سیدنا ابو بکر صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے حیات مبارکہ کے چند پہلو

خلیفۂ بلا فصل امیرالمؤمنین سیدنا ابو بکر صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے حیات مبارکہ کے چند پہلو

حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نبی علیہ السلام کے پہلے صحابی ، پہلے امتی، پہلے خلیفہ، نبی علیہ السلام کے انتہائی قریبی ساتھی اور آپ ﷺ کے سسر بھی تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ کا یو م وصال ۲۲ جمادی الثانی کو ہوا۔ اس محدود مقام پر سیرت صدیقی کا مکمل طور پر احاطہ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لہٰذا یہاں سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی سیرت مبارکہ کے چند پہلو پیش کیے جاتے ہیں۔

اعلان نبوت کو تیرہ سال گزر چکے تھے کہ بارگاہ ایزدی سے خاتم المعصومین حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کو اذن ہجرت ہوتا ہے تو آپﷺ اپنے دیرینہ دوست اور اپنے پہلے امتی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے گھر کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ سیدنا ابوبکررضی اﷲ عنہ نبی علیہ السلام کی معیت میں مدینہ منورہ کی طرف رخت سفر باندھتے ہیں۔ ادھر ابوجہل اور اس کے آلہ کار سر جوڑکر بیٹھتے ہیں اور نبی علیہ السلام اور سیدنا ابوبکررضی اﷲ عنہ کی تلاش میں مختلف لوگوں کو بھیجتے ہیں۔ ابو جہل خود بھی چند ساتھیوں کے ساتھ کھوجی لے کر سیدالانبیاء علیہ السلام اور سیدالصحابہ رضی اﷲ عنہ کی تلاش میں نکلتا ہے۔کھوجی قدموں کی نشانات دیکھتے دیکھتے پتھریلی زمین پر پہنچ کر رک جاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہا ں تک تو وہ دونوں آئے ہیں مگر اس کے بعد آگے ایک ہی شخص گیا ہے۔ ابو جہل یکدم چیخ اٹھا کہ کیا تمہیں رستہ نہیں نظر آرہا؟ دیکھتے نہیں کہ راستہ پتھریلا ہے، ضرور ابوبکر(رضی اﷲ عنہ) نے اپنے ساتھی محمد(ﷺ) کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا ہوگا۔

نبی علیہ السلام اور سیدنا ابوبکررضی اﷲ عنہ نو عمری سے ہی ایک دوسرے کے رفیق تھے۔ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو اپنے پیارے دوست پر اتنا اعتماد تھا کہ جب حضور نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو سب سے پہلے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ بغیر کسی دلیل کا مطالبہ کیے، نبی علیہ السلام پر ایمان لاتے ہوئے حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔اور سب سے پہلے صحابی و امتی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ کی محبت و مودت، اقتداء وپیروی میں اس قدر رنگ لیا تھا کہ لوگ بعض اوقات حضرت سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ پر نبی علیہ السلا م ہونے کا گمان کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ ہجرت مدینہ کے موقع پر جب نبی علیہ السلام اور سیدنا ابوبکررضی اﷲ عنہ مدینہ پہنچے تو ایک جگہ تشریف فرما ہوئے۔ اہل مدینہ کو جب آمد نبوت کی خبر ملی تو وہ زیارت کے لیے آنا شروع ہوئے تو چونکہ حضور نبی کریم ﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ایک ہی جگہ رونق افروز تھے اور اکثر اہل مدینہ نے نبی علیہ السلام کو اس سے پہلے نہیں دیکھا ہوا تھا، تو کئی لوگ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ کو حضوراکرم ﷺ سمجھ کر پہلے ملتے اور بعد میں نبی علیہ السلام کو ، مگر جب سورج ذرا بلند ہوا اور دھوپ کی حدت میں اضافہ ہوا اور نبی کریم ﷺ کو دھوپ لگنے لگی تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنی چادر تان کر نبی علیہ السلام پر سایہ کرنے لگے۔ اس وقت اہل مدینہ کو معلوم ہوا کہ نبی علیہ السلام تو وہ ہیں جن پر چادر کا سایہ کیا جا رہا ہے۔

