اس سے پہلے‘ اس نے تین مرغیاں ذبح کیں۔ ہر مرغی نے‘ گردن
پر چھری والا ہاتھ آنے سے پہلے‘ تھوڑا بہت شور مچایا۔ جوں ہی گردن‘ قصاب کی
دو انگلیوں میں آتی‘ وہ اس کے بعد‘ شور بھی نہ مچا سکی۔ وہ کھلی آنکھوں سے‘
اپنی موت کا منظر دیکھتی۔ پھر وہ دیکھنے سے بھی‘ ہمیشہ کے لیے محروم ہو
گئی۔ چوتھی مرغی کی گردن پر چھری آنے ہی کو تھی‘ کہ بڑی بڑی مونچھوں والے‘
رستم نما ایک صاحب آ گیے۔ انہوں نے مرغی ذبح کرنے سے منع کر دیا۔ اس مرغی
کا گوشت‘ مجھے ملنے والا تھا۔ مجھے بڑا تاؤ آیا‘ لیکن ان کا جثہ اور
مونچھیں‘ حد درجہ خطرناک ہی نہیں‘ خوف ناک بھی تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ انہوں
نے‘ سات آنے زیادہ دے کر‘ مرغی خرید لی۔ قصاب ملنے والوں میں سے تھا۔ اس نے
ہیلو ہائے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے‘ سات آنوں کو‘ اہمیت دی۔ خاموشی کے سوا
کیا ہو سکتا تھا۔
میں نے اس شخص سے دریافت کیا‘ کہ آخر اس مرغی میں کیا خاص بات ہے‘ جو وہ
سات آنے زیادہ دے کر‘ اسے حاصل کر رہا ہے۔ میری بات کو سن کر‘ وہ ہنس دیا۔
بولا باؤ جی آپ نہیں جانتے‘ کہ یہ مرغی کیا چیز ہے۔ یہ مرغی‘ بڑی نسلی مرغی
ہے۔ اس نسل کا ایک مرغا‘ میرے پاس ہے۔ یہ میری قسمت بنا دے گی۔ میں اگلے
چند سالوں میں‘ امیر ہوجاؤں گا۔ آپ دیکھتے رہنا۔۔۔۔۔۔ کتنا احمق تھا‘ جو یہ
کہہ رہا تھا۔ میرے پاس اتنا وقت کہاں‘ جو میں مرغی کو دیکھتا پھروں۔ میں نے
پھر پوچھا‘ کیا قصاب اس حقیقت سے آگاہ نہ تھا۔ وہ آگاہ تھا‘ لیکن اس نسل کا
مرغا نہ ہونے کی وجہ سے‘ یہ مرغی اس کے لیے کوئی معنویت نہ رکھتی تھی۔
میں نے یہ سوچ کر‘ خاموشی اختیار کی‘ کہ گوشت ہی کھانا ہے‘ اس مرغی کا ہو‘
یا اس مرغی کا‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مجھے لوگوں کی جہالت پر‘ افسوس ہوا۔
شیخ چلی کی سی سوچ رکھتے ہیں۔ مرغوں کے حوالہ سے‘ امارت آتی ہو‘ تو دنیا
سارے کام کاج چھوڑ کر‘ اسی جانب لگ جائیں۔ میں دیر تک‘ ان سوچوں کے گرداب
میں پھنسا رہا‘ کہ ہم بھی کیسی عجیب قوم ہیں‘ دنیا ترقی کرکے کہاں کی کہاں‘
پہنچ گئی۔ ہم ابھی تک‘ ان لایعنی اور بے معنی اشغال میں پڑے ہوئے ہیں۔ آخر
ان اشغال کی‘ کیا معنویت ہے۔ غریب قوموں کو‘ اس قسم کے اشغال‘ وارہ نہیں
کھاتے۔ ایک طرف بھوک نے نڈھال کر رکھا ہے‘ تو دوسری طرف انگریز کا سجن
