اسلام کا نظام عدل و انصاف احتساب کے تناظر میں

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

1۔مقدمہ
احتساب کا مطلب حساب کتاب،گنتی،عیب و صواب کی جانچ پڑتال،بازپرس،دیکھ بھال،جائزہ اور روک ٹوک ہے(1)احتساب دراصل اﷲ تعالی کا منصب و مقام ہے ،وہی اس کائنات کو دیکھنے والا ،اسکا حساب کتاب رکھنے والا اور مخلوق کے اعمال کاجائزہ لینے والا ہے۔اﷲ تعالی کی صفات و اسماء میں سے ایک نام ’’الحسیب‘‘ بھی ہے(2)اور قرآن مجیدنے بھی فرمایا گیا کہ وکفی باﷲ حسیبا(3)اور حساب لینے کے لیے اﷲ تعالی ہی کافی ہے ۔اور ان اﷲ کان علی کل شی حسیبا(4)بے شک اﷲ تعالی ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔پس اس دنیا کا اصل محتسب اﷲتعالی ہی ہے۔

تخلیق آدم علیہ السلام کے ساتھ ہی نیابت کے استعارے کے ساتھ جہاں بہت ساری دیگر صفات واختیارات سپرد نسل آدم ہوئیں وہیں احتساب کا فرض معین بھی ذمہ داران بنی نوع انسان کوتفویض کیا گیا۔اپنا احتساب،اپنے بال بچوں کا احتساب،خاندان معاشرہ اور تہذیب و تمدن کا احتساب اور گزشتہ و آمدہ نسلوں کا احتساب اس عمل کے وہ دائرہ ہائے کار ہیں جن سے کوئی فرد مبرا نہیں۔یہ کتنا اہم فریضہ ہے؟ اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ تخلیق کے فوراٌ بعداولین انسان نے حاکم کائنات کے جن جن شعار اقتدار کا مشاہدہ کیا ان میں احتساب سرفہرست تھا،امر خداوندی سے انکار پر فوری احتساب۔گویا احتساب اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ حضرت انسان خود۔

اس واقعہ کا ایک سبق آموز پہلو یہ بھی ہے کہ خود حضرت آدم علیہ السلام کو بھی حالات کے دائرے اسی عمل میں کھینچ لائے اور آپ کو زوجہ محترمہ سمیت زمین پر اتار دیا گیا۔یہ واقعہ تمام آفاقی صحائف کی زینت رہا تاکہ احتساب کا عمل زندہ رہے اور اسکا تصور ماند نہ پڑنے پائے۔لیکن امتداد زمانہ نے جہاں ترمیم و تحریف کے نشتر ان صحائف پر چلائے وہاں مذاہب سے احتساب کی روح بھی عنقا کر دی گئی۔اور کم و بیش تمام مذاہب کے اندر ایسے طبقات وجود میں آ گئے جو اپنے آپ کو احتساب سے بالاتر سمجھنے لگے اور تحریفات مذاہب نے ان طبقات کو بھرپور تحفظ عطا کیا۔

ہندومت قدیم ترین مذاہب میں سے ہے جس میں اواگان اور جونی چکر دراصل تصور احتساب ہی کی باقیات ہیں لیکن انکا تعلق آئندہ جنم سے استوار کر دیا گیاہے۔زندہ معاشرے میں ہندوؤں کے عمل احتساب کا اندازہ منودھرم کی شاستر کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے’’اگر شودر کسی غیر شادی شدہ سے زنا کرے تو اسکا وہ عضو کاٹ دیا جائے جس سے اس نے زنا کیا ہے اور تمام جائداد ضبط کر لی جائے اور اگر عورت شادی شدہ ہو تو شودر کو قتل کر دیا جائے اوراگر برہمن کسی شادی شدہ عورت سے زنا کرے تو 500پن جرمانہ کر دیا جائے۔ایک کشتری کو قتل کرنے کا جرمانہ اس سے چوتھائی ہے جو برہمن کو قتل کرنے کا ہے ویش کو قتل کرنے کا جرمانہ اس آٹھواں حصہ ہے اور شودر اگر نیک ہو تو اسکو قتل کرنے کا جرمانہ سولھواں حصہ ہے‘‘(5)۔اس طرح کے بے شمارقوانین اور عزوشرف کے استحقاق کو نسل پر بنیاد کرنے والے معاشرے نے احتساب ہی نہیں عدل و انصاف ومساوات اور بنیادی انسانی حقوق کا ہی گلہ کاٹ کر رکھ دیا ہے۔

بدھ مت دوسرا قدیم ترین مذہب ہے ۔اسکی حیثیت اہنسائی ہے،جس کو دنیا سے کوئی علاقہ نہیں ۔احتساب کا تصور اس مذہب سے بیگانہ ہے۔اسکے بقا کی واحد وجہ یہی ہے کہ بدھ مت کسی ظالم فرمانروا کے احتساب سے عاری رہا بلکہ’’ چین کے شاہ منگ ٹی اور تبت کے قبلائی خان جیسے بادشاہوں نے بدھ مت کے مبلغین کو خوش آمدید کہا اسکی وجہ یہی ہے اس مذہب نے ظلم کے مقابلے میں کھڑے ہونے کی کبھی جرات نہیں کی۔انسانوں کو سرکش حکمرانوں سے نجات دلاناتو کیا معنی کبھی اسکا خیال تک نہیں کیا‘‘(6)۔

