شیروں کو کون سمجھائے

کہتے ہیں شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے۔لیکن کہتا کون ہے حضرت انسان۔شاید جس کسی نے یہ درفنطنی چھوڑی ہوگی شیر کی درندگی اس کے مدنظر رہی ہو گی۔زمینی حقائق البتہ جنگل میں بھی اب بدل گئے ہیں۔ابھی ابھی فیس بک پہ ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی جس میں جنگلی بھینسیوں کے ایک گروہ نے جنگل کے بادشاہ کو گھیرا ہوا تھا اور اسے یوں اٹھا اٹھا کے پٹخ رہے تھے جیسے بچے ٹینس بال کو اچھالتے ہیں۔بادشاہ سلامت اپنی ملکہ کے ہمراہ ایک اونچے ٹیلے پر آرام فرما رہے تھے کہ وہاں سے بھینسوں کا ایک غول گذرا۔ بادشاہ سلامت نے زمانہ قدیم کی روایات کے مدنظر ایک ہلکی سی دھاڑ ماری تو جنگلی بھینسوں نے چاروں اطراف سے اس ٹیلے کو گھیر لیا۔گھیرا اتنا تنگ تھا کہ بادشاہ سلامت کے لئے نکلنے کی تمام راہیں مسدود ہو گئیں۔بادشاہت کا بھرم رکھنے کو بادشاہ سلامت نے اپنے پنجے نکالنے کی کوشش کی تو بھینسے وحشی ہو گئے۔انہوں نے بادشاہ اور ملکہ کی وہ درگت بنائی کہ بادشاہ سلامت نڈھال ہو کے گر پڑے۔میرا خیال تھا کہ شاید بادشاہ سلامت کی جان بخشی ہو جائے لیکن بھینسے بادشاہ کی جان لے کر ہی ٹلے۔ملکہ البتہ آنکھ بچا کر کسی دوسرے بادشاہ کی تلاش میں نکل گئی۔

مجھے یہ سائٹ کچھ عجیب لگی ۔ایک دوسری ویڈیو پہ کلک کیا تو وہاں دھاری دار گدھوں کا ایک گروہ بادشاہ کے زیر عتاب تھا۔بادشاہ سلامت انہیں ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھگا رہے تھے۔بادشاہ کی موج دیدنی تھی۔ ہمارے بادشاہوں کی طرح اس نے بھی ان گدھوں کا ناطقہ بند کیا ہوا تھا۔ بادشاہ جس سمت قدم بڑھاتا ہزاروں کی تعداد میں یہ زیبرے یا گدھے اس کے آگے شوٹ لگا دیتے۔بادشاہ کی ایکسر سائز پوری ہوئی اور ناشتے کا وقت آگیا۔ بادشاہ سلامت نے ایک تنومند گدھا پسند فرمایا اور اس پہ چھلانگ لگا دی۔بادشاہ کا خیال ہوگا کہ اب یہ گدھا اپنا سر نیچے ڈال کے ہنسی خوشی تاج پہ قربان ہو جائے گا لیکن اس وقت میری حیرت کی انتہاء نہ رہی جب اس گدھے نے بادشاہ سلامت کو نیچے پٹخا اور اپنے جسم کا سارا بوجھ بادشاہ سلامت کے اوپر ڈال دیا۔گدھے کے وزن سے شیر صاحب کی چیخیں نکل گئیں۔گدھا کافی دیر شیر کو مسلتا رہا اور جب دیکھا کہ شیر مرنے کے قریب ہے تو چھوڑا۔بادشاہ سلامت نے اپنا تاج زمین سے اٹھائے بغیر ہی جان بچانے میں عافیت جانی۔

