ہر معاشرہ اپنی تہذیبی اور اخلاقی اقدار کی وجہ سے
پہچانا جاتاہے مذہبی روایات اور عقائد ان اقدار کو استحکام عطاکرتے ہیں۔جس
معاشرے میں ایک دوسرے کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ اور احترام ہو
اور ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کا خیال رکھا جاتا ہو وہ معاشرہ بلاشبہ امن
اور آتشی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔اگر ہم بغور اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں تو
ہم دیکھتے ہیں کہ یہ وہ معاشرہ نہیں جس کا خواب ہمارے اسلاف نے دیکھا تھا
اور اس خواب کی تکمیل کی خاطر اتنی صعوبتیں برداشت کیں کہ ایک فلاحی مملکت
معرض وجود میں آئیگی جس میں سب لوگ اپنے اپنے عقائد کے مطابق آزادی سے اپنی
زندگی گذاریں گے جس میں سب لوگ ایک خاندان کی طرح زندگی بسر کریں گے۔نصف
صدی سے زیادہ عرصہ گذارنے کے بعد بھی ہم ایک معاشرہ ایک قوم اور ایک مسلمان
نہ بن سکے جس پیغمبرﷺ کا ہم کلمہ پڑھتے ہیں ہم نے ان کے آخری خطبہ حجۃ ا
لوداع کی تعلیمات کو بھی یکسر فراموش کر دیا جس میں آپﷺ نے فرمایا تھا کہ
سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک جسم کی مانند ہیں۔کسی گورے کو
کالے پر کوئی فضیلت یا برتری نہیں تم سب ایک آدم کی اولاد ہو ، ا گر برتری
یا فضیلت کا معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے جو زیادہ متقی اور پرہیزگار ہو گا وہ
ہی افضل قرار پائے گا۔ہم اپنے قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمودات کو بھی
بھول گئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں نے ایک زمین کا
ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے اتنی بڑی کٹھن جدوجہد نہیں کی بلکہ ایک ایسا وطن اور
ملک قائم کرنے کی قربانیاں دی جس میں تمام مسلمان ایک خاندان کی طرح اپنی
زندگی بسر کر سکیں۔آئیے ہم ان وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں جن کی وجہ سے آج
ہماری معصوم بچیاں بھی غیر محفوظ ہیں اور ان کے ساتھ نہ جانے کیا کیا ظلم
ہوتاہے۔
پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ ایک نسل نے ہمیشہ اگلی نسل کی بہتر پرورش کرنی
ہوتی ہے اور یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ پہلی نسل نے اپنی دوسری نسل کی
ٹھیک طرح سے پرورش نہیں کی جس کی وجہ سے زیادہ بگاڑ کی صورتحال پیدا ہوئی
ہے۔والدین نے یہ ذمہ داری بھی اساتذہ پر ڈال دی ہے کہ ہم جو ان کی اتنی فیس
دیتے ہیں اب تمام پرورش بھی اس فیس میں ہو جائے۔اور خود والدین اس مادی دور
میں اپنی ضروریات کے لیے تگ ودو میں لگے ہیں ۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ والد
اپنے بیٹے یا بیٹی کے سکول جا کر اس کی رپورٹ دیکھنا گوارا نہیں کرتا کونکہ
ان کے پاس اپنے بچوں کے مستقبل کو جاننے کا وقت نہیں ہوتا ۔بس سال بعد پتا
چلتا ہے کہ بچہ اتنے مارکس سے پاس ہو گیا۔اور آجکل وہ اساتذہ بھی ناپید ہیں
جن کا نام سن کر ہی بچوں کی سانس رک جاتی تھی آجکل اساتذہ بھی ممی ڈیدی اور
سیاسی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں سیاست ہوتی ہے ہمارے سرکاری سکول کے اساتذہ
اپنی یونین اور ایسوسی ایشن کے ذریعے اتنے طاقتور ہیں کہ کوئی ان کا کچھ
نہیں بگاڑ سکتا۔ تعلیمی ادارے دولت جمع کرنے پہ کمر بستہ ہیں اور ایسے
اساتذہ کا انتخاب کیا جاتاہے جو کم مشاہرہ میں زیادہ کام کر سکیں تو پھر
شکوہ کیا تین ہزار ماہانہ پہ جو استاد بچوں کی تربیت اور ایجوکیشن کرے گاوہ
بھی غنیمت سمجھ کر قبول کیجیے۔ٹیوشن سینٹر اور کوچنگ سینٹر میں آجکل جو کچھ