الہامی مذاہب میں یہودیت قدیم ترین ہے جس کے بارے میں محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا’’ جب انکے بڑے جرم کرتے تو انہیں چھوڑ دیا جاتا اورچھوٹے جرم کرتے تو انہیں سزا دی جاتی‘‘(7)۔جب ایک یہودی زانی جوڑا خدمت اقدس ﷺمیں پیش کیا گیا تو انکو سزا دلانے کے لیے توریت کا نسخہ منگوایا گیا نبی امی ﷺ نے علمائے بنی اسرائیل سے کہا کہ اس میں سے سزائے زنا والا حصہ تلاوت کریں توعلمائے بنی اسرائیل نے دانستہ آیت رجم چھوڑ کر اگلی آیت تلاوت کر دی جس پر حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ جو عالم تورات تھے نے آپ ﷺ کو متنبہ کیا (8)گویا ان لوگوں نے احتساب سے چشم پوشی کی۔عمل احتساب میں بنی اسرائیل کا یہ دہرا معیار منصب امامت عالم سے انکی معزولی و برخواستگی کا ایک اہم سبب بنا۔

مذہب عیسائیت میں تو کفارے کا عقیدہ شروع دن سے ہی احتساب کے تصور کو معدوم کر دیتا ہے۔جب سارے گناہوں کا کفارہ ابن اﷲ(نعوذباﷲ من ذالک) ادا کر چکا تو جزا و سزا و احتساب چہ معنی دارد؟ عقیدہ کفارہ سے برآمد ہونے والا احتساب سے بالاتری کا یہی تصور صلیبیوں کے لیے اندھوناک مظالم کی تاریخ میں نیا باب رقم کرنے کا باعث بنا۔انکے مظالم کے ذکر سے مورخین کے قلم نے بھی پناہ مانگی اور کتنے ہی تاریخ نویس یہ کہ کر آگے بڑھ گئے کہ ہم ان مظا لم کی روایت اس لیے نہیں کر رہے کہ انکے زندہ رہنے کا گناہ ہماری گردن پر نہ ہو۔اسی کے باعث تاریخ عالم میں سب سے زیادہ ظلم ڈھانے والا ادارہ’’ کلیسا ‘‘ہی قرار پایا(9)۔

مذہب پر تو قدامت پرستی کی تہمت رہی،حقیقت یہ ہے کہ جدید مغربی تہذیب کے ترقی یافتہ ادارے بھی احتساب کی حقیقی روح سے خالی ہیں۔برطانیہ جیسے جمہوری ملک میں بادشاہ سلامت وہ مقدس ہستی ہیں جس پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا(10)۔اشتراکی روس میں1918ء کے مارکسی آئین کے مطابق آل رشین کانگریس کو ریاست کی بالا ترین قوت تسلیم کیا گیا ہے(11)۔کانگریس کی یہ حیثیت بعد کے دساتیر میں بھی برقرار رہی جس کا واضع مطلب کسی بھی نظر احتساب سے بالا تری کے ہیں۔روس میں عدالت عظمی قوانین کو غیر دستوری قرار نہیں دے سکتی اس پر مستزاد یہ کہ دستور کی تشریح کا اختیار بھی اس کے پاس نہیں ہے بلکہ صدریہ کے پاس ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قانون کی رو سے صدریہ خود قانون سازی میں حصہ لیتی ہے اس لیے کسی قانون کو غیر دستوری قرار دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا(12)۔گویا روس جیسی مملکت میں کانگریس کے ساتھ ساتھ صدریہ بھی احتساب سے بالاتر ہے۔

Ombudsmanکے نام سے مغربی جمہوری ممالک میں ایک قانون ساز کمشنر کام کرتا ہے جو حکام کے خلاف عوام کی شکایات سنتا ہے۔1810ء میں سویڈن میں اس نام کا پہلا عہدیدار تعینات کیا گیا اب یہ منصب تمام سکینڈے نیوین ممالک میں موجود ہے(13)۔اگرچہ اسے محتسب کے ہم منصب گردانا جاتا ہے(14)لیکن اسکے فرائض و اختیارات پر اسلامی تصور محتسب کی تعریف پوری نہیں اترتی۔اس لیے کہ اسکی حیثیت مشاورتی ہے،احکاماتی نہیں ہوتی اور بعض ادارے اسکے دائرہ اختیار سے باہر ہوتے ہیں جیسے عدلیہ اور کابینہ وغیرہ۔یہ تجربہ جاپان اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کچھ ریاستوں میں بھی جاری ہے(15)۔

اسلامی ادوار میں محکمہ احتساب ایک دینی و مذہبی شعبہ تھا،اس منصب کے لیے مناسب ذمہ دار کا انتخاب خلیفہ المسلمین کی ذمہ داری تھی۔محتسب کے فرائض میں واجبی تعزیرو تادیب شامل تھی۔محتسب اس بات کا انتظا نہ کرتا تھا کہ جھگڑے اسکے سامنے بطور مقدمہ لائے جائیں بلکہ خود سے قابل احتساب امور کی نگرانی کرتا تھا۔سارے دعووں کی سماعت اسکی ذمہ داری نہ تھی تاہم معاشی لین دین اور کاروباری میدان میں غلط کاریوں کا انسداد اسی کے ذمہ تھا۔نادہندگان اور لے لوٹ افرادسے وصولیابی بھی محتسب کی ذمہ داری تھی ۔ایسے تمام اختیارات محتسب کے دائرہ اختیار میں تھے جن میں شہادت کی ضرورت نہیں پڑتی۔گویا محتسب کے ہاتھ میں ایسے معاملات دیے جاتے جو کثیر الوقوع اور سہل الفیصلہ ہوتے اور قاضی کو ان سے سبکدوش رکھا جاتا۔عبیدیین اور مصر و مغرب میں محتسب کا تقرر قاضی کی صوابدید پر ہوتا تھا(16)۔

