پرائیوٹ اسکول مافیا

معاشرے میں سدھارکیلئے مختلف چیزوں کی اہمیت دی جاتی ہے ۔بلکل اسی طرح کسی بچے کو اچھی تربیت یا اعلیٰ تعلیم دینا چاہتے ہیں تو ہم اپنے بچوں کیلئے پرائیوٹ اسکو ل کا انتخاب کرتے ہیں اور انہیں تعلیم دلانے کیلئے ہم ان کا داخلہ بڑے بڑے نام والے پرائیوٹ اسکول میں کروادیتے ہیں ۔ہم اپنے بچوں کو اسکول میں داخلہ کروادینے کے بعد اپنی ذمہ داری پوری سمجھتے ہیں ۔اور بچہ اسکول میں کیا کررہا ہے ‘کیاپڑھ رہا ‘کیا سیکھ رہا ہے‘اسکول کا ماحول کیسا ہے وٖغیرہ وغیرہ ہم پورا سال اسکول کا رخ بھی نہیں کرتے جبکہ اسکول کی ماہانہ فیس بھی بچوں کے ہمراہ یا پڑوسن کے ہاتھ جمع کروادیتے ہیں -

والدین کی عدم دلچسپی کے باعث بچہ اسکول میں ایک ہونہار شاگرد کے بجائے ‘ایک آوارہ لڑکا بن کر نکلتا ہے ۔جس کی وجہ آنکھوں میں سجائے گئے والدین کے سپنے چکنا چور ہوجاتے ہیں اور پھر وہی حسب توقع والدین اپنے ان ہونہار آوارہ لڑکوں کے کسی گیراج میں مزدوری کیلئے لگادیتے ہیں -

میں آپ کا حال بتاتا ہوں حیدرآباد کے چند پرائیوٹ اسکولوں کا ‘وہاں کا تعلیمی معیار‘وہاں کارولز اینڈ ریگولیشن ‘اور پروفیشل اساتذہ کے بارے میں
یوں توں حیدرآباد میں بہت بڑے بڑے نام والے اسکول موجود ہیں ْلیکن ان میں چند ایسے اسکول ہیں جن کا بس نام ہی بڑا ہے ۔
’’نام بڑے درشن چھوٹے‘‘

حیدرآباد کے علاقے گھمن آباد میں چار سے پانچ اسکول ہیں ۔جن میں کئی بچے اپنے روشن مسقتبل کیلئے تعلیم حاصل کرنے کی جستجو میں لگے ہو ئے ہیں ‘ ہر ایک بچہ آنکھوں کے سپنے سجائے ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں ‘حقیقت سے آشنا یہ طلبہ کیا جانے کہ جو یہ تعلیم حاصل کررہے ہیں اور جن اساتذہ کی زیر سرپرستی حاصل کررہے ہیں کیا وہ ایسی تعلیم حاصل سے روشناس ہورہے ہیں جو کہ ایک روشن مستقبل کی ضمانت ہوں ۔بلکل نہیں ‘حکومتی قوانین کے مطابق یہ کسی بھی پرائیوٹ اسکول میں استاد/استانی کے پیشہ کیلئے کم از کم انٹر تک تعلیم ضروری ہے ۔مگر قانون کی دھجیاں بکھرتے یہ اسکول کچھ اورہی اصول اپنائے ہوئے اپنی دوکان چلارہے ہیں ۔

ہر سال نئے تعلیمی سال کے آغاز کے موقع پر ان کی اسکولوں کی جانب سے والدین اور بچوں کو اپنی جانب سے راغب کرنے کیلئے بہت سے دعوے کیا جاتے ہیں ۔جسیا اگر یہاں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگاجیسے ہمارے سیاستدان الیکشن سے پہلیاپنے اپنے منشور کا اعلان کرکے بڑے بڑے دعوے کرتے ہے اور پھر وہی جو حسب معمول الیکشن کے بعد عوام کے ساتھ ہوتا ہے اور ہوتا آیا ہے -

