ریشماں اور آزادیِ صحافت

ریشماں بڑے حاجی صاحب کی سب سے چھوٹی اور بہت لاڈلی بیٹی ہے۔ریشماں خوبصورت بھی ہے اور خوب سیرت بھی ۔وہ مقامی کالج میں کمپیوٹر سائنس میں بی ایس کر رہی ہے۔کالج سے وہ کبھی پیدل نہیں آئی کوئی بھائی یا بھتیجا اسے کالج چھوڑتا اور واپس لے کے آتا ہے۔حاجی صاحب خود غلے کا کاروبار کرتے ہیں۔۔حاجی صاحب ایک بڑی فیملی کے سربراہ ہیں ۔ان کے نو بھائی اور چھ جوان بیٹے ہیں۔ گھر میں پیسے کی ریل پیل ہے لیکن اس کے ساتھ مذہب کی طرف رحجان بھی۔نماز کے وقت وہ اپنا کاروبار بند کرتے اور مسجد میں جا کے نماز پڑھتے ہیں۔ کاروبار میں بھی حاجی صاحب کی ایمانداری کی لوگ تعریف کرتے ہیں۔شہر بھر میں حاجی صاحب کا گھرانہ عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔اس میں کچھ ہاتھ ان کی دریا دلی ،لوگوں پہ ان کی مہربانیوں اور ان کی دیانت کا ہے اور کچھ ان کی عددی اکثریت بھی لوگوں کو ان کے احترام پہ مجبور کرتی ہے۔

حاجی صاحب ایک دن گھر سے منڈی آ رہے تھے کہ ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ سارا خاندان خبر سن کے جائے حادثہ کی طرف بھاگا۔حاجی صاحب کو ہلکی سی چوٹ آئی تھی لیکن چونکہ حاجی صاحب کو آئی تھی اس لئے جب تک ڈاکٹر نے بار بار حاجی صاحب کو خطرے سے باہر قرار نہیں دے دیا کوئی ہسپتال سے ہلا تک نہیں۔اسی قضئیے میں ریشماں غریب کالج کے دروازے پہ کھڑی رہ گئی۔ حاجی صاحب بچیوں کے موبائل فون کے استعمال کرنے کے سخت خلاف ہیں۔ریشماں کو اکیلا دیکھ کے ایک منچلا آگے بڑھا اور اسے مدد کی پیشکش کی۔ریشماں کی خاموشی دیکھ کے اس کی ہمت کچھ اور بڑھی اور اس نے محبت کا اظہار کر نے لگا۔ریشماں بے بسی کی تصویر نظر آنے لگی۔اس سے پہلے کہ عاشق نامراد کسی اور حرکت کا مرتکب ہوتاریشماں کا ایک بھتیجا اسے لینے آگیا۔ اس نے لڑکے کو ریشماں کے پاس کھڑے دیکھا تو ریشماں نے لگی لپٹی رکھے بغیرسب کہانی سنا دی۔بھتیجے نے فون کیا اور پندرہ منٹ میں وہاں ایک جم غفیر تھا۔عاشق صاحب کی وہ دھنائی ہوئی کہ سارے شہر نے دیکھا۔