تخلیق آدم علیہ السلام سے شروع ہونے والاعمل احتساب ایک تسلسل کے ساتھ نبی آخرالزماں ﷺکے دور میں پہنچا۔حضرت آدم علیہ السلام احتساب کے نتیجے میں زمین پر بھیجے گئے،بیٹے کی سفارش پر حضرت نوح علیہ السلام کا احتساب ہوا،مچھلی کے پیٹ میں چند دن گزارنا حضرت یونس علیہ السلام کا احتساب تھا،حضرت خضر نے حضرت موسی علیہ السلام کااحتساب کیاحضرت موسی علیہ السلام نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کا احتساب کیا،حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہد کا احتساب کیا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی توساری زندگی ہی بنی اسرائیل کے احتساب میں گزری۔

نبوت کے چراغ کو بجھے چھ صدیاں گزرا چاہتی تھیں،قرنوں قبل احتساب کے سوتے خشک ہو چکے تھے اسی کا نتیجہ تھا کہ پوری انسانیت جنگل کی ایک بستی کا پتہ دیتی تھی،ظالم ،جابر،قاہر،سفاک اوردرندہ صفت لوگوں کے گریبان تک صرف ایک ہاتھ ہی پہنچ پاتا تھا،فرشتہ اجل کا ہاتھ۔دہر کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا،قافلہ بنی نوع آدم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکا تھا اور قریب تھا کہ جنگل کی بادشاہت کا تاج حضرت انسان کے سر پر سجا دیا جاتاکہ رحمت خداوندی جوش میں آئی اور فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہونے والے آفتاب ِرحمت نے عالمین کو اپنی نورانی شعاؤں کی آسودہ گود میں بھر لیا اور امن و عافیت،حقانیت،سکون و آشتی اور توحید خداوندی وفکر آخرت سے بہرہ مند کر دیا۔
2۔اسلامی نظام ِاحتساب کے اصول
۱۔اصل محتسب اﷲ تعالی ہے۔
۲۔احتساب سب کے لیے۔
۳۔یکساں احتساب۔
۴۔ محتسب خود بھی قابل احتساب۔
۵۔فوری،نتیجہ خیز،سبق آموزاور عبرت انگیز احتساب۔
۶۔سرعام احتساب
۷۔قانونی تقاضوں کی تکمیل۔

اسلام نے جونظام فکروعمل عالم انسانیت کو عطا کیا وہ ہر لحاظ سے اکمل و احسن ہے۔اس نظام کا ایک حصہ عمل احتساب بھی ہے۔اسلامی تعلیمات سے عیاں ہے کہ بے لاگ احتساب کے بغیر عدل اجتماعی کا قیام ناممکن ہے۔ابتدا میں ذات نبوی ﷺ میں ہی نظام عدل کی دونوں جہتیں پہلو بہ پہلو موجود تھیں۔گویا آپ ﷺ محتسب بھی تھے اور قاضی بھی۔ان ہر دو مناصب میں اگرچہ خفیف سا فرق ہے جسے فقہا نے واضح کیا ہے لیکن نبوت جیسے ہمہ گیر اور کثیرالجہت منصب کے اندر ان دونوں ذمہ داریوں کااجتماع محسن انسانیت ﷺ کی اکملیت و جامعیت کا ایک اور حسین رخ ہے۔کتا ب اﷲ اور سنت رسول اﷲ ﷺ سے اسلامی نظام احتساب کے یہ اصول مترشح ہو تے ہیں:
۱۔پہلا اصول: اصل محتسب اﷲ تعالی ہے:
کتاب و سنت نے اس بات کو مسلمانوں کے ذہن میں اس یقین کوراسخ کردیا کہ اصل سمیع و بصیر ( سننے والااور دیکھنے والا))اﷲ تعالی کی ذات ہی ہیحتی کہ وہ علیم بذات الصدور(دلوں کا حال جاننے والا)بھی ہے۔انسانوں کی دی ہوئی سزا قابل برداشت ہو سکتی ہے لیکن محتسب کائنات کی سزااپنی ہئیت و کمیت میں کسی انسانی پیمانے کے ادراک سے باہر ہے۔اسی تیقن کا نتیجہ تھا کہ اسلامی معاشرہ تقوی کا مرقع بن گیا،کسی کی نظر میں نہ آنے والا مجرم بھی خود کو قانون کے حوالے کردیتا تاکہ پاک کر دیا جائے۔یہ اصل محتسب کاخوف تھا کہ انسان اندر تک سے دھلتے چلے گئے اور انہیں یہ معرفت نصیب ہوئی کہ ہر وقت اور ہر حال میں ایک محتسب ان پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

۲۔دوسرا اصول: احتساب سب کے لیے:
اسلامی نظر احتساب میں امیر،غریب،عالم ،جاہل،گورے،کالے،حکمران،عوام سب برابر ہیں۔حضرت ابوذر غفاری رضی اﷲ عنہ نے جب حجرت بلال کے بارے میں ناپسندیدہ الفاظ کہے تو محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا تم میں جاہلیت کی رمق باقی ہے(17)۔ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھانے جب ام المومنین حضرت صفیہ رضی اﷲ عنھا کے بارے میں کہا کہ وہ پستہ قد ہیں تو محسن انسانیت ﷺ نے انکا احتساب کرتے ہوئے فرمایا اس بات کے اثر سے اگر تمہاری زبان سمندر میں ڈالی جائے تو سمندر کا ذائقہ بدل جائے(18)۔آپ ﷺ کی نظر احتساب سے کوئی نہ بچ پاتا تھا بلکہ جو جتنا قریب ہوتا وہ احتساب کی صافی سے اتنا ہی زیادہ مانجھا جاتا۔