جب سے یہ دو ویڈیوز میں نے دیکھی ہیں ، سوچ رہا ہوں کہ جنگل کے قانون بھی بدل رہے ہیں۔جنگل میں بھی اب جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہو رہا ہے۔جنگل میں بھی اب بادشاہت کے آگے لوگ سینہ تان کے کھڑے ہونے لگے ہیں۔ جنگل بھی اب شخصی حکمرانی کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔وہاں بھی جانور اب صرف طاقت کے بل بوتے پہ کسی کو اپنی جان نہیں لینے دیتے۔کسی کی بھوک مٹانے کے لئے اب جانیں نچھاور کرنے کا چلن نہیں رہا۔جنگل میں پہلے بھی ہاتھی رہا کرتے تھے جو شیر سے زیادہ طاقت ور تھے لیکن ہاتھی شیر کا اور شیر ہاتھی کا بقائے باہمی کی بنیاد پہ احترام کیا کرتے تھے۔ جنگل میں بھینسے پہلے بھی تھے اور زورآور بھی۔شیر لیکن کبھی ان کے سینگوں میں پھنس کے فٹ بال نہیں بنا تھا اور رہے گدھے تو انہوں نے تو کبھی بادشاہ کے جبروت کو للکارنے کا سوچا بھی نہ تھا لیکن اب تو سارے قوانین ہی بدل گئے ہیں۔ لگتا ہے جنگل میں جمہوریت آگئی ہے۔جیسے دنیا میں بادشاہتیں بس نام کی رہ گئی ہیں یونہی جنگل میں بھی شیر صرف برائے نام بادشاہ ہے۔جنگل کے جانور بھی سمجھدار اور سیانے ہو گئے ہیں۔

پھر میں اپنے وطن پہ نظر کرتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہاں کے شیروں کو اس بات کا احساس کیوں نہیں ہو رہا کہ ان کے استحصال کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ ذرا سوچیں جس دن اس ملک کے عوام لوڈ شیڈنگ،پانی بجلی گیس کی بندش اور مہنگائی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو ہمارے شیروں کا کیا بنے گا؟ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے بنائے محلات اور کھڑے مزارات پہ جس دن عوام نے یک جان ہو کے ہلا بول دیا تو اس دن شہزادے کہاں جائیں گے اور شاہزادیوں کا کیا بنے گا؟

میرے وطن کے شیر سوچ لیں کہ جنگل تک کا قانون بدل گیا ہے۔وہاں بھی اب بادشاہ سلامت کا تاج خطرے میں ہے ۔ وہ بادشاہ جس کی بادشاہی مسلمہ تھی۔جسے سارا جنگل جھک کے سلام کرتا تھا۔آپ کی تو بادشاہی بھی چند روزہ ہے۔آٹھ فیصد اشرافیہ ! کب تک آخر عوام کا لہوچوسے گی ۔کبھی تو کوئی جینوئن لیڈر اس ملک کے عوام کو نصیب ہوگا۔ڈرامے باز اس دن کہاں جائیں گے۔عوام کی نبض پہ ہاتھ رکھنے کا دعویٰ کرنے والو! تم نے پچھلے ایک ہفتے میں عوام کے موڈ کا اندازہ نہیں لگایا۔ کیا تمہیں اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ پنگچر لگا کے اقتدار ہتھیانے اور دلوں پہ راج کرنے میں کیا فرق ہوتا ہے؟ابھی بھی وقت ہے ۔تاج خود کچرے میں پھینک دو اور اپنے اپنے محلات سے نکل کے غریب کی جھونپڑی تک پہنچوورنہ غریب کو تمہارے محلات تک آنا پڑے گا۔ جس دن غریب کٹیا سے باہر نکل کے محلات کے راستے پہ چل نکلا اس دن پھر تمہیں وہاں سے نکل بھاگنے کی بھی مہلت نہیں ملے گی۔

جنگل کا قانون بدل رہا ہے تو ہمارا قانون کیوں نہیں بدل سکتا؟ کیا ہمارے شیروں کو بھی انتظار ہے کہ بھینسے انہیں گھیر لیں اور گدھے اپنا سارا بوجھ ان پہ ڈال دیں؟یاد رہے کہ مرمت شدہ "ٹیوبیں" زیادہ دیر ہوا کا دباؤ برداشت نہیں کیا کرتیں۔خدانخواستہ ان میں کوئی کیل لگ جائے تو ۔۔۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268689 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More