آپ نے (چڑھتے سورج کی پوجا )والا محاورہ تو سنا ہوگا اس
کا مطلب بھی آپ کو پتہ ہوگا یہ عام طور پر اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب
کوئی شخص حقیقت سے نظریں چُرا کے،سچائی کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے ضمیر کو
مردہ کر کے کسی ایسے واقع یا کسی ایسے شخص کی جھوٹی تعریف کرے جس کا حقیقت
سے دور دور تک کوئی تعلق نہ ہواور سننے والا یہ سمجھے کے اس کے کارنامے اور
کار گردگی کی تعریف ہو رہی ہے اور تعریف کرنے والاصرف اپنے مطلب کی خاطر یا
اپنے کسی تعلق کی وجہ سے اپنے مراسم کو بڑھانے کے لئے زمین و آسمان کو
ملانے کی کوشش کرے،ایسے شخص کو حرف عام میں منافق بھی کہا جاتا ہے ،یعنی جو
منہ پر کچھ اور پیچھے کچھ ہوتا ہے اور منافق کا کیا درجہ ہے وہ آپ بہتر
جانتے ہیں اور اگر معاشرے کے سارے لوگ،بلکہ قوم ساری اگر چڑھتے سورج کی
پوجاری بن جائے تو پھر قوم کی سوچ کا ،اس شعور کا کیا حال ہوگا۔
میں ایک مقام پر بیٹھا ایک فی میل ٹیچر کی باتیں سن رہا تھا اس کا نام صبا
تھا یہ پرائیویٹ ٹیچنگ کے شعبے سے وا بستہ ہے،بہت عرصہ پنجاب کے بڑے
پرائیویٹ سکولوں میں پڑھانے کے بعد آج کل کشمیر کے ضلع باغ کے گاؤں بیرپانی
میں اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہے ، جو شکوے کے انداز میں کہہ رہی تھی کہ
اس نے یہاں آنے کے بعد مختلف سکولوں کا ووزٹ کیا اور پھر ایک سکول میں ٹیچر
لگ گئی اس کا کہنا تھا کہ جب وہ پہلے دن سکول گئی تو حیران ہو گئی کہ یہ
سکول تربیت گاہ ہیں، یا تباہ گاہ،یہاں پر بچوں سے کسی بھی طرح سے شفقت سے
بات نہیں کی جاتی تھی نہ کوئی اخلاقیات سیکھائی جاتی تھی بس خوف و حراس کی
دنیا میں بچے سمے ہوئے سکول آتے اور خدا خدا کر کے وقت پورا کرتے ، استاد
استاد نہیں بلکہ جلاد کا کردار ادا کرتے ہر ایک کے ہاتھ میں پولیس کی طرح
ڈانڈا لئے ہوئے سخت لہجے میں بچوں کو ڈانڈتے اور مارتے سبق یاد کرواتے جب
استاد کلاس روم میں آتے تو بچوں کو کھڑا نہ ہونے دیا جاتا کہ یہ آپ کا کام
نہیں ہے سلام بھی نہ کرنے دیا جاتا یہ کہہ کر کہ باہر سے آنے والا سلام
کرتا ہے آپ استاد کے سامنے ادب سے کھڑے بھی نہ ہوں اور سلام بھی نہ
کریں۔کچھ دن تو وہ اس ماحول کو دیکھتی رہی پھر اس نے اپنی کلاس سنبھالی اس
نے سب سے پہلے بچوں کو پیار سے بات کروانا سیکھایا پھر ان کو پڑھائی میں
دلچسپی پیدا کرنے کے لئے جدید طریقے سے پڑھانا شروع کیا ڈانڈا کلچر اپنی
کلاس کی حد تک ختم کر کے بچوں کے اندر سے سکول کا خوف نکال کر انہیں ذوق و
شوق کی طرف لے آئی تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ بچے جو پہلے سکول آنے کو عذاب
سمجھتے تھے اب صبح ہوتے ہی سکول پہنچ جاتے ہیں بچوں کی وہ کاپیاں جو پہلے
ان کے لئے مشکل تھیں بچوں کی کیا، خود ان کے والدین کی سمجھ میں نہیں آتیں
تھیں اب بچے خود اپنے والدین کو دیکھاتے ہیں کہ یہ دیکھیں نئی مس نے کاپی
بنائی ہے،اس کا فن یہ تھا کہ پہلے خوبصورت لفظ لکھا پھر اس کے متعلق تصویر
بنائی اور پھر سمجھایا کہ اس لفظ کا اس تصویر سے کیا تعلق ہے، اس طرح بچے
کے علم میں اور شوق میں اضافہ ہوا اور بچے شوق سے پڑھنے لگے والدین بھی
سکول آنا شروع ہوئے ۔اس کے کام کی تعرف کرتے کہ جب سے آپ نے بچوں کو پڑھانا
شروع کیا ہے تب سے بچے شوق سے سکول آتے ہیں اور آپ کی تعریف کرتے ہیں گھر