۳۔تیسرااصول: یکساں احتساب:
اسیران بدر میں محسن انسانیت ﷺ کے چچا بھی موجود تھے ،یکساں احتساب کے اصول کے مطابق ان سے بھی وہی سلوک روا رکھا گیا جو باقی اسیران کے ساتھ کیا گیا۔حتی کہ جب رات گئے نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور کبھی ادھر کروٹ اور کبھی ادھر کروٹ لیتے تو تو صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی کے استفسار پر فرمایا کہ چچا عباس کی آہیں سونے نہیں دیتیں،چنانچہ انکی مشکیں ڈھیلی کر دی گئیں،ابھی بھی رحمۃ اللعالمین پر نیند کی آغوش گراں تھی چنانچہ استفسار مکرر پر یوں گویا ہوئے کہ جب جرم سب کا برابر ہے تو صرف چچا عباس کی رسیاں ڈھیلی کیوں ہوں ،سب اسیران کو آسودہ کر دو۔گویا احتساب سب کے لیے برابر تھا ،سزا دی تو سب کو دی اور رعایت دی تو بھی سب کو۔

۴۔چوتھا اصول: محتسب خود بھی قابل احتساب:
اسلامی نظام احتساب میں کوئی بھی احتساب کے عمل سے بالا تر نہیں ہے۔جو جس مقام و منصب پر ہے اسکے احتساب کے لیے نظام کی گرفت موجود ہے۔آپ ﷺعمر مبارک کے آخری حصہ میں ایک بار مسجد میں تشریف لائے اور صحابہ کرام سے فرمایا اگر میں نے کسی کی پیٹھ پر کوڑا مارا ہو تو میری پیٹھ حاضر ہے وہ بدلہ لے لے،کسی کی بے آبروئی کی ہو تو میری آبرو حاضر ہے وہ بدلہ لے لے(19)۔یہ تاریخ عدل میں ایک اور روشن باب کا اضافہ تھا جس کی نظیر اس سے قبل آسمان نے کبھی نہ دیکھی تھی۔
یہ نبی محترم کی ذات اقدس تھی جس کی احتسابی جہت نے خود نبی علیہ رحمت کو قابل احتساب سمجھاجب کہ منصب نبوت اس بات سے کہیں بالا تر ہے کہ عام انسان اسکا احتساب کرتے پھریں۔محتسب کائنات نے کسی کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ نبی کا احتساب کرے نبی ہر حال میں مطاع ہے تاہم اﷲ تعالی نے اپنے ہاں سے ایک سے زائد مرتبہ نبی کا احتساب کیا جیسے حضرت ابن ام مکتوم رضی اﷲ عنہ سے بے رغبتی پر سورۃ عبس کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں(20)اورشہد کو ممنوع قرار دینے پر سورہ تحریم کی آیات نازل ہوئیں(21)تاہم اس احتساب میں بھی خالق کائنات نے احترام نبورت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔

۵۔پانچواں اصول: فوری،نتیجہ خیز،سبق آموزاور عبرت انگیز احتساب:
احتساب کا عمل محض سزا کے آموختہ کے لیے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے مقصود قابل احتساب امور کی تکرار کو معاشرے میں کم سے کم درجہ تک لے جانا بھی ہے،اس کے لیے لازمی ہے کہ احتساب فوری،نتیجہ خیز،سبق آموزاور عبرت انگیزہو اوراس عمل کے دہرانے والے کو سوچتے ہی گزشتہ عامل کا انجام آنکھوں میں گھوم جائے۔شاید اسی لیے قرآن نے حکم دیا کہ مجرمین کو لوگوں کے سامنے سزا دی جائے(22)۔

غزوہ احزاب سے واپسی پر جب امیرالمجاہدینﷺ ام سلیم کے ہاں ہتھیار اتار کر تو غسل فرما رہے تھے تو جبریل نے آکر عرض کی کہ آپ نے ہتھیار اتار دیے کیا؟اور ابھی فرشتوں نے تواتارے ہی نہیں(23)چنانچہ آپ ﷺ نے دوران غسل صحابہ کرام کو پیغام بھیجا کہ اتنی سرعت کے ساتھ بنی قریظہ کی طرف بڑھو کہ عصر وہیں پہنچ کر ادا کرو(24)۔یہ احتساب اتنی فوری نوعیت کا تھا کہ دشموں کے مکہ پہنچنے سے قبل غداروں کے گریبان تک مسلمانوں کا ہاتھ پہنچ گیا۔اس فوری،نتیجہ خیز،سبق آموزاور عبرت انگیز احتساب کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ پھر ایک طویل عرصہ تک درہ غداری بند ہو گیا۔اس احتسابی عمل میں بنی قریظہ کے 400افراد کو تہہ تیغ کر دیا گیا(25)۔

۶۔چھٹا اصول: سرعام احتساب:
درس عبرت کا ابلاغ مقاصد احتساب میں سے ایک ہے۔چھپ کر سزا دینے سے جرم تو ضرور اپنے منطقی انجام کو پہنچ پائے گا لیکن معاشرہ اس نظام کے ثمرات سے محروم رہے گا،چنانچہ بنی قریظہ کے غداروں کو مدینہ شہر کے عین وسطی بازار میں گڑھے کھود کر ان کو دو دو تین تین کی ٹولیوں میں لایا جاتا اور قتل کر کے گڑھوں میں دھکیل دیا جاتا(26)۔

