بلا شبہ ٹیکنالوجی کا حصول ترقی کی طرف گامزن ہونے کی
نشاندہی کرتا ہے لیکن ہر تصویر کے دو رُخ ہونے کے مصداق کے تحت ٹیکنالوجی
کے بھی مثبت کے ساتھ منفی اثرات ہوتے ہیں ۔ ذی شعور معاشروں میں منفی اثرات
مرتّب ہونے سے پیشتر ان کے تدارک پر وقت سے پہلے غور کر کے ان کا حل تلاش
کرلیا جاتا ہے ورنہ بعد میں پچھتاوہ ہوتا ہے۔مثلاً تیسری دنیا (تھرڈ وَرلڈ)
کے ترقی پذیر ممالک میں موبائل فون عوام کے ہاتھوں میں بالکل ایسے آئے جیسے
دلہن کی رخصتی کے موقع پر اُچھالی گئی پیسوں کی ریزگاری جیسے بھی اور جتنی
بھی ہاتھ آجائے، نتیجہ ہمارے سامنے ہے اب اس تیسری دنیا (تھرڈ وَرلڈ) کے
عوام کے ہاتھ تھری جی ( تھرڈ جنریشن) ٹیکنالوجی لُوٹے ہوئے موبائل فونز میں
آ گئ ہے تو کیا ہوگا ذرا غور کیجئے:-
1970 میں محترم ضیا ء محی الدین صاحب ایک طویل عرصے بعد برطانیہ سے پاکستان
تشریف لائے تو پاکستان ٹیلیو یژ ن کراچی سے ایک نیا اور منفرد پروگرام شروع
کیا جس کا نام تھا "ضیا ء محی الدین شو"۔ اگر میں ضیا ء محی الدین صاحب کا
تعارف لکھنے لگوں تو کم از کم دس صفحا ت درکار ہونگے اور اگر ان کے شو کے
بارے میں لکھوں تو بھی تقریباً اتنے ہی اور ، میرا اصل موضوع رہ جائیگا
لہٰذا محض اتنی تمہید کافی ہو گی کہ اس ہفتہ وارشو میں ہر ہفتہ ایک نیا
موضوع ہوتا تھا اور ہر شو میں مہمان بھی مختلف مدعو ہوتے تھے۔ لیکن ایک
موضوع پر محترمہ خوش بخش شجاعت صاحبہ نے موضوع کی مخالفت میں بولنا شروع
کیا تو بحث طویل ہو گئی اور ایک ہی موضوع پر مسلسل چار پروگرام ہوئے اور
دونوں شخصیات کا بہت چرچا ہؤا کیونکہ اس زمانے میں چینل بھی واحد تھا اور
ٹیلی ویژن پر مخالفت میں بولنے کا دستور بھی نہ تھا۔آپ سوچ رہے ہونگے موضوع
کیا تھا تو اس دور کا نہایت انوکھے اور پاکستانی عوام کو ہضم نہ ہونے والے
موضوع کا نام تھا "جینریشن گیپ" Generation Gap) ) ۔ میں اس کو2 جی سے
تعبیر کرسکتا ہوں کیونکہ اس میں 2 جی استعمال ہوئے ہیں لیکن اُس وقت اس سے
مُراد والدین اور اولاد یعنی پہلی اور دوسری نسل کے مابین بڑھتے ہوئے
فاصلوں پر تشویش اور اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا تھا۔ ضیا ء محی الدین صاحب
چونکہ برطانیہ میں ایک طویل عرصہ مقیم رہے، نہ صرف تھیٹر میں کام کیا بلکہ
اُس وقت کی مشہورِ زمانہ ہالی ووڈ کی فلم لا رنس آف عریبیہ میں مصری ہیرو
عمر شریف کے معاون کا کردار بھی ادا کیا اور اس کے بعد اپنی تھیٹر کمپنی
کھول لی چنانچہ مغربی اقدار اور ان میں رونما ہونے والی ٹوٹ پھوٹ سے بخوبی
واقف تھے۔ خوش بخت شجاعت صاحبہ کراچی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل مشرقی
اقدار سے بھرپور خاتونِ خانہ تھیں اور طالبِ علمی کے زمانہ میں نامی گرامی
ڈیبیٹر تھیں جوش میں آکر دیگر مہمانان کے ساتھ پروگرام کے میزبان ضیا ء محی
الدین صاحب سے بھی الجھ پڑیں اور یوں پروگرام بے حد مقبول ہؤا کیونکہ اس
وقت یہ بالکل انہونی بات تھی۔ ہمارا معاشرہ بھی اس وقت قدرے مشرقی تھاگو کہ
تبدیلی کے آثار نمایاں تھے پھر بھی مِن حیث القوم خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ
کا شکار نہیں تھا لہٰذا خوش بخت شجاعت صاحبہ کے مؤقف کو بھرپور انداز میں
پورے ملک میں پزیرائی ملی۔ لیکن آج شاید اُن کا بھی مؤقف تبدیل ہو گیا ہو