میں بھی جا کر کام کرتے ہیں، مس صباء جو پہلے سکول میں بڑی کلاسوں کو انگلش
پڑھاتی تھی مگر وہ نرسری اور پریپ کے بچوں کو پڑھانے سیکھانے میں خداداد
صلاحیت کی مالک ہے اس کے اندر ایسا فن ہے بچوں کو پڑھانے کا کہ بچہ سکول
میں آنے کا انتظار کرتا ہے۔وہ کہہ رہی تھی کہ یہاں کے والدین آتے ہیں اور
میری تعریف کر رہے ہوتے ہیں اتنے میں یہاں کا مقامی پرانا استاد ہاتھ میں
ڈانڈا لئے آجائے تو وہی والدین اس کے سامنے اس کی تعریفوں کے پل باندھنا
شروع کر دیتے ہیں،اس کا کہنا تھا کہ میں حیران ہوئی کہ مشکل سے بچوں کو یہ
سیکھایا کہ بڑوں کا ادب کرتے ہیں جب کوئی کلاس میں آئے تو کھڑے ہوتے ہیں
سلام میں پہل کرتے ہیں،ادب سے بات کرتے ہیں بچوں نے ایسا ہی کرنا شروع کر
دیا سب ایک دوسرے سے پیار سے بات کرتے سب سلام میں پہل کرتے ایک دن میری
کلاس میں ایک سینئر ٹیچر آیا بچے ادب سے کھڑے ہوئے تو اس نے ان کو میرے
سامنے ڈانڈا کہ اپ کو یہ کس نے سیکھایا کہ کلاس میں کھڑے ہو، اور سلام
کروجو باہر سے آتا ہے اس کا کام ہے کہ سلام کرے آپ کا نہیں،مس صباء کا کہنا
تھا کہ میری آنکھیں کھلی کی کھلی اور میری سوچ جام ہو گئی کہ جس قوم کے
بچوں کو ابتدا سے ہی اخلاقیات کا درس نہ دیا جائے ،جس قوم کے بچوں کو پیدا
ہوتے ہی خوف اور مار کے ڈر سے پالا جائے وہ کیا صلاحیت لے کے بڑا ہوگا اور
وہ قوم کی خدمت کے قابل کیسے بنے گا جب کہ وہ تو خود خوف کا مارہ اس معاشرے
کے سکولوں سے جان چھوڑانا چاہتا ہے۔ مس صبا ء کی یہ بات سو فیصد ٹھیک ہے یہ
المیہ کسی ایک سکول یا کسی ایک علاقے کے ساتھ نہیں بلکہ یہاں کا کلچر ہی
ایسا ہے،یہاں پر کوئی بھی ادارہ ہو ،سرکاری ہو یا پرائیویٹ،کوئی محفل ہو یا
کوئی کاروبار،کوئی بھی گھر ہو یا پھر رشتے دار وہ چڑتے سورج کی پوجا کرے گا
وہ منہ پر اپنے مطلب کی خاطر تعریف کرے گا حقیقت کو کبھی بھی بیان نہیں
کرتا،یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ اگر ہم نے کچھ حاصل نہیں کیا تو صرف استاد کی
ڈر کی وجہ سے بس سبق کو رٹ کر یاد کرتے اور اپنی جان چھوڑاتے یہ تو پتہ ہی
نہیں ہوتا تھا کہ یہ کس نے لکھا کیو ں لکھا اس میں کیا سبق ہے ۔ بس استاد
بھی زبانی سن کر شباش دے کر چھوڑ دیتے اور اس رٹے نے آج نہ صرف ایک دو،
بلکہ پوری قوم کو تباہ کردیا کریٹوو کام کیا ہوتا ہے اس نسل اور اس قوم میں
سے صدیوں بعد بھی کوئی نہیں کر سکتا،رٹے اور ڈانڈے نے اس قوم کی سوچ کو جام
کر دیا اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے سکولوں میں افسوس کی حد تک تعلیمی نظام
خراب ہے ،وہ ڈگریاں کس کام کی جو نسل کو نہ بیدار کر سکیں،مس صباء کو بھی
بچوں کو آزادنہ پڑھانے میں بے شمار مشکلات اور تنقید کا سامنا ہے ۔جو ہمارے
تعلمی اداروں کا اور تعلیم کا حال ہے اس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں
کہ ہم زمیں پر بوجھ تو پیدا کر رہے ہیں مگر اشرف المخلوقات کا درجہ پانے
والے انسان سے محروم ہیں اور اس کے ذمہ دار کوئی اور نہیں ہم خود ہیں،اور
اس کی سزا بھی ہم ہی بھگت رہے ہیں اور آئندہ بھی بھگتے گے۔ہم سب بھڑ چال کے
عادی ہیں ایک نظام جو صویوں پہلے تھا آج بھی اسی کو کار آمد سمجھتے ہیں جب
کے دنیا بہت اگے نکل چکی ہے۔اب سزا جہلوں میں بھی جرم سمجھی جاتی ہے اور ہم
تربیت گاہوں میں دے رہے ہیں۔ |