۷۔ساتواں اصول: قانونی تقاضوں کی تکمیل:
کتاب و سنت میں عمل احتساب کے لیے قانونی تقاضوں کی تکمیل کو بہت ضروری خیال کیا جاتا ہے۔جلد بازی،ناپختہ شہادت،ظن و گمان یا شک کی بنیاد پر کبھی احتساب کی اجازت نہیں دی جاتی۔یہودیوں کے زانی جوڑے کے احتساب کے لیے خود انہی کی مقدس کتاب سے فیصلہ کیا گیا،بنی قریظہ نے جس سے فیصلہ کرانے کے لیے کہا اسی سے فیصلہ کرایا گیا،ماعز اسلی پر حد زنا جاری کرنے سے پہلے کئی مرتبہ اسے خود اور اسکے قبیلے والوں کو انتباہ کیا(27)۔حتی کہ آپ ﷺ کا طریقہ مبارکہ تھا کہ اگر کوئی مجرم اقرار جرم کرتا تو تو اس سے کئی سوالات کرتے تاکہ اطمنان ہو جائے کہ اسکا اقرار کسی دباؤ،خوف یا بیماری کا نتیجہ نہ ہو اور بعض اوقات تو ایک سے زائد نشستوں میں اقرار کرواتے تھے اور مہلت دیتے تھے لیکن قانونی تقاضوں کی تکمیل کے بعد احتساب ہی نہیں انصاف سے بھی گریز نہ کرنا اسلامی تعلیمات کا خاصہ ہے۔

3۔اسلامی نظام احتساب کی اقسام
۱۔ذاتی احتساب(خود احتسابی)
۲۔انفرادی احتساب
۳۔اجتماعی احتساب
۴۔اداروں کا احتساب

۱۔پہلی قسم: ذاتی احتساب(خود احتسابی)
خوداحتسابی اسلامی تعلیمات کا وہ فیچر ہے جو کسی اور نظام عدل و احتساب میں موجود نہیں۔اسلام نے تقوی کی تلقین سے ہر مسلمان میں خود احتسابی کی روح پھونک دی،قرآن کا کوئی درس تقوی سے خالی نہیں ،آپ ﷺ نے فرمایا ’’اﷲ تعالی نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے ان میں ایک یہ ہے کہ کھلے اور چھپے ہر حال میں خدا سے ڈروں‘‘(28)،مزید یہ کہ ’’جس کا آج اسکے گزشتہ کل سے بہتر نہیں وہ تباہ ہو گیا‘‘،’’جس نے اپنے نفس کو ڈھیل دی اور خدا کی رحمتوں سے امیدیں باندھیں وہ تباہ ہوا‘‘(29)اورخدا کے خوف سے چھلک جانے والوں کو کتنی کتنی بشارتیں سنائیں(30)۔

اسلام نے تعمیر کردار میں خود احتسابی کو اس قدر دخیل کیا ہے کہ یہ عمل اپنی معراج کو پہنچا۔حضرت حنظلہ رضی اﷲ عنہ روتے ہوئے گھر سے نکلتے ہیں کہ حنظلہ منافق ہو گیا،حنظلہ منافق ہو گیا،حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ بھی ساتھ ہو لیتے ہیں ،دونوں حضرات خدمت اقدس ﷺمیں پیش ہو کر عرض کرتے ہیں کہ جو کیفیت دربار نبوت میں ہوتی ہے کاروبار دنیا میں باقی نہیں رہتی،ارشاد ہوتا ہے اگر ایسا ہو جائے تو فرشتے سرراہ اور بستروں میں سوتے ہو ئے تم سے مصافحہ کریں(31)۔رات کے اندھیروں میں گناہوں سے بچنا،نالہ نیم شبی اور کسر نفسی کے شعار دراصل خود احتسابی کی ہی شاخیں ہیں۔

۲۔دوسری قسم: انفرادی احتساب:
احتساب کی اس قسم میں ہر ہر فرد کا الگ سے احتساب کیا جاتا ہے۔عشاء کی نماز میں طویل قرات کرنے پرآپ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل سے کہا کیا تو فتنہ جو ہے؟(32)،ایک مسلمان کو تین مرتبہ نماز لوٹانے کا کہا پھر سمجھایا کہ آہستہ آہستہ پڑھا کرو(33)اور رشوت،ملاوٹ۔جھوٹ اور نکاح نہ کرنے والوں کے لیے سخت محاسبی اقوال زباب زدعام و خاص ہیں۔

۳۔تیسری قسم: اجتماعی احتساب:
قرآن نے ان لوگوں کا اجتماعی احتساب کیا ہے جو غزوہ احد کے موقع پر درہ چھوڑ کر تو غنیمت لوٹنے چل پڑے تھے،جنگ حنین کے موقع پر کثرت تعداد کے باعث پیدا ہوجانے والے جذبات کا اجتماعی احتساب تاقیامت تلاوت کیا جاتا رہے گا۔سریہ نخلہ رجب2ھ میں حضرت عبداﷲ بن جحش اور انکے دستہ نے ماہ حرام میں قریش کے ایک قافلے پر حملہ کر دیا جس پر آپ ﷺ نے انکی باز پرس کی اور فرمایا میں نے حرام مہینے میں جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا تھا اور سامان قافلہ اور قیدیوں کے سلسلے میں کسی بھی تصرف سے ہاتھ روک لیا(34),اسی طرح جب جنگ بدر سے قبل انصارومہاجرین باہم مقابل آگئے او ر انکے درمیان تلواریں نکلنے کی نوبت آگئی تو محسن انسانیت ﷺ نے ان سب کا اجتماعی احتساب فرمایا اورکیا ہی سخت لہجے میں احتساب فرمایا۔

۴۔چوتھی قسم: اداروں کا احتساب:
اسلام کے ابتدائی دور کے کردار اگرچہ ذاتی نوعیت کے ہی تھے لیکن تاریخ میں ان کی تکرار نے انہیں اداروں کی شکل عطا کر دی ہے،ابوجہل ایک فرد نہیں گویا ایک ادارہ تھا جس کا کردار آج بھی زندہ ہے،عبداﷲ بن ابی ایک کردار نہیں ایک ادارہ تھا جس کا کردار ہنوز زندہ ہے اسی طرح ایک ایک صحابی اپنی ذات میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتا ہے۔اسلام کے نظام عدل نے ان اداروں کو بھی احتساب کی بھٹی سے گزارا کچھ کندن بنے اور کچھ کے شرمناک تاریخی کردار خالق و مخلوق کی لعنت کے مستحق ٹہرے۔