کیونکہ حالات نے تیزی سے کروٹ لی، کمپیوٹر آگیا تو اولادیں اس میں لگ گئیں
والدین کھانے کی میز پر انتظار کرتے رہے، انٹر نیٹ کی آمد نےمعلومات کے
ہتھیار سے دوسری نسل (سیکنڈ جنریشن یعنی 2جی) کو اسقدر لیس کر دیا کہ وہ
والدین کو جاہل سمجھنے لگی اور اس کے بعد سوشل میڈیا نے جو بد تہذیبی کی
جنگ کے ساز وسامان سے مزیّن کیا تو بڑے چھوٹے کی تمیز ہی ختم ہوگئ اور
اولاد جو پہلے ہی والدین سے آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کرنے کا فن سیکھ چکی
تھی وہ اب سینہ تان کر ہر دھمکی کا جواب اعلانِ جنگ سے دینے لگی۔
آئیے اب موبائل فون سے ملاقات کرواتا ہوں۔کہاں سے آیا، کون لایا مجھے بتانے
کی ضرورت نہیں کیونکہ حال ہی کی بات ہے سب جانتے ہیں میں تو محض اتنا کہوں
گا کہ اس ہتھیار کو ہاتھ میں لیکر ظاہر کرنے کی ضرورت ہی نہیں یہ تو جیب
میں یا تکیہ کے نیچے ہی اپنے محبوب کے دل کی ایک آواز پر پھڑ پھڑا کرآناً
فاناً میں اپنے مالک کو گھسیٹ کر مقامِ آواز پر لے جا کر کھڑا کر دیتا ہے
خواہ اُس لمحہ مالک کے والد یا والدہ اس سے کتنی ہی اہم بات کر رہے ہوں یا
اس کی سگی اور پہلی بیوی عین اسوقت اپنی بے لوث و پاکیزہ محبت کا اظہار کر
رہی ہو، یہ ہتھیار اندھا ہوتا ہے ، رشتوں اور ہر قسم کے جذبات سے عاری
کیونکہ اس کا نام ہے 3جی (تھرڈ جنریشن ) یعنی تیسری نسل۔ بالکل واضح ہے کہ
پہلی اور دوسری نسل کی اس کے نزدیک کوئ اہمیت نہیں اور ضرورت کے تحت ان
دونوں نسلوں کو ختم بھی کر سکتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں
"اولڈ ہومز" کھل چکے ہیں اور ہم بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں اپنا سر
بلند کر کے کھڑے ہو سکتے ہیں کم از کم اس میرٹ میں۔ خوش بخت شجاعت صاحبہ نے
اپنا 1970 کا موقف تبدیل کیا یا نہیں البتّہ "اولڈ ہوم" ضرور دیکھا ہے
کیونکہ ایک کراچی ڈیفینس ہاؤسنگ سوسائٹی میں بھی واقع ہے جن میں تقریباً
چوبیس بوڑھے والدین لاوارثوں کی طرح پڑے ہیں حالانکہ ان کی اولادیں موّک ل
گھرانوں کی طرح کراچی ڈیفینس ہاؤسنگ سوسائٹی میں ہی قیام پذیر ہیں بس ان کی
مجبوری یہ ہے کہ ان کے پاس اپنا خریدا ہؤا مہنگا ترین موبائل فون 1980 کی
ٹُو جی (2 جی) ٹیکنالوجی والا آ گیا تھا اور اسی نے مجبور کر دیا کہ سوتیلی
بیوی کو دوسری کوٹھی دینی پڑی۔ اب 3جی اور 4 جی آجانے کے بعداُن بے چاروں
کی مجبوریاں کس حد تک بڑھ جائیں گی کیونکہ وہ بے چارے سگی بیوی کے ساتھ
ناشتہ کرتے ہوئے بھی سوتیلی بیوی کو اپنے موبائل کی بڑی اسکرین پر بذریعہ
اسکائپ کہہ رہے ہونگے " جان میں پانچ منٹ میں پنچن رہا ہوں ناشتہ بنالو"۔
دونوں کو خوش کرکے اور جلد واپسی کے وعدے کر کے گاڑی میں دفتر جاتے ہوئےا
ُسی موبائل فون کی اسکرین پر اپنی آفس سیکریٹری سے "واٹس ایپ" (Whatsapp)پر
کہہ رہے ہونگے " جان ! بس میں پہنچا جو بھی فون آئے کہنا صاحب میٹنگ میں
مصروف ہیں۔ سگنل کی بتّی سرخ ہو جانے کی وجہ سےبوریت کو دور کرنے کے لئے
فوراً ہی اُسی اسکرین پر "یو ٹیوب" لگا کر اپنی پسند کی وڈیو دیکھنے لگیں
گے اور سگنل کھلنے پر نہایت پھرتی کے ساتھ ڈرائیونگ کا کمال کرتے ہوئے کچھ
ہی دور جا کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُن کی اپنی وڈیو بن رہی ہو گی۔ اللہ بہتر
کریگا۔ |