کہیں یہ ٹریپ تو نہیں؟

میں نے ساڑھے چھبیس سال پاک فوج کا نمک نہ کھایا ہوتا تو بھی یونہی میں پاک فوج اورآئی ایس آئی کا دم بھرتا جتناآج بھرتا ہوں۔اس کی وجوہات میں پہلے بھی بیان کر چکا لیکن محبتوں کی کہانیاں جتنی بار بیان کی جائیں کم ہوتی ہیں۔میں پاکستان کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہوں اور پاک فوج کو اس کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا محافظ۔پاکستان سے میری محبت کی وجہ صرف یہ نہیں کہ یہ میرا وطن ہے بلکہ یہ وہ خوش قسمت خطہ ہے جہاں سے میرے آقاکریم ﷺ کو ٹھنڈی ہوائیں آیا کرتی تھیں۔سارے پاکستانی اپنے ملک سے پیار کرتے ہیں لیکن ہزارہ اس ملک کا ایسا خطہ ہے جہاں پاکستان پہلے اور اپنی جان بعد میں آتی ہے۔مجھے فخر ہے کہ میں ہزارے وال ہوں۔محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان پھر مشکل میں ہے۔کچھ طاقتیں پاکستان کو پھر سے نئے بحرانوں سے روشناس کرانا چاہتی ہیں۔حالات کو گھما پھرا کے اس نہج پہ لایا جا رہا ہے جہاں ایک بار پھر منزل کے گم ہونے کاڈر ہے۔ میں ایک پاکستانی مسلمان ہونے کے ناطے اﷲ کریم سے رحم کی درخواست ہی کر سکتا ہوں۔اﷲ رب العزت ہمارے ملک پہ رحم فرمائے۔آمین

پچھلے دنوں حامد میر پہ حملہ ہوا۔ابھی خون کا پہلا قطرہ زمین پہ نہیں گرا تھا کہ جیو گروپ نے ڈی جی آئی ایس آئی کی تصویر کو مسلسل سکرین پہ رکھا اور انہیں اس واقعے کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا۔اس سے پہلے کہ حامد میر کے زخمی ہونے پہ انہیں کسی قسم کی کوئی ہمدردی حاصل ہوتی اور لوگ قاتلوں سے نفرت کا اظہار کرتے۔جیو کی اس گھناؤنی مہم کو پاکستانی عوام نے بخوبی بھانپ لیا۔سوشل میڈیا پہ لوگ پھٹ پڑے اور حامد میر کے ساتھ عوام پروفیسر وارث میر کی ہڈیاں بھی قبر سے نکال لائے۔بد قسمتی سے جو شخص اس سارے ڈرامے کا ذمہ دار تھا وہ تقریباََ بچ نکلا۔میر شکیل الرحمن ہی اس گھناؤنی سازش کا مرکزی کردار ہے جس نے ملک دشمنوں کے ساتھ مل کے پاکستان، پاک فوج اور آئی ایس آئی کودنیا بھر میں بدنام کرنے کی کوشش کی۔جیو نیوزنیٹ ورک اور حامد میر اب پاکستانیوں کی انتہائی نفرت کا نشانہ ہیں اور قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح اپنے اداروں کے تحفظ کے لئے میدان میں ہے۔جیو کی اس بدبختی نے قوم کو شیر وشکر کر دیا ہے۔ سچ ہے کہ میرا اﷲ برے کام کا اچھا اور بعض اوقات بظاہر اچھے کاموں کا برا نتیجہ نکالنے پر قادر ہے۔

عوام نے تو اپنی ذمہ داری نبھائی لیکن حکومت وقت جسے فوراََ ہی نقصان کے فوری ازالہ کے لئے آگے آنا چاہئیے تھا حسب معمول اور حسب روایت گونگی بنی رہی۔ شاید حکومت کا خیال تھا کہ دیکھتے ہیں کس طرف کا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔وزیر دفاع جن کی یہ بنیادی ذمہ داری تھی کہ وہ آگے بڑھ کے اپنے ادارے کا دفاع کرتے،ہسپتال میں حامد میر اور جیو کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ وزیر اعظم کے ہسپتال کے دورے کے بعد وزیر اطلاعات جو آئی ایس آئی کے ساتھ ذاتی بغض کے لئے مشہور ہیں فرمایا! قوم کو جان لینا چاہئیے کہ ہم کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پھر وہ وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے اور قوم ان کی بد طینتی اور بد نیتی دیکھ کے اپنی افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی۔قوم کا اپنے اداروں کے ساتھ والہانہ پیار اور عقیدت دیکھ کے دو دن بعد وزیر داخلہ صاحب کو بیان دینے کا خیال آیا۔جیو کی اچھی طرح پیٹھ تھپتھپانے کے بعدیہ نابغے اب حیران و پریشان کھڑے ہیں کہ یہ تو پانسہ ہی پلٹ گیا۔قوم کی اپنے اداروں کے ساتھ لازوال محبت نے حکومت کو اپنی ہی نظروں میں گرا دیا ہے۔ان کا خوف فزوں تر ہے اور پنگچروں سے لیک ہونے والی ہوا کی سرسراہٹیں دور دور تک سنائی دے رہی ہیں۔