امہات المومنین امت کا مقدس ترین ادارہ ہے،قرآن نے اس ادارے کا احتساب کرتے ہوئے کہا کہ زمانہ جاہلیت کی سج دھج نہ دکھاتی پھرو(35)اور دنیا کی زیب و زینت چاہیے تو کچھ لے کر نبی سے الگ ہو جاؤ(36)۔انصار مدینہ جیسے ادارے کی طرف سے جب غزوہ حنین کے بعد یہ بات کہی گئی کہ مشکل میں تو ہم یاد آئے اور انعامات کی بارش دوسروں پر ہے تو ان کا احتساب کرت ہو ئے فرمایا کہ کیا تم نہیں چاہتے کہ لوگ تو اونٹ اور گھوڑے لے جائیں اور تم اﷲ تعالی کے نبی کو اپنے ساتھ لے جاؤ(37)۔
4۔اسلامی نظام احتساب کے طریقے:
۱۔فرد کے ذریعے فرد کا احتساب
۲۔فرد کے ذریعے معاشرے کا احتساب
۳۔معاشرے کے ذریعے فرد کا احتساب
۴۔معاشرے کے ذریعے معاشرے کا احتساب

۱۔پہلا طریقہ: فرد کے ذریعے فرد کا احتساب
قرآن نے مومنین کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نیکی کی تلقین کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں(38)۔محسن انسانیت ﷺ نے مومن کو مومن کا آئینہ قرار دیا ہے(39)۔اصحاب رسول ﷺ فرماتے ہیں ہم جب بھی ملتے اس وقت تک جدا نہ ہوتے جب تک کہ سورۃ العصر ایک دوسرے کو سنا نہ دیتے(40)یہ دراصل ایک فرد کے ذریعے دوسرے فرد کا احتسابی عمل تھا جیسے حضرت عمر نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنھما کو اس حدیث کی روایت سے روک دیا جس میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ من قال لاالہ الا اﷲ فدخل الجنۃ(41)۔

۲۔دوسرا طریقہ: فرد کے ذریعے معاشرے کا احتساب
اسلام نے ہر ہر فرد کو امربالمعروف ونہی عن المنکر کا حکم دیا ہے،محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا کہ اگر برائی دیکھو تو ہاتھ سے روکو ،سکت نہ ہو تو زبان سے منع کرو اور اسکی بھی ہمت نہ ہو تو دل میں برا جانو لیکن یہ کنزور ترین ایمان ہے(42)مزیدس یہ ہر شخص حاکم ہے اور اسکی رعایا کے بارے میں اس سے سوال ہو گا(43)۔محسن انسانیت ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ کسی ایک فرد کے ناپسندیدہ عمل پر بعض اوقات پورے معاشرے کی سرزنش فرماتے تھے۔ایک عامل زکوۃ جب زکوۃ لے کر لوٹا تو اس نے مال زکوۃ آپ ﷺ کے سپرد کیا اور اپنے تھائف الگ کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے ہیں۔تھوڑے توقف کے بعد آپ ﷺ نے سب لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے اس عمل پر اظہار ناپسندیدگی فرمایا (44)۔ایک بار آپ ﷺ نے فرمایا حج فرض ہے،ایک شخص نے سوال داغ دیا کہ کیا ہر سال؟ اس پر آپ ﷺ نے موجود تمام لوگوں کی رجز فرمائی کہ مجھ سے سوال مت کیا کرو(45)۔

۳۔تیسرا طریقہ: معاشرے کے ذریعے فرد کا احتساب
اس طریقے میں اسلام نے اجتماعیت کے ذریعے ایک فرد کا احتساب کیا ہے،نمازیوں کو اجازت دی کہ اگر امام غلطی کرے تو اسکی اصلاح کر دیں،رمضان میں ایسا ماحول پیدا کیا کہ روزہ خوراپنے آپ میں سارے معاشرے سے شرمندگی محسوس کرتا ہے اور حج تو اس طریقہ کی شاندار مثال ہے جہاں لاکھوں کے مجمع میں ہر ہر فرد تقوی کے ماحول میں اپنے آپ کو اندر اورباہر سے دھوتا،مانجھتا ،صاف کرتا اور لشکارتا چلا جاتا ہے۔آپ ﷺ نے تبوک کے معرکے میں پیچھے رہ جانے والوں کا پورے معاشرے کے ذریعے زبردست احتساب کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے اجتماعیت کا ایسا دھاگہ تشکیل دے دیا کہ جس میں ہر ہر شخص اپنے آپ کو پرویا ہوا محسوس کر کے تو تسبیح کا دانہ بنتا چلا جاتا ہے۔کہیں مسلمانوں کو ایک عمارت سے تشبیح دی گئی جس کی ہر ہر اینٹ دوسری کو مضبوط کرتی ہے(46)تو کہیں ایک جسم سے تشبیح دی جہاں کہ جہاں ہر ہر عضو دوسرے کا غم خوار ہے(47)۔اسلامی معاشرے میں سات سال کی عمر میں ہی ایک بچہ حیی علی الصلوۃ کا مدعو بن جاتا ہے اور دس سال کی عمر میں تو والدین جیسی شفیق ہستیوں کو اختیار دیا جاتا ہے کہ عدم ادائگی نماز کی وجہ سے بچے پر احتسابی ہربے روا رکھیں(48)۔

