاحظ کا کہنا تھا کہ ’’جب تک آپ چاہیں کتاب خاموش رہتی
ہے جب آپ بات کرنا چاہیں تو یہ فصاحت کے ساتھ بولنے لگتی ہے اگر آپ کسی کام
میں مصروف ہیں تو یہ خلل اندازی نہیں کرتی اور اگر آپ تنہائی محسوس کریں تو
وہ آپ کی ایک شفیق ساتھی بن جاتی ہے ، وہ ایک ایسا دوست ہے جو آپ کو کبھی
دھوکہ نہیں دیتا نہ آپ کی چاپلوسی کرتاہے اور ایسا ساتھی ہے جو کبھی آپ سے
اُکتا تا بھی نہیں‘‘۔ہمایوں کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ اسے کتابوں سے خاص
رغبت تھی، ہمایوں کا کتب خانہ تاریخ میں اہم مقام رکھتا ہے۔ ہمایوں کا
ستاروں کے علم سے خاص لگا ؤ تھا ایک روز وہ اپنے کتب کانے کی چھت پر ستارہ
زہرہ کا مشاہدہ کرنے گیا، مغرب کی اذان سن کر نیچے اُتر رہا تھا کہ سیڑھیوں
پر پھسل کر گر گیا اور اس ـصدمہ میں ہی وفات پا گیا۔ ایک اور عالم کا کہنا
ہے کہ ’’ کتاب مرُدوں کی زبان اور زندوں کی آواز ہے وہ شام کے وقت آپ سے
ملنے والا ایسا دوست ہے جو اس وقت تک نہیں سوتا جب تک آپ خود نہ سوجائیں
اور ہمیشہ وہی بات کرتا ہے جس سے آپ کو خوشی ہتی ہے۔ کبھی آپ کا راز فاش
نہیں کرتا وہ انتہائی درجہ کاوفادار ہمسایہ ہے اور معقول دوست ، فرمابردار
ساتھی، منکسر المزاج استاد اور ایک ماہی و مفید غم غسارہے‘‘۔
اسحاق بن سلیمان کی عمر سو برس کی ہوئی انہوں نے شادی نہیں کی جب کسی نے ان
سے اولاد کے بارے میں دریافت کیا تو کتابوں کے اس شیدائی نے جواب دیا کہ
ـ’’اپنی کتاب ’’حمیات‘‘ کے ہوتے ہوئے اولاد ہونے کا خیال بھی مجھ کونہیں
آیا۔خان بہادر خدابخش مر حوم نے پٹنہ میں ’’خدابخش اورینٹل لائبریری‘‘ جیسے
عظیم الشان کتب خانے کی بنیاد ڈالی ۔ کتابیں حاصل کر نے کے لئے مولوی صاحب
نے ہر طریقہ خواہ وہ اخلاقاً معیوب کیوں نہ تھا اپنے لئے روارکھا، حالانکہ
وہ ایک متقی اور راست باز انسان تھے۔ مولوی خدا بخش کا کہنا تھا کہ ’نادر و
نایاب چیزوں کے جمع کر نے کا فن ہر پابندی سے مستثنیٰ اور فوج داری قانون
سے بالا ہے۔ کتاب کے بارے میں آپ نے کہا کہ اندھے تین قسم کے ہو تے ہیں ایک
وہ جن کی بصارت زائل ہو جاتی ہے۔ دوسرے وہ جو آنکھیں رکھنے کے باوجود اپنی
کوئی بیش قیمت کتاب کسی دوست یا واقف کار کو مطالعے کے لیے مستعاردے دیتے
ہیں اور تیسرے اندھے وہ لوگ ہیں جو ایک بار ایسی کتابوں پر قبضہ پالینے کے
بعد انھیں واپس بھی کر دیتے ہیں۔
مولانا حسرت موحانی پر بغاوت کے جرم میں مقد مہ چلا اور دو سال قید با مشقت
اور پانچ سو روپے جرمانے کی سزا ملی، حسرت جیسے درویش کے پاس اتنی رقم کہا
تھی چنانچہ ان کی بیش بہا اور نادرو نایاب کتب کو جنھیں انھوں نے بڑی محنت
اور کاوش سے جمع کیا تھا صرف ساٹھ روپے میں حکومت کی جانب سے نیلام کر دیا
گیا۔حسرت نے لکھا کہ ’’اس جرم کی بدولت کتب خانہ اردوئے معلی کی جو حالت ہو
ئی اس کا بیان دردناک ہے۔ جن کتا بوں کو راقم الحروف نے معلوم نہیں کن کنِ
کو ششوں اور دِقتوں سے بہم پہنچا یا تھا ، ان سب کو پولیس کے جاہل جوان
ٹھیلوں میں اس طرح بھر کر لے گئے جس طرح لوگ لکڑی اور بھُس لے جا تے ہیں‘‘۔
سر سید احمد خان مطالعہ کے بے حد شوقین تھے آپ نے لکھا کہ ’حیات جاوید ‘ جس
کی ضخامت ایک ہزار صفحات تھی میں نے دو شب میں ختم کر ڈالی تھی۔ یہ بھی
مجھے یاد ہے کہ اپنے اس معمول کے مطابق کہ کسی نئی کتاب کے حصول پر کم از
کم ایک وقت کا کھانا کھانا ضرور فراموش کر دیتا تھا اس دن بھی میں شام کا
کھا نا نہیں کھا یا، اس خوف سے کہ اتنی دیر تک مطالعے سے محروم رہ جاؤں گا‘‘۔
ممتاز مزاح نگار مرزا فر حت اﷲ بیگ کو کتب بینی کا شوق ہمیشہ رہا یہ بھی ہو