ہجرت مدینہ کے سفر میں غار ثور میں نبی علیہ السلا م اور سیدنا ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ نے تین دن تک قیام فرمایا۔ ایک موقع پر ابوجہل اور اس کے ساتھی ہر دو حضرات کو تلاش کرتے کرتے غار کے منہ پر آ کھڑے ہوئے کہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ کو ان کے قدم نظر آنے لگے۔ تو سیدناابو بکر رضی اﷲ عنہ غمگین و پر ملال ہوئے کہ کہیں یہ کافر نبی علیہ السلام کی ذات گرامی قدر کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔ نبی اکرم ﷺ اپنے دوست کی اس پریشانی کو بھانپ گئے اور فرمایا کہ غم نہ کرو اﷲ ہمارے ساتھ ہے۔ اﷲ رب العزت کی قدرت تھی کہ جناب نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے غار میں داخل ہونے کے بعد حکم ربانی کے تحت ایک کبوتری نے غار میں داخل ہونے والے جگہ پر گھونسلہ بنا کر اس میں انڈے دیے اور ایک مکڑی نے غار کے منہ پر جالا بن ڈالا۔ یہ دیکھ کر ابو جہل اور اس کے گماشتے نبی ﷺ اور سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی تلاش سے مایوس ہو کر لوٹ گئے۔ ہجرت مدینہ کے اس جان لیوا اور دشوار گزار و پرخطر سفر کی طرف قرآن پاک میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔اس موقع پر اﷲ تعالیٰ نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو حضور نبی کریم ﷺ کا صحابی فرمایا ہے۔ اسی لیے عالم اسلام کا یہ متفقہ عقیدہ و مسئلہ ہے کہ چونکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی صحابیت پر قرآن کریم کی نص قطعی موجود ہے ، اس لیے آں موصوف کی صحابیت کا انکار کفر ہے۔

حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے نبی علیہ السلام کی معیت میں ساری زندگی گزاری ۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے اپنی پوری زندگی کوئی ایسا فعل نہیں سرانجام دیا جو نبی کریم ﷺ نے نہیں انجام دیا۔ نبی علیہ السلام کے اعلان نبوت اور دعوت اسلام پر سب سے پہلے لبیک کہنے والے سیدنا ابوبکررضی اﷲ عنہ ہی تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے اسلام کے ابتدائی عرصہ میں انتہائی سخت حالات کو بڑی جاں فشانی سے برداشت کیا اور اپنا سب کچھ آقاﷺ کے قدموں میں ڈھیر کردیا۔ نبی علیہ السلام کے سفر و حضر، قیام و طعام، جہاد و حج حتیٰ کہ قبر مبارک کے ساتھی بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ ہیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ ہر غزوہ میں نبی علیہ السلام کے ہم قدم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ نبی علیہ السلام سے براہ راست روایت فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ میرے نزدیک میرے صحابہ میں اور میرا تعاون کرنے میں ابو قحافہ کے بیٹے (حضرت ابو بکر صدیق) سب سے افضل ہیں۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ وہ واحد صحابی رسول ہیں کہ جن کی چار پشتیں صحابی تھیں۔ حضور نبی کریم ﷺ کو اپنے اس جاں نثار صحابی پر اتنا اعتماد تھا کہ آپﷺ نے متعدد مرتبہ اشارے کنایے میں فرمایا کہ میرے بعد ابوبکرؓ خلیفہ ہوں گے۔ سیدنا معاویہ رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنے مرض وفات میں فرمایا کہ مسجد کی طرف راستوں پر جو دروازے ہیں، ان کی طرف دیکھو ! حضرت ابوبکرؓ کے دروازہ کے علاوہ باقی سب دروازے بند کر دو، مجھے ان کے دروازہ پر نور نظر آرہا ہے۔

