روبینہ نازلی کی عالمی شہرت یافتہ کتاب ’’علم الا انسان‘‘
کے مطالعہ سے اس بات کا ثبوت فراہم ہو جاتا ہے کہ نہ صرف ان کی عالمانہ سطح
نہایت صاف و شفاف ہے جس سے گذر کر قاری حقائق کی تہہ تک با آسانی پہنچ جاتا
ہے بلکہ ان کی صوفیانہ فکر بھی کافی بلند پرواز ہے جو قاری کو
مذہب،تاریخ،تہذیب اور عمرانی علوم کے ساتھ ساتھ سائنٹفک دنیاؤں کی سیر
کراتی ہے۔نازلی کی معلومات بے حد وسیع اور ان کا جذبہ و احساس سیقل شدہ
ہے۔ایک ایسے وقت میں جب کے نہ صرف پاکستان کا انسان اور معاشرہ منتشر خیالی
کا شکار ہے،بلکہ عالمی سطح پر بھی انسان اپنا تشخص کھو تا جا رہاہے۔ان کی
خداداد صلاحیتوں نے کمال دکھایا اور ان کی کتاب منظرِ عام پر آئی،جس کے
مطالعے سے کوئی بھی انسان خود کو شناخت کرنے کی کوشش کر سکے گا۔یقیناً یہ
کتاب(علم الانسان)روبینہ نازلی کو یونیفایڈ سائنس کی بنیاد گذار کا درجہ
عطاء کرے گی۔انہوں نے اس کتاب میں جسم ،روح،قلب،دل،نفس،ضمیر،ہمزاد،اور اورا
کے حوالے سے جومواد اور جو نظریات خوش اسلوبی سے پیش کیئے ہیں اور سائنٹفک
انداز میں پیش کئیے ہیں وہ نہ صرف قابلِ تحسین ہے بلکہ قابلِ قدر بھی ہیں۔
روبینہ نازلی خدادادصلاحیتوں کی حامل ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔اور ایسی منفرد
شخصیات اب خال خال ہی ہیں۔
روبینہ نازلی ایک بہترین شاعرہ بھی ہیں ایک محقق اورایک افسانہ نگار بھی
ہیں ان کی کہانیوں کا مجموعہ’’کہانی‘‘ادبی دنیا میں ایک اور منفرد اضافہ
ہے۔وہ کالم نگار بھی ہیں اور ان کے کالم بہت پُر مغز اورنہ صرف نئے دور کے
مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ ان کا حل بھی بتاتے ہیں۔اسی لیئے ان کی
مضامین کی کتاب،دیدہء بینا ایک منفرد کتاب ہے۔
روبینہ نازلی کی تمام مطبوعہ کتابوں پر اوران کے مزیدمنفرد تخلیقی کام
پرمیں دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
* ڈاکٹر محمد صدّیق نقوی ۔محقق،مصنف،شاعر۔ادونی۔آندھرا پردیش(انڈیا) |