حجاب پہنیں یا نہ پہنیں؟

بعض مسلم عورتیں جس پردہ یا نقاب کا اہتمام کرتی ہیں انہیں بڑے پیمانے پر غلط سمجھا گیا ہے اور کچھ لوگ تو اسے ظلم و جبر اور پسماندگی کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کے رد عمل میں ایک بڑی تعداد پر مشتمل مغرب میں رہنے والی خواتین کی ایک جماعت نے دنیا کو یہ بتانے کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ نقاب کیوں پہنتی ہیں۔

کیمپین اسلام (Campaign Islam) ایک تنظیم ہے جسے مسلم بہنوں نے قائم کیا ہے۔ وہ سگی بہنیں نہیں ہیں لیکن مسلم خواتین ایمانی رشتے، مشترکہ عقیدے، اور ایک دوسرے کے لئے نیک خواہشات کی بناء پر وہ ایک دوسرے کو بہن کہتی ہیں جو کہ بسا اوقات خونی رشتے سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔

ان فعال اور متحرک نوجوان خواتین نے جبر و تشدد کے خلاف آواز اٹھانے اور اسلام کے متعلق دقیانوسی تصورات کو ختم کرنے کی خاطر بیداری پیدا کرنے کے لیے مختلف مہم کا آغاز کیا ہے۔ وہ ان عورتوں اور بچوں کی آواز بن رہی ہیں جنہیں ان سنا کر دیا گیا ہے؛ خواہ وہ شام کے بچے ہوں جو خوراک، سلامتی، حفاظت، آزادی، اور تعلیم کے اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں یا وہ خواتین ہوں جو نقاب (چہرہ کا پردہ) کے اپنے حق کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

حال ہی میں ان کا ایک ویڈیو فوری طور پر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر پھیل گیا ہے۔ خواتین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کے کپڑے کا ایک اتنا چھوٹا سا ٹکڑا اتنی نفرت، اتنے تنازعات اور اس قدر اختلافات کا سبب کیونکر بن سکتا ہے اور وہ ناظرین کو دعوت دیتی ہیں کہ وہ خود پردہ کے بارے میں کچھ گہرے سوالات پوچھیں۔

ایک بڑی تعداد میں مغربی ممالک کے سرکاری حکام نقاب کی مذمت کر رہے ہیں اور اس پر پابندی عائد کرنے کے لئے حتی المقدور کوشش کر ر رہے ہیں۔

حجاب پہنی ہوئی ایک عورت نے تیز آسٹریلیائی لب و لہجہ میں کہا ‘‘کیا یہ اس لیے ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ مسلم عورتیں مظلوم ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ پردہ کی وجہ سے میرے کوئی آواز نہیں ہے لیکن میں بالکل اچھے طریقہ سے بات کر سکتی ہوں’’۔

دنیا بھر میں مسلم خواتین کی اکثریت اپنی مرضی سے پردے کا اہتمام کرتی ہے اس کے پیچے کوئی جبر و تشدد کار فرما نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ پردے کو اپنی آزادی کی خلاف ورزی سمجھتی ہیں۔

ایک عورت نے یہ چیلنج پیش کیا کہ " کیا نقاب کو مسترد کرنا واقعی آزادی ہے؟ کیا ہائی ہیلس، شارٹ سکرٹ اور لپسٹک واقعی آزادی کی علامتیں ہیں؟ کیا لوگ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی کو نقاب پہننے کے لیے مجبور کرتے ہیں؟ میں نقاب پہنتی ہوں جبکہ ابھی میری شادی بھی نہیں ہوئی ہے۔ میں اللہ کو خوش کرنے کے لیے حجاب کا اہتمام کرتی ہوں اور میرا یہ ماننا ہے کہ حجاب کا اہتمام کرنے سے تقویٰ میں بڑھنے میں مدد ملتی ہے’’۔

ایک مسلمان عورت خدا کی بندی ہے اور اس پر فیشن کے رجحانات یا معاشرے کے لئے پر کشش چیزوں کا تسلط نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی عورت کے بارے میں اس کی جسمانی وضع قطع کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ ا س کا فیصلہ اس کی عقل اور کردار کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے۔

نقاب کو ناپسند کرنے والوں میں سے کچھ لوگوں کا یہ دعوی ہے کہ حجاب مؤثر مواصلات میں ایک رکاوٹ ہے۔

یہ سچ ہے کہ چہرے کے تاثرات کا جاننا مفید ہو سکتا ہے جبکہ غیر زبانی مواصلات کی دیگر اقسام مثلاً انداز بیان اور جسم اور ہاتھوں کے حرکات و سکنات بھی یکساں طور پر اہم ہیں۔ پر اعتماد ہو کر روانی کے ساتھ اور واضح انداز میں بات کرنا اور مستند معلومات فراہم کرنا مواصلات کی بہترین مہارت ہے جس میں نقاب کے ساتھ یا اس کے بغیر بھی مہارت حاصل کی جا سکتی ہے۔

آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق مواصلات کا مطلب لکھ کر یا بول کر یا کسی اور ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے معلومات فراہم کرناہے۔ یا یہ ٹیلی فون لائنوں یا کمپیوٹر کے ذریعے معلومات بھیجنے یا وصول کرنے کا ذریعہ ہے۔ نقاب پہننے میں اچھی مواصلات سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا۔

ہر مذہب میں مردوں اور عورتوں کے درمیان ایک خط فاصل کا ہونا ضروری ہے۔ کسی بھی شکل میں مردوں اور عورتوں کے آزادانہ جنسی اختلاط کو روکنے کے لئے اسلام میں بہت سارے احکامات بیان کئے گئے ہیں۔ مرد کو ان کی نظریں جھکانے کا حکم دیا گیا ہے اور عورتوں کو ان کی نظریں جھکانے اور اس کا پردہ کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔

تاہم ہیڈ سکارف یا چہرے پر نقاب پہننے سے عورتوں کو عصمت دری سے تحفظ کی ضمانت نہیں مل جاتی لیکن بعض مسلم خواتین کو یہ لگتا ہے کہ پردے کا اہتمام کرنے سے کسی نہ کسی حد تک تحفظ ضرور ملتا ہے۔ ویڈیو سازوں نے جو اعداد و شمار حاصل کیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال اس بھیانک جرم کا شکار 9000 مرد متاثرین کے مقابلے میں 69000 خواتین عصمت دری کا شکار ہوتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مردوں کے مقابلے خواتین کہیں زیادہ غیر محفوظ ہیں۔

جنوری2014 میں ایک بین الاقوامی بزنس ٹائمز نے ایک رپورٹ شائع کیا جس میں 5 ایسے ممالک کی ایک فہرست مرتب کی گئی تھی جن میں عصمت دری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بتایا گیا تھا کہ عصمت دری کا جرم لیسوتھو جنوبی افریقہ ، سویڈن ، سینٹ کیرن اور گریناڈائنز ( کیریبین ممالک) ، نیوزی لینڈ ، اور بیلجیم میں سب سے زیادہ عام ہے۔

پردہ کرنا مسلم خواتین کا ایک ایسا ہتھیار بھی ہے جسے وہ تیزی سے بڑھتے ہوئے فحش نگاری کی صنعت اور معاشروں میں خواتین کی تذلیل و توہین کا مقابلہ کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ ان کے لئے پردے کا اہتمام کرنا خواتین پر ظلم و ستم اور ان کی محکومی کی علامت نہیں بلکہ خواتین کی حیثیت کو بلند کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ وہ اپنی خوبصورتی اور نسوانیت کی وجہ سے استحصال کا کوئی بھی موقع پیدا کرنے کے بجائے اپنی خوبصورتی کو چھپانا پسند کرتی ہیں۔

تمام مسلم خواتین پردے کا اہتمام نہیں کرتیں اور نہ ہی تمام مسلم علماء نے اسے مطلقاً واجب سمجھا ہے۔ علماء کی اتفاق رائے یہ ہے کہ حجاب یعنی بال اور جسم کا پردہ اسلام میں لازمی ہے لیکن چہرہ اور ہاتھوں کا پردہ ضروری نہیں ہے۔

چہرے پر نقاب لگانے والی خواتین خود کے لیے بولنے کے قابل ہونا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا:

"یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔"

"یہ میری حفاظت کرتا ہے۔"

"یہ میرے لئے حقیقی آزادی ہے۔"

" خدا کے علاوہ کسی اور کو مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کس طرح کا لباس زیب تن کرنا چاہیئے۔"

"یہ پسماندگی کی نہیں بلکہ پیش قدمی کی علامت ہے۔"

سٹی نیوز ٹورنٹو کے رپورٹر ایوری ہائنس نے ملیشیا یونیورسٹی کی ایک طالبہ نور سے انٹرویو کیا کہ وہ اس دنیا اور اہل دنیا سے کن وجوہات کی بنا پر پردہ کرتی ہیں۔

نور نے کہا: ‘‘ میں اپنے دل سے کچھ زیادہ کرنا چاہتی تھی اگر چہ وہ دین میں ضروری نہ ہو۔ نقاب پہن کر میں خدا کا قرب محسوس کرتی ہوں۔ مجھے لگتا ہے ہر روز میں جدوجہد اور سعی پیہم کر رہی ہوں؛ میں صرف خدا کے لئے نیت میں خلوص اور شفافیت پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہوں’’۔

جہاں تک میرا تعلق ہے میں حجاب کا اہتمام کرتی ہوں۔ اور اس وقت تک نقاب نہیں پہنتی جب تک میں کسی شادی میں جانے کا ارادہ نہ کروں اور میرا چہرہ زیب و زینت سے بھرا ہوا ہو۔ میں بلاشبہ ان خواتین کا احترام کرتی ہوں جو نقاب پہنتی ہیں اس ان کا بھی احترام کرتی ہوں جو حجاب کا اہتمام نہیں کرتیں ۔
gulam nabi shazim
About the Author: gulam nabi shazim Read More Articles by gulam nabi shazim: 2 Articles with 1733 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.