قلم

قلم، قدم، اور قسم جب بھی اٹھاؤ، جب بڑھاؤ اور جب بھی کھاؤ سوچ سمجھ کر کر اٹھاؤ بڑھاؤ اور کھاؤ سب سے پہلے تو قلم کے متعلق یہ بات بالکل صادق آتی ہے کہ قلم سوچ کر اٹھانا چاہئے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رہے کہ آپ کا قلم جس سوچ کے تحت اٹھایا جا رہا ہے آیا کہ وہ سوچ درست بھی ہے یا نہیں

کیا آپ کی سوچ آپ کا خیال آپ کا نظریہ اور آپ کی یہ بات جو آپ اپنے قلم کے زور پر عوام الناس تک پہنچا رہے ہیں اس لائق بھی ہے کہ نہیں کہ اس بات کو اس خیال کو اس نظریے کو عام کیا جائے جو آپ کے ذہن و دل میں پنپ رہا ہے

بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ قلم سوچ سمجھ کر ہی اٹھایا جاتا ہے لیکن وہ سوچ یا فکر جو کسی تحریک کا متحرک بن رہی ہے مثبت اقدام کی خاطر نہیں اٹھایا جاتا ہے بلکہ سوچ سمجھ کر قلم اٹھانے میں کوئی ضرر کوئی نقصان یا کوئی سازش پنہاں ہوتی ہے اور پھر قلم کا سہارا لیکر یہی سوچ یہی فکر یہی نظریہ رفتہ رفتہ سوسائٹی میں سرایت کرتی چلی جاتی ہے اس کا سیدھا سیدھا اثر افراد کی اخلاقی و ذہنی نشوونما پر منفی رجحانات کے پھلنے پھولنے اور پھیلنے کی صورت میں پڑتا ہے

جبکہ دوسروں کی بھلائی کے متعلق سوچ کر قلم اٹھایا جانے والا قلم ہی اہل قلم کی شان ہے کار خیر ہے اور ان کے بعد ان کے لئے صدقہ جاریہ ہے ہمیشہ مثبت سوچ کے فروغ کے لئے قلم کا اٹھایا جانا ہی قلم کا بہترین استعمال ہے اس کے ساتھ ہی قلم کے ذریعے معاشرے میں ہر قسم کے منفی رجحانات کے زیر اثر پنپنے والی برائیوں کے خاتمے کی سوچ کے تحت قلم اٹھانا اور اپنی مثبت سوچ کو منفی سوچ پر غالب کر دینے کے نظریئے سے قلم اٹھانا جہاد ہے لہٰذا جب بھی قلم اٹھایا جائے اچھی سوچ، اچھی فکر اور نیک مقاصد کی تکمیل کے لئے ہی اٹھایا جانا ہی اصل میں اہل قلم کا اپنے زور قلم کی بنا پر فرض عین اور مذہبی و اخلاقی ذمہ داری ہے

اسی مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے تمام اہل قلم کو عملی اقدامات کرنا چاہئیں بلکہ الحمد اللہ ماضی میں بھی اور موجودہ دور میں بھی اہل قل اپنے زور قلم سے معاشرے کے سدھار کے سلسلے میں کافی حد تک خدمات سرانجام دے چکے ہیں اور دے رہے ہیں جس کی حقیقت ایسے قارئین سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جو واقعتاً معیاری اور بامقصد ادب کے مطالعے کا شغف رکھتے ہیں

لیکن اس سب کے باوجود بھی ہمیں اپنے معاشرے میں بہت کچھ ایسا بھی دکھائی دیتا ہے جو کہ نہیں ہونا چاہیے چونکہ کالی بھیڑیں تو دنیا بھر کے تقریباً تمام ممالک کے ہر شعبے میں ہی ہوتی ہیں چنانچہ اسی طرح ادب کا شعبہ بھی ان سے مبرا نہیں لہٰذا مثبت ادب کے ساتھ ساتھ منفی نوعیت کا ادب بھی پروان چڑھ رہا ہے اور ظاہری سی بات ہے کہ ادب کا اثر سوسائٹی پر لازمی پڑتا ہے جو کہ نتیجتہً ہمیں عملی طور پر اپنے معاشرے میں بھی دکھائی دے رہا ہے

اس لئے تمام اہل قلم کو اپنی مثبت طرز فکر کو اپنے زور قلم کے ذریعے عوام تک پہنچانے کے عمل کو مسلسل و متواتر جاری رکھنا چاہیے تاکہ ان کی مثبت فکر کی تحریر کی تاثیر سے جو کچھ قلم کے زبانی لکھا ہوا پڑھا جائے وہ قارئین کی نظر سے زبان پر اور پھر زبان سے دل پر اثر پذیر ہوتا ہوا ان کی عملی زندگیوں میں مثبت تبدیلی پیدا کرنے کا رجحان پیدا کرتا رہے کہ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، زبان جو کچھ کہتی ہے اور دل جس پر لبیک کہتا ہوا انسان کو آمادہ عمل کرتا ہے تو یہی تمام محرکات و عناصر مل کر انسان کی شخصیت کو بنانے یا بگاڑنے میں معاون بنتے ہیں تو کیوں نہ وہ کام کیا جائے جو کہ انسانی معاشرے سے ہر قسم کے بگاڑ کا صفایا کرتے ہوئے انسانی معاشرے کو سنوارتا چلا جائے

محض چند ایک نہیں بلکہ تمام اہل قلم کے لیئے اپنا قلم اٹھانے سے پہلے ضروری ہے بلکہ ان پر یہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قلم اٹھانے والے کی سوچ کا دائرہ درست سمت میں گردش کر رہا ہو ایسی سوچ اور ایسی فکر جو اس کے دائرہ کار میں مثبت تبدیلی لانے کا مؤجب بن سکے اور معاشرے میں مثبت رجحانات عام کرنے کی حامل ہو تب ہی اہل فکر و اہل قلم کو اپنی سوچ اوراق پر منتقل کرنے کے لئے سوچ سمجھ کر قلم کا اٹھانا چاہیے تب ہی وہ اہل قلم کہلانے کے مستحق بنتے ہیں
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 459215 views Pakistani Muslim
.. View More