ہمارے اجتماعی ضمیر پر برائیوں کی صورت میں اتنے متعفن نا
سور ہیں کہ جن کو دیکھتے ہی ابکائی آجائے ۔ جب کبھی لکھنے بیٹھتا ہوں تو
کسی مثبت خبر کی تلاش میں اخبارات اور ٹی وی چینلز کنگھالتا ہوں ، مگر مجال
ہے کہ کوئی جان دار قسم کی مثبت خبر ملے ۔ جس اخبار کو اٹھا ؤ ، لہو زدہ
اور وحشت ناک قسم کی خبروں سے بھری ہوئی ملتی ہے ۔
آج ہی ایک اخبار میں خبر چھپی ہے کہ سر گودھا میں ایک آدمی نے اپنی بیوی کی
ٹانگیں کاٹ دیں ۔ وجہ گھریلو تنازعہ ٹھہری ۔ یہ کتنا الم ناک واقعہ ہے ۔ یہ
اندوہ ناک واقعہ در اصل ہمارے اجتماعی ضمیر میں موجود ایک گہرے قسم کے گھاؤ
کی نشان دہی کرتا ہے ۔ اس واقعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہم کس قدر عدم
برداشت کا شکار ہو چکے ہیں ۔
ایک اور واقعہ بھی ملاحظہ ہو ۔ لاہور میں ایک شخص نے اپنی بیوی کے جسم میں
ٹریکر لگوا دیا ۔ صغری ٰ بی بی نے بتا یا کہ اس کا شوہر اسے دو مرتبہ جلا
کر مارنے کی کوشش بھی کر چکا ہے ۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ایک لیڈی ڈاکٹر نے
اس کے جسم میں موجود ٹریکر ہٹانے کے لیے دو لاکھ روپے مانگے ہیں ۔
ذرا تعلیمی پسماندگی ملاحظہ ہو ۔کراچی میں میٹرک کے امتحانات میں کلرک اور
چپڑاسی نگران بنا دیے گئے ۔ میٹرک کے امتحانات میں یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے
۔ اس سے پہلے بھی یوں ہی ہوتا آرہا ہے ۔ اندازہ لگائیے کہ جہاں امتحان
گاہوں میں دفعہ ایک سو چوالیس نافذ ہو ، وہاں تعلیم کا معیار کیا ہوگا !
ایک اور دکھ بھری خبر یہ ہے کہ بدھ کو وقفہ ِ سوالات کے دوران وزیر ِ مملکت
برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے ایوان کو بتایا کہ 2008 سے 2014 ء کے دوران
فرقہ وارانہ ہلاکتوں میں پنجاب میں 104 ، سندھ میں 252 ، خیبر پختون خوا
میں 22 ، بلوچستان میں 737 ، فاٹا میں 867 ، گلگت بلتستان میں 103 ، اور
اسلام آباد میں پانچ افراد جاں بہ حق ہوئے ۔
اب ذرا ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ کی طرف بھی نظر دوڑا
لیجیے ۔ معلوم ہو جائے گا کہ ہم من حیث القوم انسانی حقوق کے ضمن میں کہاں
کھڑے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق 2013 ء کے دوران ملک بھر میں قتل کے 14 ہزار سے
زائد مقدمات درج کیے گئے ۔ 800 خواتین نے خود کشی کی ۔ 56 خواتین کو بیٹی
پیدا کرنے کی پاداش میں قتل کر دیا گیا ۔ 869 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل
کیا گیا ۔ 227 افراد کو سزائے موت سنائی گئی ۔ ملک بھر کی جیلوں میں 64 فی
صد قیدی بغیر کسی عدالتی فیصلے کے بند رہے ۔ 55 لاکھ بچے اسکول جانے سے
محروم رہے ۔ ملک میں 2 ہزار 88 فرضی اسکول قائم ہیں ، جب کہ ایک ہزار
اسکولوں پر نا جائز قبضہ کیا جا چکا ہیے۔ ایک ہزار 786 افراد کے لیے سرکاری
ہسپتالوں میں صرف ایک بستر موجود ہے ۔ ملک میں 40 فی صد اموات کا سبب آلودہ
پانی کے باعث پھیلنے والی بیماریاں تھیں ۔ 8 لاکھ بچوں میں سے 35 فی صد کی
اموات کی وجہ نا قص خوراک تھی ۔ بے روز گاروں کی تعداد 37 لاکھ 20 ہزار سے
تجاوز کر گئی۔ پولیو ورکرز پر حملے میں 20 افراد جاں بہ حق ہو گئے ۔
ذرا سوچیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟یہ اندوہ ناک اعداد و شمار صرف ایک سال کے
ہیں ۔ مجھے" غیرت کے نام پر قتل " کے واقعات پر دکھ کے ساتھ ساتھ حیرت بھی
ہوتی ہے ۔ دکھ تو فطری ہے کہ ہر درد مند دل رکھنے والے کو ہوتا ہے ۔ حیرت
اس بات پر کہ ہم فقط عورت کے معاملے میں ہی غیرت مند کیوں ہے ؟غیرت کا
تقاضا یہ ہے کہ ہر اس سانحے کی عملی طور پر بیخ کنی کے جائے جس نے ہماری
انفرادی اور اجتماعی ساکھ کو دنیا بھر کی نظر میں بری طرح مجروح کر رکھا ہے
۔ مگر ہم ایسا نہیں کرتے ۔ نہ جانے ہمارا اجتماعی ضمیرکب جاگے گا ؟نہ جانے
ہم کب سمجھیں گے ؟ |