ہو رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہ ہے۔کچھ کوچنگ سینٹر تو باقاعدہ لڑکیوں اور
لڑکوں کی ملاقات کا ذریعہ بھی ہیں اور پھر اس پہ موبائل فون نے بھی کوئی
کمی نہیں چھوڑی۔تیس چالیس سال پہلے گھر میں لڑکیوں کو فون اٹھانے کی اجازت
نہ تھی آج صاحب گھر پہ بھی ہوں تب بھی لڑکی فون ریسیو کرتی ہیں اور کہتی
ہیں پاپا گھر پہ نہیں ہیں۔اب بارہ سے پندرہ سال کی بچیاں بھی مہنگے موبائل
فون اپنے پاس رکھتی ہیں۔اور بھلا ہو ان سیلولر کمپنیوں کاجن کے اتنے پیکج
ہیں کہ فون کان سے الگ کرنے کو کسی کا دل ہی نہیں چاہتا۔
والدین کے بعد مسجد کے مولوی حضرات بھی استاد ہی کہلاتے ہیں اور بچوں کی
مذہبی اور روحانی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن جو مولوی بچوں کو
درس دیتے تھے وہ آجکل مسلکی اور فروعی اختلاف میں تقسیم ہو کراپنی مادی
ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوے ہیں اور جو علماء حضرات جمعۃالمبارک کا خطبہ
دیتے اور امامت کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں وہ جوش خطابت میں ایسے ایسے
جملے فرما جاتے ہیں جن کو بنیاد بنا کر سادہ لوح مسلمان نہ جانے ظلمت اور
گمراہی کی کن کن گہرائیوں میں چلے جاتے ہیں اورا پنے ہر ذاتی فعل کو فرض
عین سمجھ لیتے ہیں ۔ملک میں اسلام کے نام پر دہشت گردی، فرقہ واریت، مسجدوں
اور جنازوں پر خود کش حملوں نے مذہب سے دوری اور لا تعلقی کو پروان
چڑھایاہے۔۔فرقوں میں تقسیم علماء کرام اور انکے مسلکی اختلافات نے عام آدمی
کو مذہب سے متنفر کر دیا ہے ممبر رسول پر بیٹھے کسی عالم یا مولوی سے آپس
میں بھائی چارہ سے رہنے اور حقوق العباد کا خیال رکھنے کا واعظ نہیں سنا
گیا بلکہ ایسی ایسی شعلہ بیاں تقاریر سننے کو ملتی ہیں کہ جمعہ کے لیے بھی
آئے لوگ دعا کرتے ہیں کہ کب جمعہ کی نماز ختم ہو اور وہ اپنے گھر
جائیں۔مذہب کے نام پر سیاست اور بعض علماء کرام کی جانب سے سیاست کو ہی
مطمع نظر بنانے کی روش نے عام آدمی کو مذہب سے بیگانہ اور بر گشتہ کر دیا
ہے معاشرے میں ایسے علماء بہت کم نظر آتے ہیں جو عوام کی صحیح سمت میں
راہنمائی کر سکیں۔مذہب کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں علماء کا سماجی
معاملات میں راہبر اور راہنما کا کردار ادا نہ کرنا ایک المیہ ہے۔ہماری
مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں لیکن معاشرے میں مذہبی اقدار کی کہیں جھلک
بھی دکھائی نہیں دیتی۔ہمارے روزمرہ کے معاملات ہو ں یا لین دین کے معاملات
وہی غلط بیانی،مکر وفریب ،تجارت میں دھوکہ اور جھوٹ،کم تولنا کم ناپنا،اچھا
مال دکھا کر برا مال دینا، بد اخلاقی اور غیر تہذیبی رویے،ناجائز منافع
خوری اورہر جگہ پر بد دیانتی وغیرہ وغیرہ کو ہر شعبہ زندگی میں مشاہدہ کر
سکتے ہیں۔دکھ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ علماء کرام نے بھی اس کے تدارک کے
لیے کوئی کردار ادا نہیں کیااگر ہم معاشرے میں امن و سلامتی کے خواہاں ہیں
تو علماء کے کردار کو مضبوط کرنا ہو گا۔تاکہ لوگوں کی مذہبی اور روحانی
تربیت ہو کر معاشرے میں مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو۔
اخلاقی بے راہ روی کی ایک بنیادی وجہ معاشی ناہمواری بھی ہے ایک طرف وہ لوگ
ہیں جن کو پر آسائش زندگی کی تمام سہولتیں میسر ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ
ہیں جن کو پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا ایسے لوگ بھی معاشرے میں
زندہ رہنے کا حق رکھتے ہیں ان کی بھی اپنی خواہشات اور ارمان ہیں خواب ہیں
مگر غربت انکے آڑے آجاتی ہے اور پھر وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے غلط