اسی ساری صورت حال میں فوج اور آئی ایس آئی کے افسروں اور جوانوں میں غم و غصہ ضرور پایا جاتا تھالیکن یہاں بھی پاکستان کے بہادر اور غیور عوام کو سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے جنہوں نے سوشل میڈیا پہ اپنے رد عمل کی وجہ سے فوج کی اس دکھ اور تکلیف کی گھڑی میں دلجوئی کی۔اس وقت کوئی گیلپ والا سروے کرے تو اسے معلوم ہو کہ لوگ اپنے اداروں کے بارے کیا رائے رکھتے ہیں۔یہ محبت دراصل فوج کے اس روئیے کے لئے ہے جو اس نے اس بحرانی دور میں روا رکھا۔ فوج کے ترجمان نے حامد میر پر حملے کی کھل کر مذمت کی،تحقیقات میں تعاون کا یقین دلایا اور ساتھ ہی ساتھ ملکی اداروں کی توہین پہ دکھ کا اظہار کیا۔جب وزیر اعظم جیو کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے تھے تو آرمی چیف نے بروقت فیصلہ کرتے ہوئے آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا اور سب متعلقہ لوگوں کو یہ پیغام دیا کہ حدیں کراس کرنا برداشت نہیں کیا جائے گا۔

فوج میں روایات پختہ ہوتی ہیں انہیں راتوں رات بدلنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔فوج انتہائی وقار کے ساتھ ملک کے سیاسی معاملات سے علیحدگی اختیار کر رہی ہے لیکن ملکی اور غیر ملکی طاقتیں ایسا ہونے نہیں دینا چاہتیں۔ملکی اپنے بغض اور خوف کی وجہ سے اور غیر ملکی اپنے بین الاقوامی ایجنڈے کی وجہ سے۔حکومت کو چاہئیے کہ اپنے خوف سے باہر نکلے اور بغض سے بھی۔اپنے اداروں کا دفاع کرے۔دودھ کی نگرانی پہ بٹھائے بلوں سے جان چھڑائے اور منصب کے اہل لوگوں کو منصب عطا کرے تا کہ اس کے لئے کارِ حکومت آسان ہو جائے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے دشمنوں اور دوستوں میں تمیز کرنا سیکھے۔ایک سابق فوجی ہونے کے ناطے میں سمجھتا ہوں کہ اس قضئیے کے دوران پاکستانی عوام کی محبت اور وارفتگی اتنا بڑا سرمایہ ہے کہ فوج کو شاید اس سے زیادہ کی طلب ہی نہیں ہو گی۔حکومت اور فوج حریف نہیں ،انہیں کسی صورت حریف بننا بھی نہیں چاہئیے کہ ہم سب مل کے ہی اس وطن کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ کسی کے کہنے پہ ہم اپنی منزل کھوٹی کیوں کریں؟۔پیسے کو خدا سمجھنے والے جیو نیٹ ورک اور میر شکیل الرحمن کی باتوں میں آ کر تو بالکل بھی نہیں۔

پنجابی محاورے کے مطابق ـ"ڈلیاں بیراں دا اجے وی کج نہیں وگڑیاں"معاملات درست کئے جا سکتے ہیں۔انصاف کے ساتھ،توجہ کے ساتھ اور نیک نیتی کے ساتھ۔۔۔۔۔رہا جیوتو تاریخ کا کچرادان اس کے استقبال کو منہ کھولے تیار کھڑا ہے۔ عوامی محبت اور نفرت ہمیشہ طوفانی ہوتی ہے حکومت اور فوج دونوں اس کا دھیان رکھیں۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268658 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More