بلکل اسی طرح یہ اسکول والے‘اعلیٰ تعلیم‘بہترین مستقبل کی ضمانت‘کشادہ کلاسز‘ جدید کمپیوٹر سسٹم ‘اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ وغیرہ کے بڑے بڑے دعوں کے ساتھ بڑے بڑے پینا فلیکس شہر کے گلی میں محلے میں آویزاں کردیتے ہیں ۔جب کہ حقیقت کچھ اس سے مختلف ہے ۔گذشتہ دنوں میں نے اپنے کالم کیلئے علاقہ کے مختلف اسکولوں کا دورہ کیا جہاں مجھے سب سے زیادہ حیرانگی اس وقت ہوئی جب ایک بڑی کلاس کا طالب علم اور طالبعلم چھوٹی کلاسوں میں ٹیچری کررہے تھے‘ ایسا منظر صرف ایک کلاس روم میں ہی نہیں بلکہ دو سے تین کلاسز میں دیکھنے کو ملا۔ یہ دیکھ رہا میں بہت دلبرادشتہ ہوا‘ اور میں نے پرنسپل صاحب سے عرض کیا ‘جناب یہ کیا ہے تو انہوں نے مجھے کہا اساتذہ کی کمی ہے ‘پرنسپل کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ گہری گبھرائٹ بھی طاری تھی۔پرنسپل کے اس جواب نے مجھے ایک تازہ دم کردیا ۔جبکہ میری اطلاع کے مطابق یہی طلبہ گذشتہ دو تین سال سے اسی اسکول میں زیر تعلیم بھی اور اسی اسکول میں اساتذہ بھی مقرر ہے ۔

بات یہی ختم نہیں ہو جاتی ۔ کشادہ کلاسز ‘جدید کمپیوٹر سسٹم اور پلے گراؤنڈ کے دعوے کرتے یہ اسکول ‘جیسا کہ اکثر دیکھا بس اسٹاپ پر دیکھا جاتاہے ایک سے شہرسے دوسرے شہر جانے والیم مسافر کوسٹر/بسوں میں ضرورت سے زیادہ مسافروں کو بھیڑ بکریاں بھر دیا جاتا ہے ۔بلکل اسی طرح ایک چھوٹے سے کمرے کو دو دو کلاس رومز میں تقسیم کیا ہوا تھا اور ایک کلاس میں ضرورت سے زیادہ طلبہ بھرے ہوئے تھے۔ اور رہی بات تو جدید کمپیوٹر سسٹم کو تو جناب پرنسپل آفس میں موجود ایک ناکارہ کمپیوٹر سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ اسکول کتنے جدید ہونگے۔ اورپلے گراؤنڈ تو جانب 11سے 11.30(بریک ٹائم) جس اسکول میں ایک کمرے کو دو کلاس رومز میں تقسیم کردیا جائے تو وہاں سے پلے گراؤنڈ کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں ‘قارئین آپ کو یہاں ایک بتاتا چلوں کہ بھاری بھرکم فیس وصول کرنے والے ان اسکولوں میں کلاس روم کے ساتھ ہی ایٹیچ واش روم ہے ‘اسٹیچ واش روم کے دروازے کا رخ بھی کلاس روم کی جانب سے جس کی وجہ سے طلبہ کو دن بھر ایک عزیت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ‘قارئین یہاں آپ کو بات جو حیرن کن طور پر آپ کو ایک دو منٹ کیلئے سطے میں ڈال دی گی وہ یہ کہ صفائی نصف ایمان کا درس دیتے یہ اسکول ‘جہاں اسکول مالکان کی جانب سے ان واشرومز میں طلبہ اور اساتذہ کیلئے نہ تو ہاتھ دھونے کیلئے صابن فراہم کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی ہاتھ صاف کرنے کیلے تولیہ وغیر‘۔ اسکولوں میں ان سہولیات کو موجود نہ ہونا ان طلبہ کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ان طلبہ کی صحت کیلے ایک بڑا مسئلہ ہے ۔یہ کہانی حیدرآباد کے کسی ایک اسکول نہیں بلکہ ہر اس دوسرے اسکول کی ہے جو بچوں کے مستقبل سے بنا کسی خوف و خطر کھیل رہے ہیں ۔میں ایک آزاد شہری ہونے کے ناطے حکومت سندھ ‘وزیر تعلیم سے مطالبہ کرتا ہوں کہ خدارا ایسے اسکول کے خلاف جلد کاروائی کی جائے اور بچوں کے مستقبل سے کھیلنے والوں کو جلد از جلد قانونی دائرے کار میں لاکر کاروائی کرے۔

اگر حکومتی یا ریاستی شخص مجھ سے ان اسکولوں کے حوالے سے معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے تو برائے کرم اس نیک کام مجھ سے رابطہ کرے۔
ختم شد

junaid
About the Author: junaid Read More Articles by junaid: 11 Articles with 12459 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.