طبقہ‘ جس کے ہاتھ میں‘ وہ زندگی کی طنابیں دے گیا تھا‘ جونک کی طرح‘ اس
عظیم خطہ کے لوگوں کا‘ خون چوس رہا ہے۔ لوگوں پر باور کر دیا گیا ہے‘ کہ یہ
اس قوم کے ہیرو ہیں۔ قوم کے لیے‘ لڑنے مرنے اور جیلوں میں جانے والے‘ ڈاکو
قرار دے دیے گیے ہیں۔ وہ جنہوں نے‘ لمحہ بھر کی بھی صعوبت نہیں اٹھائی‘
عظمتوں کے معمار قرار پائے ہیں۔ آج تک‘ یہ کلی طور پر‘ طے نہیں پایا‘ کہ
تقسیم‘ خطہ کی ہوئی ہے‘ یا مسمان قوم کی ہوئی ہے۔ اوپر سے مذہبی طبقہ‘
انسانوں کو قریب نہیں آنے دیتا۔ دیر تک سوچنے کے بعد‘ میں اس نتیجہ پر
پہنچا‘ کہ منتشر اور حقائق سے دور قوموں کی زندگی‘ مرغوں اور بٹیروں کے گرد
طواف کرتی رہتی ہے۔
معاشی بھاگ دوڑ نے‘ مجھے اس قسم کی سوچوں سے‘ کوسوں دور کر دیا۔ جب فرد‘
ذات کے خول میں گم ہو جاتا ہے‘ تو اجتماع کے اچھے برے‘ کی سوچوں سے
دور۔۔۔۔۔ بہت دور چلا جاتا ہے۔ اسے صرف اور صرف‘ اپنی بھوک یاد رہتی ہے۔
خونی رشتے بھی‘ اس بھاگ دوڑ میں‘ اپنی شناخت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ایسے
عالم میں‘ چھینا جھپٹی اصول اور ضابطہ ٹھہرتی ہے۔ میں بھی‘ یہ سب بھول گیا۔
مجھے کیا پڑی‘ جو مرغوں اور بٹیروں کی سوچ میں‘ پڑ کر‘ جی ہلکان کرتا۔ کسی
کو کہا بھی تو نہیں جا سکتا۔ سچ کہنے والا‘ سماج دشمن قرار پا کر‘ زہر کا
مسحق سمجھا جاتا ہے۔ اب ہر کوئی‘ سقراط بننے سے رہا۔
ایک دن‘ میں بازار سے گزر رہا تھا۔ شہر کے بڑے چوک کے بائیں‘ ایک اشتہار
آویزاں تھا۔ یہ اشتہار‘ مرغوں کی لڑائی سے متعلق تھا۔ ایک عرصہ پہلے کی
بات‘ ایک بار پھر میرے ذہن میں گھوم گئی۔ اشتہار پڑھ کر‘ میرا دماغ چکرا
گیا۔ کیسی بےحس اور لاپرواہ قوم ہے۔ جنگ سے نکلے‘ ابھی چند ماہ ہی گزرے ہوں
گے‘ اور یہ‘ مرغوں کی لڑائیاں کروا رہی ہے۔ جس جنگ سے‘ قوم گزری تھی‘ کیا
وہ کافی نہ تھی۔ کیا اب بھی لڑائی دیکھنے کی‘ کوئی کسر باقی رہ گئی تھی۔
میں ان ہی سوچوں میں گرفتار‘ ضروری خریداری کے بعد‘ گھر واپس آگیا۔ اچانک‘
میرے ذہن میں‘ چوتھی مرغی گردش کرنے لگی۔ ایک تجسس سا نمودار ہوا۔ پھر میں
نے‘ مرغوں کی لڑائی دیکھنے کا‘ فیصلہ کر لیا۔
میں وقت پر ہی‘ مرغوں کے پڑ میں پہنچ گیا۔ میں یہ دیکھ کر‘ حیران رہ گیا‘
کہ پڑ میں‘ بہت سارے لوگ موجود تھے۔ میری آنکھیں‘ مونچھوں والی سرکار کو‘
تلاش کر رہی تھیں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا‘ کہ مونچھوں والی سرکار‘
