اہل قلم متحرک ہیں اور ادب تشکیل پا رہا ہے
ادب دوامی ہے ، اسے زندگی کے کسی موڑ پر زوال ہوا، نہ اِس وقت ہے اور نہ ہی
کبھی روبہ زوال ہوگا۔یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ ہم کتاب سے دور ہوگئے ہیں،
ہم نے مطالعہ کو اپنی زندگی سے نکال باہر کیاہے، ہمارے ملک میں کتب خانے
اول تو ہیں ہی نہیں اگر موجود بھی ہیں تو ان کی حالت ابتر ہے، کتابیں مہنگی
اور قوت خرید سے باہر ہوگئیں ہیں، کتابیں چھپنا شاید بند ہوگئیں ہیں، لکھنے
والوں نے خدا ناخواستہ قلم کی بساط لپیٹ دیہے، المختصر یہ کہ ادب زوال پزیر
ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جوکہی جاتی ہیں۔ کچھ باشعور طبقہ بھی اسی قسم کی باتیں
کرتا دکھا ئی دیتا ہے ۔یہ احباب جس چیز کو قصور وار گردانتے نظر آتے ہیں وہ
ہے برقی میڈیا پر برق رفتاری سے معلومات کا تبادلہ اور انٹر نیٹ جس نے ہمیں
کتاب سے دور اور مطالعہ سے دور کردیا ہے ۔ گویا کتاب اور پڑھنا ہماری
ترجیحات کی فہرست سے خارج ہو گیا ہے۔
بات برقی میڈیا ، کمپیوٹر ، انٹر نیٹ اور موبائل کی نہیں ۔ اگر ہم اپنی
زندگی کی دیگر جہتوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کا ہر شعبہ
انحطاط کا شکار ہے، ہر شعبے میں ابتری کا غلبہ نمایاں ہے۔کھانے پینے میں،
رہن سہن، لباس، عزیز رشتہ داروں، دوست احباب ، پڑوسیوں سے راہ و رسم میں ہے
کوئی ایک بھی ایسا کوئی شعبہ جہاں ہم یہ کہیں کہ اس میں بہتری آئی ہے، جو
کچھ پہلے نہیں تھا اب ہو گیا ہے۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ میرے برابر والے
فلیٹ میں کون رہتا ہے، محلے پڑوس میں کسی کا انتقال ہوجائے تو ہمیں خبر بھی
نہیں ہوتی اور ہم خبر حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ قریبی رشتہ داروں
سے خوشی یا غمی کے موقع پر ملاقات کو کافی سمجھتے ہیں۔بڑوں نے چھوٹوں کا
خیال ترک کردیا اور چھوٹے تو ماشا ء اﷲ ارسطو اور افلاطون ہوگئے ہیں۔ ہم
اپنی خواہش اور مقصد کی تکمیل فوری ، بغیر کسی تبدیلی کے ہر قیمت پر حاصل
کرنے پرگامزن رہتے ہیں۔ شدت پسندی ہمارے مزاج کا لازمی جزو بن گئی
ہے۔اچھائی نظر بھی آئے تو اسے معمولی حیثیت دیتے ہیں، برائی کی جھلک بھی
نظر آجائے تو اسے نمک مرچ اور مصالحے کے ساتھ خوب خوب چرچا کرتے ہیں۔ اپنے
برقی میڈیا کو ہی لے لیں۔ کیا دن بھر میں اچھے کام نہیں ہوتے یقناً بے شمار
خیر کی باتیں ہوتی ہیں ، میڈیا پر ان کے بارے میں کیا رجحان پایا جاتا ہے،
اول تو خیر کی باتوں کا ذکرہی نہیں ہوتا اگر ہوبھی جائے تو بد مزہ ہوکر،
ہلکے پھلکے معمولی الفاط کے ساتھ۔ اس کے مقابلے میں کہیں کوئی شر والی بات
میڈیا کو سنائی دے جائے خواہ چلتی گاڑی کا ٹائر پھٹنے سے زور دار آواز ہی
