چھاج اور چھلنی

چھاج اور چھلنی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ چھاج اور چھلنی کا ظرف بھی بہت مختلف ہوتا ہے مگر چھاج اب ملتے کہاں ہیں۔ بس چھلنیاں ہیں کہ بولے جاتی ہیں۔ بولنا بھی یقینا چھلنی کے اپنے ہی معیار کا ہے۔ یہی غیر ضروری بولنا حالات بگاڑ رہا ہے۔ صورت حال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے مگر کوئی سمجھنے کو تیار نہیں۔ ہر چھلنی اب دانشور ہے کہ اس کا سکہ چلتا ہے۔ چند چھاج اگر ہیں بھی تو خاموش ہیں۔ پتہ نہیں اس میں کیا مصلحت ہے حالانکہ آج قوم کو چھاجوں کی ضرورت ہے کہ بڑھ کر افہام و تفہیم کا کام کر سکیں کیونکہ اسی میں پوری قوم کی بہتری ہے۔

آرمی چیف کا بیان بڑا سادہ اور باوقار تھا۔ ہر شخص اپنا اور اپنے ادارے کے وقار کا تحفظ کرتا ہے جو اس کا جائز حق ہے۔ آرمی چیف کے بیان میں کوئی قابل اعتراض بات نہ تھی۔ مگر جانے کیوں کچھ لوگ کچھ راتیں چین کی نیند نہ سو سکے۔ شاید اپنی غلطیوں کا احساس شدید تر تھا کہ فوج کے سربراہ کے بیان کو دھمکی تعبیر کیا گیا۔ وزیر با تدبیر جناب پرویز رشید نے ٹھیک کہا کہ فوج اس ملک کی ہے۔ ملک کی محافظ ہے۔ سرحدوں کی محافظ ہے اور آئین کی محافظ ہے۔ مگر سوچا جائے آئین کو آئین کون سمجھتا ہے۔ کون آئین کا کتنا احترام کرتا ہے۔ کون آئین کی پوری طرح پرواہ کرتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات نہ کروانا کہ آئین شکنی نہیں۔ عدالتی امتیازات کے بل بوتے پر کئی سال پورے ملک کو یرغمال بنائے رکھنا کیا آئینی ہے؟ بہت سی باتیں ہیں کس کس کا ذکر کیا جائے لوگ بہت سے سوال اٹھاتے ہیں۔ بحث میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ مگر موجودہ حالات کا تقاضہ ہے کہ سب کچھ بھول کر ملک کی بہتری کے لئے کام کیا جائے۔ کچھ حاصل کرنے کیلئے کچھ کھونے کا جذبہ بھی ہو۔ بڑا پن یہی ہے کہ اگر آپ عزت اور وقار کے خواہش مند رہیں تو دوسروں کو بھی عزت اور وقار دیں۔

ہر شخص کی خواہش ہے اﷲ کرے فوج اور حکومت کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوں۔ اﷲ کرے طالبان اس ملک کے آئین کو تسلیم کر لیں اور اچھے پُرامن شہریوں کی طرح زندگی گزاریں۔ خود بھی جینا سیکھ لیں اور دوسروں کو بھی جینے دیں مگر یہ سب خواہشات ہیں۔ ہم خود کچھ کرنے کی بجائے ہر کام اﷲ سے کرانا چاہتے ہیں۔ عملی طور پر کچھ نظر نہیں آتا۔ حکومت بھی اگر ایک قدم آگے بڑھاتی ہے تو دو قدم پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ لگتا ہے سروں کی فصل پک چکی ہے اورفصل کے کٹنے کا موسم شروع ہونے کو ہے۔ کہنے کو یہ بات بڑی آسان ہے مگر عملی طور پر انتہائی ہولناک مگر کیا کیا جائے۔ ہمارے رویے بتاتے ہیں کہ ہماری طرف سے دعوت عام ہے۔ اس صورتحال کا انجام بہت برا ہو گا اب آنے والا سیلاب بلا ہر چیز کو بہا لے جائے گا۔ یہ سیلاب کم اور عذاب زیادہ ہو گا۔ جس سے بچنے کے لئے قیادت میں کہیں بالغ نظری کا مظاہرہ نظر نہیں آتا۔ یا شاید ہمارے قیادت اس قابل ہی نہیں۔