تا تھا کہ دستر خوان پر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے ہیں اور کتاب بائیں ہا تھ
میں ہے۔استاد داغ دہلوی ہر نئی شائع ہو نے والی کتاب فوراً خرید لیا کر تے
اور اسی وقت اس کے مطالعے میں مصروف ہو جاتے اور اسے مکمل پڑھ کر چھوڑتے،
انھوں نے اپنے دولت کدے کا ایک بڑا کمراکتب خانے کے لیے وقف کر رکھا تھا۔
شہید حکیم محمد سعید نے ۱۹۴۷ء میں جب ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی تو ان کے
ہمراہ کئی سو کتا بیں بھی تھیں جو ان کی ذاتی لائبریری تھی ، کتاب سے محبت
اور عقیدت کے باعث اس میں اضافہ ہوتا رہا جس کے نتیجے میں یہ ذاتی ذخیرہ
کتب پہلے ہمدرد لائبریری ہو ااور پھر اسی نے بیت الحکمہ کی صورت اختیار کی
جس میں چار لاکھ سے زیادہ کتا بیں ہیں۔نامور قانون داں خا لد اسحاق مر حوم
کتا بوں کی خریداری پر ۵ء۳ ملین روپے سالانہ خرچ کیا کر تے تھے ان کے کتب
خانہ لاکھوں کتابوں سے آراستہ تھا۔مشفق خواجہ بلند پایہ محقق نکتہ رس نقاد
اور منفرد مزاح نگار ہو نے کے ساتھ ساتھ کتاب کے سچے عاشق تھے ان کاذاتی
کتب خانہ انفرادی ملکیت کے عظیم الشان کتب خانوں میں سے ایک ہے۔ کتا بوں کا
یہ عاشق جس مکان میں رہائش پذیر تھا ، اس کی نچلی اور پہلی منزل پرکل ملاکر
دس کمرے تھے اور ایک کمرہ دوسری منزل پر بنا ہوا تھا ۔اس مکان میں صرف ایک
کمرہ رہائش کے لیے تھا، باقی سب میں کتابیں تھیں۔سقراط کا کہنا تھا کہ’’ جس
گھر میں اچھی کتابیں نہیں وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا مستحق نہیں ہے وہ
تو زندہ مردوں کا قبرستان ہے‘‘۔ فلسفی ایمرسن کا کہنا ہے کہ ’’اچھی کتاب بے
مثال دوست ہے جو ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کی صلاح دیتا ہے‘‘ کارلائل کے
خیال میں ’’اچھی کتابوں کا مجموعہ دور جدید کی سچی یونیورسٹی ہے‘‘ ۔ ملٹن
کا کہنا تھا کہ ’’ایک اچھی کتاب عظیم روح کے قیمتی خون سے تحریر ہوتی ہے۔
اس کو محفوظ کرنے کا مقصد ایک زندگی کے بعد دوسری زندگی کو اس عظیم روح
سیروشناس کرانا ہے‘‘ ۔
حَقیِقَت یہ ہے کہ مطالعہ کا رجحان روز بروز کم ہوتا جارہا ہے،ہماری
ترجیحات سے کتاب خارج ہوگئی ہے،علم پسندی کی روایت معدوم ہوتی جارہی ہیں،
بقول فاطمہ ثریا بجیا ’کتابیں چھپ رہی ہیں ، قاری کہیں گم ہوگیا ہے‘،
پروفیسر سحر انصاری کے خیال میں ’’نئی نسل کتابوں کے مطالعے سے گریزاں ہے‘‘۔
وجوہات کیا ہے ہم کتاب سے کیوں دور ہوتے جارہے ہیں۔مختلف ماہرین مختلف
وجوہات اور تاویلیں دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا کہنا ہے کہ
الیکٹرونک میڈیا کی برق رفتاری اور انٹر نیٹ کی سہولت نے نئی نسل کو کتاب
سے دور کردیا ہے‘۔ ڈاکٹر محمد علی صدیقی مرحوم نے اس کا ذمہ دار نظام تعلیم
کو ٹہرایا تھا، مسعود احمد برکاتی والدین کو ذمہ دار تصور کرتے ہیں، ڈاکٹر
وقار احمد رضوی کتاب سے لاتعلقی کی وجہ ادب اور فلسفے سے عدم دلچسپی کو
تصور کرتے ہیں، ڈاکٹر فاطمہ حسن کا خیال ہے کہ کتاب عام قاری کی پہنچ سے
دور ہوگئی ہے ، لوگوں میں قوت خرید نہیں رہی۔ پروفیسر منظر ایوبی ادب سے
لاعلمی کو کتاب سے دوری کا سبب گردانتے ہیں۔ وجوہات جو بھی ہوں یہ ایک اہم
اور قومی نوعیت کا مسئلہ ہے اس پر قومی سطح پر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اس اہم اور قومی مسئلہ کو کبھی خاطر میں نہیں
لائیں۔ ملک کے دانشور اور صاحبِ علم طبقے کو اس اہم قومی مسئلہ پر توجہ
دینا ہوگی۔
(شائع شدہ روزنامہ جنگ ۲۸ اپریل ۲۰۱۳ء) |