کیوں نہ آجائے، گھروں میں یا دوستوں میں باہمی رنجش پر تلخ کلامی ہی کیوں
نہ ہو۔ سب سے پہلے جلی حروف میں لکھا آئے گا’بریکنگ نیوز‘ ، پھر نیوز پرسن
یا اینکرپرسن حلق پھاڑ پھاڑ کر مسلسل اس خبر کو دھراتے رہتے ہیں جب تک کہ
ٹی وی دیکھنے والا ریموٹ سے اس چینل کو بدل نہ دے۔ریٹنگ کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔
زرا غور کریں کے ہمارا برقی میڈیاادب ،کتاب ، مطالعہ بینی یا کتب خانوں کے
حوالے سے کتنے پروگرام نشر کرتاہے ۔کتنے ادیبوں اور دانشوروں کو اپنے
پروگراموں میں مدعوں کیا جاتا ہے۔ گویا کوئی ادیب، شاعر، دانشور کسی موضوع
پر گفتگو کے قابل نہیں۔ ٹاک شو میں شرکت کا پیمانہ کسی بھی سیاسی جماعت
خواہ وہ ٹانگا پارٹی ہی کیوں نہ ہو سے وابستگی یا پھر کسی بھی چینل کا
اینکر پرسن ہونا ہے ۔ آج کا دانشوریہی طبقہ ہے۔ ہمیں ان رویوں پر غور کرنا
ہوگا۔ یہ وہ عوامل ہیں جن کے اثرات ادب کی تخلیق پر بھی پڑ رہے ہیں۔ اہل
قلم جن کو اپنے قلم کی روشنائی کاغذ پر منعکس کرنا ہے ان کے لکھنے کا پہیا
تو اسی طرح رواں دواں ہے۔ کتاب اسی طرح لکھی جارہی ہے، پڑھی جارہی ہے اور
فروخت ہورہی ہے ۔ آج بھی’ بیسٹ سیلر ‘ سامنے آرہی ہیں۔ دسمبر ۲۰۱۲ء میں
ایکسپو کراچی میں لگنے والے کتابوں کی نمائش میں کتابوں کی فروخت ریکارڈ
سطح پر جا پہنچی۔ نمائش میں شامل کتابوں کے پرستاروں کی تعداد لاکھوں میں
تھی۔ کراچی کے حالات کا اندازہ کیجئے ، اس کے باوجود شائے قین کتاب جوق در
جوق کتابوں کے لیے ایکسپو جاتے رہے۔ یہ کتاب
سے محبت، مطالعہ کا شوق اور ادب نوازی نہیں تو پھر اور کیا ہے۔
اس حوالے سے ایک اور مثال دینا چاہوں گا۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے کتب خانے
بہت برے حال میں ہیں ان میں کتابیں نہیں، ماحول اچھا نہیں، مناسب خدمات کا
فقدان ہے وغیرہ وغیرہ اس کے باوجود جن کتب خانوں میں پڑھنے والوں کو سہولت
کی ایک کرن بھی نظر آجائے تو وہ پروانوں کی طرح وہاں پہنچ جاتے ہیں اور ان
سہولتوں سے مستفیض ہوتے ہیں۔ میں ایک نہیں متعدد کتب خانوں کے نام گنوا
سکتا ہوں جہاں طالبان علم کا جم غفیر ہوتا ہے۔ شہر کراچی میں کتنے ہی کتب
خانے ایسے ہیں جو صبح نو بجے سے رات دس بجے تک کھلے رہتے ہیں۔ ان میں کوئی
آسمانی مخلوق مطالعہ کرتی نظر نہیں آتی، ہمارے طالب علم ہی ہوتے ہیں۔
بات سہو لیات اور مواقعے کی فراہمی کی ہے۔ پیاسوں کے لیے پیاس کا اہتمام تو
کریں پھر دیکھیں کہ پیاسے کس طرح کھچے چلے آتے ہیں۔ادب سے وابستگی کی ایک
اور مثال دسمبر ۲۰۱۲ء میں آرٹس کونسل میں پانچویں بین الاقوامی ادبی نمائش
تھی جہاں ادب کے شائیقین کا ذوق و شوق کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ راقم کو