ایک صاحب کچھ عرصہ پہلے کا ایک واقعہ سنا رہے تھے کہ وہ جہاز سے اسلام آباد جا رہے تھے۔ رش بہت تھا۔ انتظار میں کھڑے لوگ ٹکٹ کے منتظر تھے کہ دو وزراء آئے اور عام کلاس کا ٹکٹ جو اس وقت مل سکتا تھا لے کے جہاز میں سوار ہو گئے۔ سواریاں اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ رہی تھیں وزراء جہاز میں وارد ہوئے اور سیدھے بزنس کلاس کی سیٹوں پر جا پہنچے۔ فضائی میزبان بھاگتی ہوئی آئی اور انہیں درخواست کی کہ وہ کسی دوسرے کی سیٹ پر بیٹھنے کی بجائے اپنے لئے مخصوص سیٹ پر بیٹھیں۔ دونوں وزراء ناراض ہو گئے کہ فضائی میزبان اور اتنی جرات کہ ہمیں سیٹ چھوڑنے کا کہہ رہی ہے۔ ہم تو اس ملک کے بادشاہ ہیں اور کہیں بھی بیٹھ سکتے ہیں کوئی کیسے روک سکتا ہے۔ وہ مسافر جن کی وہ سیٹیں تھیں پریشان کھڑے سوچ رہے تھے کہ وزراء کو شاید بات سمجھ آ جائے اور سیٹ چھوڑ دیں مگر وزراء اگر عام آدمی کی بات سمجھ جائیں تو وزیر کیسے کہلائیں۔

تھوڑا شور سننے پر پائلٹ خود وزراء کے پاس آیا سلام دعا لی۔ حال چال پوچھا۔ فضائی میزبان کو سختی سے منع کیا کہ آئندہ ان اصحاب سے کوئی تکرار نہیں کرنی وہ ہمارے محترم وزیر ہیں۔ پائلٹ کی بات سن کر وزیر حضرات خوش ہو گئے۔ پائلٹ جھکا اور آہستہ سے ان کے کان میں کچھ کہا۔ دونوں وزرا گھبرا کر اٹھے اور اپنی اصلی سیٹوں پر جا کر بیٹھ گئے۔ جہاز کے سبھی مسافر حیران تھے کہ یہ کیسے ہو گیا۔ ہمارے وزرا اور انہیں پائلٹ کی بات آسانی سے سمجھ آ گئی۔ فضائی میزبان نے پائلٹ سے جا کر پوچھا تو جواب ملا میں نے ان سے کہا سر آپ تو اسلام آباد جا رہے ہیں۔ بولے ہاں تو میں نے انہیں کہا کہ سر جہاز کا یہ حصہ جہاں آپ بیٹھے ہیں تو اسلام آباد نہیں جا رہا۔ انہیں بات سمجھ آ گئی۔ فوراً اسلام آباد جانے والے حصے میں جا کر بیٹھ گئے۔ پائلٹ اور فضائی میزبان دونوں مسکرائے اور اپنے کام میں لگ گئے۔ چونکہ مجھے یہ واقعہ کسی نے سنایا ہے اس لئے کہہ نہیں سکتا کہ کس حد تک صحیح یہے دروغ بر گردنِ راوی۔ مگر اتنا جانتا ہوں کہ ہر جھوٹ کے پس پردہ کچھ نہ کچھ حقیقت ہوتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے زیادہ تر وزیر انتہائی بے تدبیر ہیں۔ عقل، فہم، تدبر، فراست اور قوت فیصلہ نہ ہونے کے برابر۔ مگر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار۔ یہی ایک خوبی ہماری پوری سیاست میں کار فرما ہے۔

وہ تمام لوگ جو اس ملک میں طاقت ور ہیں یا خود کو طاقت سمجھتے ہیں اگر انہیں آئینہ دکھایا جائے تو بہت تلخ حقائق سامنے آئیں گے۔ خصوصاً سیاسی طور پر طاقتور لوگ وہ ہیں جو میرٹ پر چپڑاسی بھی بھرتی ہونے کے قابل نہ تھے۔ طاقت کے باقی سرچشموں سے جو مینار ابھر کر سامنے آتے ہیں ان کے ماضی کی کارکردگی بھی سنتا جا شرماتا جا ہی ہے۔ کسی ملک میں سیاستدان نہ بھی ہوں تو ملک کو کچھ نہیں ہوتا مگر فوج کے بغیر ہمارے جیسے ملک کا وجود نہیں رہ سکتا۔ مذہبی حلقے ہمیشہ ہی کہتے ہیں کہ ہندو یہودی اور ان کے ایجنٹ اس ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ فوج کو کمزور کرنا اس ملک کو کمزور کرنا ہے اور جو لوگ یہ کر رہے ہیں انہیں کیا کہا جائے۔

فوج، بیورو کریسی، ڈاکٹرز، انجینئرز اور اساتذہ میں بہت بے چینی ہے کہ سبھی کڑے میرٹ پر منتخب ہوتے ہیں لیکن نعرے بازی کے بل بوتے پر بہت سے نا اہل ان پر حکمرانی کرنے لگتے ہیں۔ آج بھی اقتدار کے نشے میں مست ایسے ہی نا اہل لوگ حالات کو خراب تر کرنے لگے ہیں۔ ضرورت ہے کہ سیاسی قیادتوں کے اہل اور مخلص لوگ بگڑتے ہوئے حالات کو سنبھالیں ورنہ شہباز شریف کا کہنا اگر ہم نے صورتحال نہ سنبھالی تو خونی انقلاب آئے گا، کو سچ ہونے میں دیر نظر نہیں آ رہی۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 447102 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More