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور نبی کریم ﷺ کے حالات زندگی پر اگر نظر ڈالی جائے تو واضح ہو گا کہ نبی علیہ السلام اورجناب ابوبکررضی اﷲ عنہ میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ نبی ﷺ اور سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ دونوں کی عمر مبارک تریسٹھ سال تھی۔ اسی طرح ہر دو حضرات کی بیماری کا عرصہ بھی ایک ہی تھا۔ہر دو حضرات کے وصال کے بعد ان کے بعد سب سے بہتر شخصیت نے ان کی جگہ سنبھالی یعنی نبی ﷺ کے بعد سیدنا ابوبکررضی اﷲ عنہ اورسیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے بعد سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ مسند خلافت پر رونق افروز ہوئے۔ نبیﷺ و سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ ہر دو حضرات کی تدفین بھی اس جگہ ہوئی جسے جنت کا ٹکڑا قرار دیا گیا۔

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نیک کام کرنے میں ہمیشہ پہل کیا کرتے تھے ۔ ایک موقع پر نبی علیہ السلام نے اﷲ کی راہ میں مال قربان کرنے کا حکم فرمایا تو سیدنا عمررضی اﷲ عنہ نے سوچا کہ آج میں حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہ سے زیادہ مال دے کر ان سے نیکی میں سبقت لے جاؤں گا، لہٰذا سیدنا عمررضی اﷲ عنہ اپنے گھر کا آدھا مال بارگاہ نبوت میں لا کر پیش کرتے ہیں تو نبی علیہ السلام استفسار فرماتے ہیں کہ کتنا لائے؟ تو جناب عمررضی اﷲ عنہ جواباً گویا ہوئے کہ آدھا مال لے آیا ہوں اور آدھا گھر چھوڑ آیا ہوں۔اسی اثناء میں سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ اپنے گھر کا سارا مال لا کر آقاﷺ کے قدموں پر نچھاور کرتے ہیں تو نبی علیہ السلام انؓ سے دریافت فرماتے ہیں کہ گھر کے لیے کیا چھوڑا تو سیدنا ابو بکر رضی اﷲ عنہ جواب ارشاد فرماتے ہیں کہ گھر کے لیے تو اﷲ اور اس کا رسولﷺ چھوڑ آیا ہوں۔ اس موقع پر سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ میں کبھی نیکی میں ابوبکر سے بڑھ نہیں سکتا۔

وصال نبوت کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ خلیفہ بنائے گئے تو انہیں خلیفہ رسول کہا جاتا تھا۔ یہ لقب امت میں صرف سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو حاصل ہے۔ جبکہ دیگر خلفاء کے لیے ’امیرالمؤمنین‘ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ اپنی خلافت کے دور میں منکرین زکوٰۃ، مرتدین، منکرین ختم نبوت کے خلاف انتہائی جواں مردی اور جرأت سے علم جہاد بلند کیا اورہر محاذ پر فتح حاصل کی۔ کئی قرآنی وعدے بھی خلافت صدیقی میں پورے ہوئے۔ سیدنا ابوبکر رضی اﷲ عنہ جب سریر آرائے خلافت ہوئے تو چونکہ آپ رضی اﷲ عنہ کپڑے کے تاجر تھے، تو اگلے دن کپڑے کے تھان اٹھا کر بازار کو نکلے۔ یہ دیکھ کر سیدنا عمر رضی اﷲ نے فرمایا کہ اب تو آپ کو صرف کار خلافت پر ہی اپنی توجہ رکھنا ہوگی اور حوائج ضروریہ کے لیے بیت المال سے آپ کو رقم دی جا یا کرے گی۔ اس پر یہ بات زیر موضوع بنی کہ بیت المال سے کتنی رقم دی جایا کرے گی تو سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ جتنی رقم میں مدینہ کے ایک مزدور کا گزارہ ہوتا ہے، مجھے بھی اتنی ہی رقم دی جائے۔ اگر اس میں میرا گزارہ نہ ہوا تو میں مزدور کی مزدوری بڑھا دوں گا۔

سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ خلیفہ ہوئے تو کسی نے کہا کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ فلاں نابینا بوڑھے کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔ تو سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ بھی اس نابینا بوڑھے کو کھانا کھلانے نکل گئے وہاں پہنچ کر اس کے منہ میں کھانے کا لقمہ رکھا ہی تھا کہ بوڑھا بولا کیا ابوبکرؓ فوت ہوگئے؟؟ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے حیرت سے پوچھا کہ میں نے تو آپ سے کوئی بات نہیں کی تو آپ کو کیسے علم ہوا کہ میں ابوبکرؓ نہیں؟؟ تو اس بوڑھے شخص نے جواب دیا کہ میں بوڑھا ہوں ، میرے منہ میں دانت نہیں اس لیے ابوبکرؓ تو میرے منہ میں لقمہ ڈالنے سے پہلے اپنے منہ میں چبا کر نرم کیا کرتے تھے، مگر تم نے تو چبائے بغیر ہی لقمہ میرے منہ میں ڈال دیا۔الغرض کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے معیت نبوت اور اپنی خلافت میں اسلام کی وہ خدمت کی کہ امت مسلمہ تا قیام قیامت ان کے اس احسان سے سبکدوش نہیں ہو سکتی ۔ مرض وفات میں فرمایا کہ جن کپڑوں میں میرا انتقال ہو رہا ہے مجھے انہی میں کفن دینا۔ تجہیز و تکفین کے بعد ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے حجرہ (جو کہ روضۂ نبوی کہلاتا ہے)میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تدفین کی گئی۔ دعا ہے کہ اﷲ پاک ہمیں صحابہ کرامؓ کی طرح نبی علیہ السلام کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:
﴾ میں پاکی بیان کرتا ہوں اس ذات کی جس نے اپنی مخلوق کے لیے کوئی راستہ اپنی معرفت کا نہیں رکھا سوا اس کے کہ اس کی معرفت سے عاجز ہو جائیں۔
﴾ جو شخص اﷲ کی محبت کا مزہ چکھ لیتا ہے پھر اس کو طلب دنیا کی فرصت نہیں ملتی، انسانوں سے اس کو وحشت ہوتی ہے۔
﴾ مرض وفات میں لوگ عیادت کو آئے اور کہنے لگے اے خلیفۂ رسول اﷲﷺ! کسی طبیب کو آپ کے لیے بلایا جائے تو فرمایا ’’طبیب تو مجھے دیکھ چکا ہے‘‘ لوگوں نے پوچھا کہ پھر طبیب نے کیا کہا؟ فرمایا ’’انی فعال لما یرید‘‘
﴾ جب میں کسی شرابی کو گرفتار کرتا ہوں تو دل میں یہ آرزو پیدا ہوتی کہ اﷲ اس کی ستر پوشی کرے اور کسی چور کو گرفتار کرتا ہوں اس وقت بھی یہی خواہش دل میں ہوتی ہے۔
﴾ اﷲ کی قسم! مجھے کبھی خلافت کی خواہش نہ تھی نہ میں نے کبھی اﷲ سے اس کو طلب کیا، نہ پوشیدہ نہ آشکارا۔
﴾ ایک روز ایک پرندے کو آپ نے درخت پر دیکھا، فرمایا ’’اے پرندے تجھے خوشی ہو اﷲ کی قسم! میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی تیری طرح ہوتا تو جس درخت پر چاہتا ہے بیٹھ جاتا ہے اور جو پھل چاہتا ہے کھا لیتا ہے اور تیرے اوپر نہ کوئی حساب ہے نہ عذاب، اے کاش! میں رستے کے کنارے کا درخت ہوتا کسی اونٹ کا میرے اوپر گزر ہوتا اور مجھے اپنے منہ میں رکھ کر چبا لیتا پھر میں مینگنی بن کر نکل جاتا، انسان نہ ہوتا۔
﴾ جب کوئی شکار مارا جاتا ہے یا کوئی درخت کاٹا جاتا ہے تو اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ اس نے اﷲ کی تسبیح ضائع کر دی۔