سرپنچ ہو گی۔ میں اسے لوگوں میں تلاشتا رہا۔ وہ عام لوگوں میں‘ موجود نہ
تھا۔ میں زیرلب مسکرایا‘ شیخ چلی طبع کے لوگ‘ عملی زندگی میں‘ اپنا وجود
باقی نہیں رکھتے۔ میں گھر واپس جانے کے لیے مڑا ہی تھا‘ کہ سامنے گاؤ تکیہ
لگی چارچائی پر‘مونچھوں والی سرکار‘ اکیلے ہی تشریف فرما تھی۔ اس کے ارد
گرد‘ اس کے چیلے کھڑے تھے۔ ایک چیلہ‘ اس کے کندھے‘ جب کہ دوسرا پاؤں دبا
رہا تھا۔ میں نے پاس کھڑے‘ ایک شخص سے‘ مونچھوں والی سرکار کا‘ تعارف جاننا
چاہا۔ جواب دینے سے پہلے‘ اس شخص نے مجھے‘ سر سے پاؤں تک دیکھا‘ پھر بڑی
حیرت سے پوچھا‘ کیا تم سیٹھ نادر کو نہیں جانتے۔ دیکھنے مرغوں کی لڑائی آئے
ہو‘ اور سیٹھ نادر کو نہیں جانتے‘ بڑے ہی افسوس کی بات ہے۔ میں نے مزید
سوال جواب کی بجائے‘ سیٹھ نادر کے پاس جانا مناسب سمجھا۔
میں سیٹھ نادر کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ سیٹھ نادر نے‘ مجھے پہچانا تک
نہیں۔ میں نے خود ہی‘ اپنا تعارف کروایا‘ اور برسوں پہلے کا واقعہ یاد
کرایا۔ سیٹھ نادر نے‘ بڑا دھواں دھار قہقہ داغا‘ اور کہا‘ الله نے اس مرغی
کے طفیل‘ بڑے پہاگ لگائے ہیں۔ آج میں لاکھوں میں کھیلتا ہوں۔ لوگ بڑی عزت
کرتے ہیں۔ وہ اس چوتھی مرغی کی وجہ سے‘ امیر کبیر ہوگیا تھا۔ جب کہ میں‘
ابھی تک‘ اس پرانےعہدے پر ہی فائز تھا۔ سالانہ ترقیوں کے علاوہ‘ مجھے کچھ
نہ ملا تھا۔ مجھ سے تو‘ مرغی پالنے والا‘ ہزار گنا بہتر اور خوش حال زندگی‘
گزار رہا تھا۔ ایک ان پڑھ‘ کہیں کا کہیں جا پہنچا تھا۔ میں پڑھ لکھ کر بھی‘
کچھ نہ کر سکا تھا۔ جاہل معاشروں میں‘ ان پڑھ ہی ترقی کرتے ہیں۔ ایسے حالات
میں‘ پڑھنا کھلی حماقت ہوتی ہے۔
جہاں میں‘ اس زندہ تضاد پر غم گین تھا‘ وہاں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ ہر ماڑے
کی گردن‘ تگڑے کی دو انگیوں کی گرفت میں رہتی ہے۔ احتجاج کے لیے کھلا منہ‘
کھلا ہی رہ جاتا ہے اور احتجاجی کلموں کو‘ منہ سے باہر آنے کا‘ موقع بھی
نہیں مل پاتا۔ جنگل کا شروع سے‘ یہ ہی وتیرا رہا ہے۔ جہاں میں بسیرا رکھتا
تھا‘ وہاں رہتے توانسان تھے‘ لیکن ان کے اطوار اور قانون‘ جنگل کے قانون
سے‘ کسی طرح کم نہ تھے۔ اس جبر کی فضا‘ اور ماحول میں‘ ایک بات ضرور موجود
تھی‘ کہ بچانے والا‘ چوتھی مرغی کو‘ بچا ہی لیتا ہے۔ اس کی نسل‘ آتے وقتوں
میں‘ اس کے ہونے‘ اور بچانے والے مہاکاتکر‘ کی گواہی دیتی رہتی ہے۔ |