۴۔چوتھا طریقہ: معاشرے کے ذریعے معاشرے کا احتساب:
’’اگر ہم انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے دفع نہ کرتے تو زمین فساد سے بھر جاتی‘‘(49)۔یہ گروہی احتساب ہے کہ اﷲ تعالی اس زمین پر ایک گروہ کے ذریعے دوسرے کا احتساب کرتا ہے۔یہ احتساب کا وسیع تر تصور ہے جس میں جہاد،قتال،تبلیغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکربھی شامل ہیں۔اسلامی معاشرے میں منافقین،اہل کتاب اور دیگر مذاہب کے گروہوں کا احتساب قرآنی آیات میں آج تک موجود ہے۔
5۔اسلامی نظام احتساب کے ذرائع
۱۔تنقید
۲۔نفسیاتی سزا
۳۔ازالہ نقصان
۴۔تبلیغ

۱۔پہلا ذریعہ: تنقید
معبودان باطلہ پر تنقید قرآن مجید کا درس اولین ہے،کتاب اﷲ نے معاشرت اور معیشیت کے ناروا پہلوؤں پر کلی یا جزوی تنقید کی اور انکی اصلاح کی۔نماز جمعہ چھوڑ کر مال تجارت کی طرف جانے والوں کا احتساب کیااور انہیں سمجھایا رزق دینے والی ذات رب کی ہی ہے(50)۔آپ ﷺ کی کتنی ہی احادیث ہیں جن میں تنقید کے ذریعے تنزیر و تبشیر و تزکیر کی گئی ہے ۔

۲۔دوسرا ذریعہ: نفسیاتی سزا
احتساب کا اگلا ذریعہ نفسیاتی سزا ہے۔قرآن مجید نے ان تین افراد کا نفسیاتی احتساب کیا جو جنگ تبوک میں بغیر کسی وجہ کے شریک نہ ہوئے تھے۔یعنی انہیں کوئی جسمانی سزا یا کسی طرھ کی کوئی سرزنش نہ کی گئی بلکہ ان میں احساس گناہ پیدا کرنے کے لیے ان سے منہ پھیر لیا گیا۔اسی طرح جب ایک شخص حضرت ابوبکر صدیق کو گالیاں پر گالیاں دیے چلے جا رہا تھا تو حضرت خاموش رہے لیکن جب صبر کا پیمانہ لبریزہوا تو حجرت نے بھی جواب جھاڑ دیا اس پر آپ ﷺ وہاں سے اٹھ کر چل دیے(51)،یہ ایک نفسیاتی احتساب تھا کہ بغیر کچھ کیے یا کہے اگلے کو اس کی غلطی کا احساس دلا دیا جائے۔

۳۔تیسرا ذریعہ: ازالہ نقصان
اس ذریعہ یں قصاس و دیت وغیرہ کے قوانین شامل ہیں ۔

۴۔چوتھا ذیعہ: جسمانی سزا(عقوبات)
حدوداﷲ اس ذریعہ کی ذیل میں آتی ہیں۔

۵۔پانچواں ذریعہ: تبلیغ
تبلیغ کا عمل تاقیامت جاری رہے گا اور انسانوں کو انکے برے اعمال سے روکا جاتا رہے گا اور نیک اعمال کی تلقین کی جاتی رہے گی۔یہ عمل جہاں سننے والے کے لیے احتساب کاکام کرتا ہے وہاں دراصل تبلیغ کرنے والا خود بخود سے احتساب سے گزر رہا ہوتا ہے گویا تبلیغ کرتے ہوئے وہ اپنے آپ کو تبلیغ کر رہا ہوتا ہے۔انسان میں تکبر ،غرور اور احساس برتری کے احتساب کے لیے عمل تبلیغ کسی اکسیر سے کم نہیں۔

6۔اسلامی نظام احتساب کے نتائج و ثمرات
وقت کے ساتھ ساتھ انسان کا دل زنگ آلود ہو جاتا ہے،ذہن آلودہ ہوجاتا ہے،فکرونظر بھٹک جاتے ہیں اور انسان شیطان کی باتوں میں آکرسیدھی راہ گم کربیٹھتا ہے۔احتساب انفرادی اور اجتماعی طور پر انسان کو ان آلایشوں سے پاک کرتا ہے۔روزانہ پانچ وقت کا احتساب باربارانسان کو اسکی حقیقت سے آشنا کرتا ہے،اس کے بعد بھی اگر کوئی کسر رہ جائے تو سال بھر کے بعد رمضان کااحتساب ان آلائشوں کو دور کرنے کا باعث بن جاتا ہے،دولت کے باعث پیداہونے والی ناپاکیوں کو زکوۃ کا عمل احتساب پاک کرتا ہے اور عمر بھر کے گناہوں کے لیے حج کا عمل احتساب کاکام کرتا ہے۔یہ عمل احتساب کے نتایج و ثمرات ہیں جو دنیا میں انسان اور انسانی معاشرے کو میسر آتے ہیں۔

7۔احتساب اور تصور آخرت
اسلام کے اس ہمہ جہت نظام احتساب کے باوجود اس دنیا میں کامل احتساب ممکن نہیں ۔اس عمل کی تکمیل کے لیے اﷲ تعالی ،محتب کائنات اپنی عدالت برپا کرے گا،تب وہ سب لوگ جو اس عمل احتساب کی زد میں آئے یا بچ گئے اپنے اچھے یا برے انجام تک پہنچائے جائیں گے۔

سب سے پہلے اسلام نے معاشرے کو مساوات کا درس دیا،اسلام کے بعد آج تک کوئی نظام معاشرے کو اس سے بڑھ کر کوئی درس نہ دے سکا،سب سے پہلے اسلام نے عدالتوں کو عدل و انصاف کا درس دیااس کے بعد آج تک کوئی نظام عدالتوں کو اس سے برترکر کوئی درس نہ دے سکا،سب سے پہلے اسلام نے نظام تعلیم کو معرفت حقیقت کا درس دیا،اسلام کے بعد آج تک کوئی نظام فکرو عمل،نظام تعلیم کو اس سے برتروبہتر درس نہ دے سکا،اسلام نے نظام احتساب کوتقوی کا درس دیا،اسلام کے بعد کوئی نظام انسانیت کو اس سے عمدہ درس نہ دے سکا ۔یہ معراج انسانیت ہے اور یہی ختم نبوت ہے کہ قیامت تک اس سے بہتر نظام انسان کوکو ئی مفکر،مدبر،مدرس اخلاق یا کوئی راہنما نہیں دے سکتا۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