طریقہ اختیار کرتے ہیں ۔جنسی جزبات کی تسکین کے لیے ہم دیکھتے ہیں کہ
معاشرے میں گیسٹ ہاوس اور ہوٹل موجود ہیں لیکن ان کے چارجز اور لوازمات اس
قدر ہیں کہ عام آدمی اس کا متحمل نہیں ہو سکتاتب پھر آوارہ،بے روزگار
اورتعلیم سے بے بہرہ لوگ اپنے دل کی تسکین کی خاطر ہر وہ کام کر جاتے ہیں
جس کی کوئی بھی معاشرہ اجازت نہیں دیتا۔جہالت اور معاشی ناہمواری کا شکار
لوگ اس سماجی شعور سے محروم ہوتے ہیں جو انسان کو معاشرے میں اچھے انسان کی
حیثیت سے رہنے کا سلیقہ عطاکرتا ہے۔ہمارے سماجی راہنما اور نام نہاد سوشل
ورکر اس معاشرتی ناہمواری کا تدارک کرنے کی بجائے اپنی اپنی این جی او کے
لیے فنڈ لینے میں مصروف رہتے ہیں۔کسی زمانے میں پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی
کھڑکیوں کے شیشوں پر ،خواتین کا احترام کریں،بذرگوں کے لیے سیٹ خالی کر
دیں،ٹکٹ ضرور لیں اور سفر خاموشی سے کریں جیسے لکھا ہوا کرتے تھے لیکن اب
ایسا کچھ نہیں ہے۔ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو گھر سے نکلتے وقت اور داخل
ہوتے وقت السلام علیکم اور خدا حافظ کہتے ہیں ہم اپنے ہی بچوں کو کہتے ہیں
کہ باہر جا کر بتاو کہ پاپا گھر پہ نہیں ہیں۔ہم وراثت میں پراپرٹی میں اپنی
بہنوں کو ان کا حق دینے سے اجتناب کرتے ہیں بلکہ ان سے کہلواتے ہیں کہ کہو
مجھے کوئی حصہ نہیں لینااور پھرا پنی بیویوں کو کہتے ہیں کہ اپنے گھر والوں
سے اپنا حصہ مانگو۔ہم بیٹے کوبیٹیوں پر فوقیت دیتے ہیں ۔ بظاہر یہ چھوٹی
چھوٹی باتیں لگتی ہیں لیکن معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتی ہیں اوربحیثیت مجموعی
ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اپنے گھر کی اصلاح کر لیں ہم ایک کامیاب
انسان اور سیاستدان تو بننے کے لیے دن رات تگ و دو میں لگے رہتے ہیں لیکن
کاش ہم ایک اچھا انسان بننے کے لیے بھی کو شش کرتے۔
اس کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ کردار الیکٹرنک میڈیا اور انٹر نیٹ کا بھی ہے
لیکن جس طرح ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں اسی طرح ہر چیز کا بھی فائدہ اور
نقصان بھی ہو تا ہے یہ اس کے استعمال کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح
استعمال کرتاہے میڈیا اور انٹر نیٹ نے بے پناہ فوائد بھی معاشرے کو فراہم
کیے ہیں اور لوگوں کو باشعور کرنے میں اور ان کو اپنے حقوق سے آگاہی فراہم
کرنے میں میڈیا کا کردار مسلمہ حقیقت ہے اصل مسئلہ بااختیار لوگوں کا اپنے
ذمے فرائض کو ادا نہ کرناہے۔ہر ادارہ اپنی اصل ڈیوٹی سے بے بہرہ ہو چکا ہے۔
نہ قانون اتنا طاقتور ہو سکا کہ کسی گناہ گار کو سزا دے سکے نہ ہمارے
راہنما یہ فیصلہ کر پائے کی کیا کیا جائے ۔ سابق صدر پاکستان ببڑے فخر سے
کہتے ہیں کہ اپنے دور حکومت مین کسی کو پھانسی نہیں دی۔حکومتی کردار بھی
معاشرے کی اصلاح اور باشعور کرنے والا نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے راہنما اس
قدر دوراندیش اورکنفیوشس اذہان رکھنے والے ہیں جن سے کوئی امید کی جا سکے
۔اگر ہم سیاست اور معاشرے کو الگ الگ کر کے سدھارنے کی کوشش کریں تو کچھ
بہتری کے آثار کی امید کی جا سکتی ہے ورنہ ایک ادارہ گرفتار کرے گا اور
دوسرا ادارہ اسی بندے کی بے گناہی کا سرٹیفکیٹ جاری کرتا رہے گا ۔ہمیں اپنے
طور پہ اخلاقیات ،رواداری ،برداشت اور تحمل و بردباری کا دامن تھام کر
رکھنا چاہیے۔اور اپنے بچوں اور اپنے زیر کفالت افراد کے حقوق کا بھی خیال
رکھنا چاہیے ہم خو د بھی بیمار ہیں اورہمارا معاشرہ بھی بری طرح بیمار اور
لاغر ہو چکا ہے اس کا علاج اصلاح سے تو ممکن ہے مگر سیاست سے نہیں۔ |