اپنی آنکھوں سے ادب کے پروانوں کا یہ عظیم الشان منظر دیکھنے کا اعزاز حاصل
ہوا۔الحمرا لاہور میں ہونے والی ادبی کانفرنس ادبی کانفرنس بھی قابل دید
تھی۔یہ ادب سے محبت اور ادب نوازی نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم
آرٹس کونسل کے انتخابات میں ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ بھی ادب
سے سچی محبت اور لگن کا جمہوری انداز ہے۔ میں نے پاکستان کی قومی کتابیات
کے گزشتہ چالیس سالوں کے شمارے دیکھے اس مقصد سے کہ ادب پر کتابوں کی اشاعت
کی رفتار کا اندازہ کیا جاسکے۔ اعدا د و شمار کے مطابق اسلام کے بعد ادب
ایسا موضوع ہے جس پر پاکستان میں سب سے زیادہ کتب شائع ہوئیں۔ ابھی تو
ہمارے ملک میں ملک می قومی لائبریری کو کاپی رائٹ ایکٹ کے تحت کتابیں
بھیجنے اور بین الا قوامی عالمی کتاب نمبر حاصل کرنے کا رواج عام نہیں اس
کے باوجود ادب کی مختلف اصناف پر کتب کی اشاعت قابل ذکر ہے۔
میں اس بات سے متفق نہیں کہ ادب زوال پزیر ہے۔ ادب تو ہمیشہ رہنے والی شہ
ہے۔ گزشتہ چونسٹھ سالوں میں کبھی بھی زوال پزیر نہیں رہا۔ البتہ حالات اور
واقعات اس پر اثر انداز ہوتے رہے اسی مناسبت سے اس کی رفتار بھی کبھی سست
اور کبھی تیز رہی۔بعض احباب کا کہنا ہے کہ ادب جتنا یورپ میں ترقی کی راہ
پر منزل پر گامزن ہے ہمارے ملک میں کچھ بھی نہیں۔ یورپ کا مقابلہ ہم اپنے
ملک سے کیسے کرسکتے ہیں جہاں لٹریسی ریٹ چند فی صد ہے۔ آدھی سے زیادہ آبادی
گاؤں دیہاتوں میں رہتی ہے۔ خواتین کل آبادی کا پچاس فیصد سے زیادہ ہیں جن
کی اکثریت امور خانہ داری تک محدود ہے۔ ہمار ا اور یورپ کا کوئی مقابلہ
نہیں۔ ہمارے جو وسائل ہیں، ملک میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد اور صلاحیت کے
مطابق جو ادب تخلیق پارہا ہے وہ قابل تعریف تو نہیں لیکن امید امید افزا
ضرور ہے۔ایک اور بات جو ہمارے معاشرے میں پیدا ہو چکی ہے وہ ہماری ترجیحات
اور ہمارا نقطہ نظر ہے۔ جس میں تبدیلی آچکی ہے۔ ہم ہزاروں کی شاپنگ کرتے
وقت مہنگائی کو بھول جاتے ہیں، ہوٹل میں مرغن کھانے کھاتے وقت ہزاروں کا بل
خوشی خوشی اداکردیتے ہیں لیکن جب کتاب خریدنے کی بات آتی ہے تو مہنگائی
بھوت کی مانند ہماری نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔ ہمیں اس جانب سنجیدگی سے
سوچنا ہوگا۔ اپنی ترجیحات پراور نقطہ نظر پر ایک بار پھر نظر ثانی کرنا
ہوگی۔ کتاب سے، علم سے اور ادب سے اپنا رشتہ جوڑنا ہوگا۔ ضرورت اس امر کی
ہے کہ ریاستی سطح پر ادب اور ادیب کی صحیح معنوں میں حوصلہ افزائی کی جائے۔
ادب کے فروغ اور ادبی کتب کی اشاعت کے زیادہ سے زیادہ ادارے قائم ہوں۔ اہل
قلم کو ایسا ماحول فراہم کیا جائے کہ وہ معاشی و سماجی نہ ہمواری سے آزاد
ہوکر ادب کی تخلیق میں مصروف بہ عمل رہیں۔