حوالہ جات:
1۔دہلوی،مولانا سید احمد۔فرہنگ آصفیہ۔جلد اول و دوم صفحہ 456
2۔نعمانی ،مولانامحمد منظور ،معارف الحدیث جلد5,6,7،صفحہ 62دارالاشاعت کراچی
3۔سورۃ نساء آیت6
4۔ایضاٌ آیت86
5۔مودودی،سیدابولاعلی،الجہاد فی الاسلام صفحہ371,372ادارہ ترجمان القرآن لاہور1996
6۔ایضاصفحہ405
7۔بخاری،محمد بن اسمائیل،کتاب الجامع الصحیح:کتاب الحدود باب14حدیث نمبر3414
8۔سبحانی،محمد عنایت اﷲ،حقیقت رجم کتاب و سنت کی روشنی میں صفحہ30،فاران پبلیکیشنز پشاور،تاریخ ندارد
9۔Qadri,Abdul Hameed,Dimentions of Charistanty P32 Dawah Acadamy Islamabad 1991
10۔خلیل اﷲ ملک،دساتیر عالم صفحہ65
11۔Aryah L Unger, Constitutional Development in USSR P 30 Metheum & Co. Limited London 1973
12۔خلیل اﷲ ملک،دساتیر عالم صفحہ65
13۔Encyclopedia of Btitinica V: VIII, Ready Referance Index P 530 15th Edition London1973
14۔قومی انگریزی اردو لغت،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد صفحہ1354،سروسز بک کلب1994ء
15۔Encyclopedia of Btitinica V: VIII, Ready Referance Index P 530
16۔ابن خلدون،عبدالرحمن۔مقدمہ کتاب العبر،ترجمہ مولانا سعد حسن خان یوسفی صفحہ
17۔بخاری،کتاب الایمان،باب المعاصی من امر الجاہلیہ(22)حدیث نمبر30-6050
18۔النووی،ابو زکریا بن شرف،راض الصالحین،جلد دوم صفحہ 313،ترجمہ حافظ صلاح الدین یوسف،دارالسلام لاہور،ریاض1997ء
19۔مبارک پوری،صفی الرحمن،الرحیق المختوم صفحہ625،مکتبہ سلفیہ لاہور1999
20۔سورۃ عبس آیات1-4
21۔سورۃ تحریم آیات
22۔سورہ نور آیت 2
23۔مبارک پوری،صفی الرحمن،الرحیق المختوم صفحہ426
24۔مودودی،ابوالاعلی،تفہیم القرآن،جلد4،صفحہ62،مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی1990
25۔منصور پوری،قاضی محمد سلیمان سلمان،رحمۃ اللعالمین،جلد دومصفحہ238،شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور1951
26۔مبارک پوری،صفی الرحمن،الرحیق المختوم صفحہ430
27۔سبحانی،محمد عنایت اﷲ،حقیقت رجم کتاب و سنت کی روشنی میں صفحہ168,169
28۔نعمانی،مولانا منظور احمد،معارف الحدیث،جلد دوم مصفحہ152
29۔مشکوۃ المصابیح،کتاب الرقاق،باب استحباب المال والعمر للطاعۃ حدیث نمبر5289
30۔نعمانی،مولانا منظور احمد،معارف الحدیث،جلد دوم مصفحہ44
31۔نعمانی،مولانا منظور احمد،معارف الحدیث،جلد سوم صفحہ254
32۔نعمانی،مولانا منظور احمد،معارف الحدیث،جلد سوم صفحہ254
33۔مشکوۃ المصابیح،کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ حدیث نمبر790
34۔مبارک پوری،صفی الرحمن،الرحیق المختوم صفحہ274
35۔سورۃ احزاب آیت 33
36۔ایضاََ آیت28
37۔نعیم صدیقی،محسن انسانیت،صفحہ454،اسلامک پبلیکیشنز لاہور1978
38۔سورۃ توبہ،آیت71
39۔بخاری،الادب المفرد
40۔ابن کثیر،حافظ عمادالدین،تفسیر ابن کثیر(اردوترجمہ)،پارہ آخیر،صفحہ102،کارخانہ تجارت کراچی،تاریخ ندارد
41۔مختصر صحیح مسلم،حافظ زکی الدین،عبدالعظیم منذری حدیث نمبر12صفحہ12یمامہ للطباعۃ والنشر دمشق1996
42۔محمد ارشد خان،مطالعہ قرآن وحدیث صفحہ102اصباح الادب لاہور1995
43۔مشکوۃ المصابیح،کتاب الامارہ والقضاۃ حدیث نمبر3685
44۔النووی،ابوزکریابن شرف،راض الصالحین،ترجمہ :حافظ صلاح الدین،جلد اول صفحہ224
45۔مشکوۃ المصابیح،کتاب المناسک،حدیث نمبر2505
46۔نعمانی،مولانا منظور احمد،معارف الحدیث،جلد 2،صفحہ211
47۔ایضاََ
48۔مشکوۃ المصابیح،کتاب الصلوۃ حدیث نمبر572
49۔سورہ بقرہ،آیت251
50۔سورۃ جمعہ:آخری آیات
51۔سنن ابی داؤد حدیث نمبر4201،مسند احمد حدیث نمبر9201

Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 572986 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.