بسا اوقات اونٹ پر سوار ہوتے اور مہار گر جاتی تو اونٹ کو بٹھا کر اترتے اور مہار کو خود اٹھاتے۔ لوگ کہتے کہ حضرت! آپ نے ہمیں حکم کیوں نہ دیا ہم اٹھا دیتے تو فرماتے کہ میرے حبیبﷺ نے مجھے حکم دیا ہے کہ کسی نے انسان سے کچھ سوال نہ کروں۔

﴾ اے لوگو! میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اﷲ سے ڈرو، اور اﷲ کی تعریف ایسی کرو جس کا وہ سزا وار ہے اور امید و خوف دونوں کو ملحوظ رکھو اور دعا مانگنے کے ساتھ الحاف (یعنی چمٹ کر ) بھی اختیار کرو۔ دیکھو خدا نے زکریاؑ اور ان کے گھر والوں کی تعریف میں فرمایا انہم کانوا یسارعون فی الخیرات و یدعوننا رغبا و رھبا و کانوالنا خاشعین (الانبیاء۹۰) اے اﷲ کے بندو! خوب سمجھ لو اﷲ نے اپنے حق میں تمہاری جانوں کو گرو کر دیا ہے اور اس پر تم سے عہدلیے ہیں۔ اور تم سے قلیل فانی یعنی دنیا کو بعوض کثیر باقی یعنی جنت و نعیم آخرت کے مول لیا ہے۔ یہ اﷲ کی کتاب تم میں موجود ہے جس کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے جس کی روشنی کبھی گل نہ ہوگی۔ لہٰذا تم کلام الہٰی کی تصدیق کرو، اور اﷲ کی کتاب سے نصیحت حاصل کرتے رہو اور تاریکی والے دن کے لیے اس سے بینائی حاصل کرو، تم کو اﷲ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے اور تم پر کراماً کاتبین یعنی اعمال کے لکھنے والے فرشتوں کو مسلط کیا ہے جو کچھ تم کرتے ہو وہ فرشتے جانتے ہیں اے اﷲ کے بندو! تم ہر صبح و شام اس میعاد سے قریب ہوتے جاتے ہو جس کا علم تم سے غائب ہے پس اگر تم سے ہو سکے کہ تمہاری عمریں اس حال میں ختم ہوں کہ تم اﷲ کے کام میں مشغول ہو تو ایسا ہی کرو مگر اﷲ کی مدد کے بغیر تم ایسانہیں کر سکتے۔ اے لوگو! اپنی عمر کی مہلتوں میں نیکیوں کی طرف سبقت کرو قبل اس کے کہ تمہاری عمریں ختم ہو جائیں اور تم کو اپنی بداعمالیوں سے سابقہ پڑے۔ کچھ لوگوں نے اپنی زندگیاں غیروں کے لیے صرف کردیں اور اپنی جانوں کو فراموش کر دیا میں تم کو منع کرتا ہوں کہ تم ایسے نہ بنو۔
﴾ انسان دو مرتبہ مقام نجاست (یعنی صلب پدر و شکم مادر)سے نکلا ہے۔
﴾ اے لوگو! اﷲ کے خوف سے رویا کرو اگر رونا نہ آئے تو رونے کی کوشش کیا کرو۔
﴾ خبردار! کوئی شخص کسی مسلمان کو حقیر نہ سمجھے کیوں کہ چھوٹے درجہ کا مسلمان بھی اﷲ کے نزدیک بڑا ہے۔
﴾ ہم نے بزرگی کو تقویٰ، تونگری کو یقین اور عزت کو تواضع میں پایا۔
﴾ اے اﷲ کے بندو! آپس میں قطع تعلق نہ کرو، بغض نہ رکھو، ایک دوسرے پر حسد نہ کرو اور بھائی بھائی ہو کے رہو جیسا کہ اﷲ نے تمہیں حکم دیا ہے۔
﴾ رسول اﷲﷺ نے حکم دیا ہے کہ اپنے لونڈی غلاموں کو اولاد کی طرح رکھو، ان کو وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو۔

Muhammad Irfan Ul Haq Advocate
About the Author: Muhammad Irfan Ul Haq Advocate Read More Articles by Muhammad Irfan Ul Haq Advocate: 30 Articles with 73837 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.