لکھنے والے کی تخلیق کو منظر عام پر لانے کاذریعہ ادبی رسائل اور اب
اخبارات ہیں۔ ہمارے ہاں ادبی رسائل کا فقدان ہے۔ ادبی جریدہ شائع کرنا جوئے
شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس وقت جو ادبی رسائل شائع ہورہے ہیں وہ ادیبوں کی
ذاتی تگ و دو، ادب سے دلی وابستگی، سچی لگن اور عظیم مقصد ہے جو انہیں ادب
کے ان چراغوں کو روشن رکھنے پر مجبور کیے ہوئے ہے ۔ ہر لمحہ انہیں یہی فکر
دامن گیر رہتی ہے کہ ادب کی یہ شمع کہیں بجھ نہ جائے۔ بعض اداروں اور
انجمنیں بھی ادبی رسائل شائع کرہی ہیں۔ اگر ادب زوال پزیر ہوتا تو ادبی
رسائل کی مانگ اور اہمیت برقرار نہیں رہ سکتی تھی۔ جوادبی رسائل ادب کی
ترویج کا پختہ مقصد لے کر شروع ہوئے انہیں زوال نہیں آیا،مسائل ضرور حائل
ہوئے، مالی پریشانیوں نے ضرور گھیرا لیکن اس وجہ سے کوئی ادبی رسالہ بند
نہیں ہوا کہ اس کے پاس چھاپنے کو مواد نہیں ہوا، ادب تخلیق پاتا ہے ، طبع
ہوتا ہے تو پڑھا بھی جاتا ہے۔صہبا لکھنوی مرحوم انتہائی دبلے پتلے انسان
تھے لیکن’ افکار‘ کے معاملے میں ان کا حوصلہ چٹان کی مانند تھا۔ جب تک جئے
افکار کو گر نے نہیں دیا،ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو ضعیف العمری اور خراب صحت
کے باوجود یہ فکر دامن رہتی ہے کہ ’نگار‘ وقت پر شائع ہوجائے، شاہد علی خان
صاحب ’الحمرا‘ کی اشاعت میں تساھلی نہیں دکھا تے، ’سیپ‘ ، ’فنون‘،’زرنگار‘،’نقوش‘
، اور دیگر ادبی رسائل اپنی اشاعت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ایسی بے شمار
مثالیں دی جاسکتی ہیں۔
ادبی جریدہ جتنا پرانہ ہوتاہے اتنا ہی قیمتی بھی ۔ فٹ پات پرپرانی کتابوں
کے انبار لگے ہوتے ہیں ان کے مقابلے میں ادبی رسائل کم کم نظر آتے ہیں ،
شاید آٹے میں نمک کے برابر، کیوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادب سے ،ادبی پرچوں
سے آج بھی محبت ، عقیدت اور انسیت موجود ہے۔اب اخبارات میں بھی ادب کو خاص
مقام حاصل ہوگیا ہے۔ جنگ اخبار کی مثال موجود ہے۔ ہر ہفتہ سنڈے میگزین، ہر
بدھ میڈ ویک ، ان میں چھپنے والی نگارشات ہمارے سامنے ہیں ۔ اس کے علاوہ
ایک لمبی فہرست ایسے لکھنے والوں کی بھی چھپتی ہے کہ جن کی نگارشات کو قابل
اشاعت نہیں سمجھا جاتا۔ معیاری اور غیر معیاری ہونے کا معاملہ الگ ہے۔ یورپ
میں بھی ہر تحریر معیاری نہیں ہوتی۔ کسی نے درست کہا کہ بڑے ادبی جرائد کے
قارئین پہلے سیکڑوں میں تھے، اب یہ تعداد ہزاروں میں اور لاکھوں تک جا
پہنچی ہے، ادب پڑھنے والوں کا دائرہ سمٹا نہیں ، پھیلا ہے۔ اس لیے کہ ادب
کو دوام حاصل ہے ، یہ زوال پزیر نہیں ہوسکتا۔(روزنامہ جنگ : ۳۰ جنوری ۲۰۱۳ء(مڈویک
میگزین(قلم و قرطاس: ۳۰ جنوری تا ۵ فروری ۲۰۱۳ء)) |