ہسپتال میں جاجی صاحب اب کافی سکون محسوس کر رہے تھے کہ اچانک بریکنگ نیوز آنے لگی۔ان کے شہر میں آزادی صحافت پہ حملہ ہو گیا تھا۔حاجی صاحب کی حیرت کی انتہاء نہ رہی جب ان کا نام لے کے انہیں اس حملے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ ان کے خاندان کو ذخیرہ اندوز،ناجائز منافع خو اور قبضہ گروپ اور نہ جانے کس کس جرم کا مرتکب قرار دیا جانے لگا۔حاجی صاحب نے اپنے بھائیوں کو فون کیا اور انہیں اس خبر کے چلنے کا سبب معلوم کیا۔ پتہ چلا کہ دوپہر کو ایک معمولی سا جھگڑا ہوا تھا اس کے علاوہ اور کوئی خلاف معمول واقعہ نہیں ہوا۔حاجی صاحب نے فوراََ واقعے کی تفصیل حاصل کرنے کا حکم دیا ۔پتہ چلا کہ عاشق صاحب صحافی تھے اور کسی دوسرے شہر سے کوئی سٹوری کور کرنے آئے تھے۔وہ ریشماں کو جانتے نہیں تھے۔اس کی معصومیت اور حسن دیکھ کے انہیں ایڈونچر کا شوق چرایا اور انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤاظہار عشق کر ڈالا۔پھر وہی ہوا جو عاشقوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔عشق اﷲ کے ساتھ ہو یا مخلوق کے ساتھ امتحان لیتا ہے۔گاڑی میں بیٹھے ان کے دوسرے ساتھیوں نے ان کی عاشقی کی سزا کو فلمبند کیا اور اپنے چینل کو بریکنگ نیوز دے دی کہ"ذخیرہ اندوزوں کا ۔۔۔۔۔کی ٹیم پہ حملہ"مقامی شہر کا جو صحافی اس ٹیم کے ساتھ تھا۔اس نے کہا بھی کہ حاجی صاحب نیک آدمی ہیں لیکن کیمرے اور مائیک کے نشے میں چور رپورٹر نے ایک نہ مان کے دی۔انہوں نے طوفان کھڑا کر دیا۔ شہر کی صحافتی تنظیمیں اپنی جگہ پہ حیران تھیں کہ آزادی صحافت کے لئے آواز بلند کریں یا حاجی صاحب کی شرافت کی گواہی دیں۔مقامی انتظامیہ بھی حاجی صاحب کی ایمان داری اور خدمات سے واقف تھی۔انہیں جب معاملے کی اصل کا پتہ چلا تو انہوں نے بھی ان نوجوانوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن فرعونیت کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ اسے کسی انجام تک پہنچنے کے لئے کسی موسیٰ کا انتظار رہتا ہے۔ حاجی صاحب کی عزت سر بازار ایک جذباتی اور بے وقوف لڑکے کے ہاتھوں رل رہی تھی۔بھائی اور بیٹے اس عزت کی خاطر جان لینے اور دینے پہ آمادہ تھے لیکن حاجی صاحب نے فراست سے کام لیا اور چینل سے صلح کر لی۔

اس کے بعداس لڑکے کا اپنے اوپر اور اپنے چینل کے اوپر اعتماد دیکھنے والا تھا۔چینل نے اس کے ایک چھوٹے سے ایڈونچر کو عالمی مسئلہ بنا دیا تھا۔پڑوسی ملک کے چینلز نے بھی آزادی صحافت کے خلاف حملے کی اس سٹوری کو پک کیا تھا اور صحافت کی عالمی تنظیموں نے بھی اس واقعہ کو بنیاد بنا کے پاکستان کو صحافیوں کے لئے خطرناک ملک قرار دے دیا تھا۔حاجی صاحب کی شہرت کو اس واقعہ سے کافی نقصان پہنچا تھا ۔ریشماں جو اس قصے کا مرکزی کردار تھی۔اس کے بعد مسلسل بیمار رہنے لگی۔حاجی صاحب کا کاروبار بھی متائثر ہوا کہ ان کی ورک فورس جو ان کے بھائیوں اور بیٹوں بھتیجوں پر مشتمل تھی،بد دل ہو گئی تھی۔ان کا خیال تھا کہ اگر ہم بھی کسی نا انصافی اور ظلم کے خلاف کھڑے نہیں ہو سکتے تو اتنی دولت کمانے کا فائدہ۔

نوجوان صحافی کو اسی ایڈونچر کی بنیاد پہ کراچی پوسٹ کر دیا گیا۔وہاں بھی اس کی پھرتیوں کا یہی حال تھا۔ اس نے ابھی دو ہی بریکنگ نیوز دی تھیں کہ ایک دن اس کی اپنی بریکنگ نیوز آگئی۔گولی مار کے علاقے میں کسی نے اسے گولی مار دی تھی۔چینل والوں کو پتہ تھا کہ اسے کیوں قتل کیا گیا لیکن مارنے والے مائیک اور کیمرے سے نہیں گولی سے مارتے تھے اور یہ بات چینل کے مالک کو بھی پتہ تھی۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268753 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More