بسم اﷲ الرحمن الرحیم
علم طب (میڈیکل سائنس)کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو مسلمانوں نے اس میں بے
پناہ کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں۔ عرب اور اسلامی دنیا کی تاریخ اس بات
کی گواہ ہے کہ وہ لوگ جو سفاکیت اور بربریت کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے
اسلام کی روشن تعلیمات نے ان کی صلاحیتوں میں نکھارپیدا کیا اور پھر انہی
مسلمانوں نے ریاضیات، جغرافیائی علوم اور طبعیات کے میدان میں جو خدمات
سرانجام دیں اسے دنیا کسی صورت فراموش نہیں کر سکتی۔ علم طِب (میڈیکل
سائنس) کے چھوٹے سے پودے کو یونان سے لے کر ا نہوں نے شجرسایہ داربنا دیا
اور ایک طویل عرصہ تک د نیا ا س کی چھاؤں میں سکون محسوس کرتی رہی۔ایک
انگریز مصنف جان ولیم ڈریپرمسلمانوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے
کہ ’’مسلمان عربوں نے سائنس کے میدان میں جوابتدائی تحقیقات اور ایجادات
کیں وہ بعدمیں اہل یورپ کی ذہنی اور مادی ترقی کا باعث بن گئیں‘‘۔میں
سمجھتا ہوں کہ صرف ولیم ڈریپرہی نے نہیں بلکہ کئی یورپی محققین و مصنفین نے
د نیائے سائنس میں مسلمانوں کی خدمات اورجہد مسلسل کو سراہا ہے،یوں سمجھئے
کہ آٹھویں صدی سے بارہویں صدی عیسوی تک مسلمان اس میدان میں چھائے رہے اور
باقی د نیا اس دوران جہالت کی تاریکی میں ڈوبی رہی۔علم طب میں سب سے زیادہ
شہرت بو علی سینا کے حصے میں آئی۔ان کی کتاب ’’القانون فی الطب‘‘ اٹھارھویں
صدی تک یورپ کی دانش گاہوں میں پڑھائی جاتی رہی۔ان کی ایک دوسری کتاب
’’الشفا‘‘ نے تو حیاتیات، کیمیا، طبعیات اور فلسفہ کے میدان میں تہلکہ مچا
دیا۔ڈیجیٹل سائنس اور فلکیات پر البیرونی کی تصانیف سے یورپ نے بے پناہ
فائدے اٹھائے۔ابوالقاسم زاھراوی کو کون نہیں جانتا۔جد ید سرجری کی د نیا
میں ہونے والی ترقی کو ا نکا ہی مرہون منت سمجھا جاتا ہے۔سرجری کے موضوع پر
ا ن کی تصنیف ’’التصریف‘‘نے طویل عرصہ تک دھوم مچا ئے رکھی۔کتاب میں مثانے
سے پتھری نکالنے ،بدن کے مختلف حصوں کی چیر پھاڑ اور زخم وغیرہ کو ٹانکا
لگانے کے متعلق معلومات دی گئیں۔عربوں نے فن جراحت کو جو ترقی دی وہ حیرت
انگیز ہے۔جب انگریزی کا نام ونشان نہیں تھا تواس وقت گیارہویں صدی عیسوی
میں عربوں نے آنکھوں میں عمل جراحی میں نام پیدا کیا تھا۔ کلو روفارم کی
موجودہ بے ہوشی کی دوا آٹھ سو برس قبل عربوں میں رائج تھی۔اسی طرح ابوبکر
محمد زکریا الرازی،قرطبہ کے ’’البقاسس‘‘، عمر خیام،ابو نصر محمد فارابی،ابو
جعفر محمد بن موسیٰ الخوارزمی و دیگر مسلمان اطباء اورسائنسدانوں نے میڈیکل
سائنس کے میدان میں جو خدمات سرانجام دیں ان بنیادی تعلیمات سے آج تک یورپی
دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے مگر افسوس کہ بارہویں صدی عیسوی کے بعد جب ہر شعبہ
زندگی میں ہمارا انحطاط شروع ہو ا تو اس میدان سے اس حد تک ہم نظروں سے
اوجھل رہے کہ ان سبھی علوم کے امام ہونے کے باوجود پچھلی صف میں بھی بہت
عرصہ تک اپنی جگہ نہ بنا سکے۔اہل یورپ نے بارہویں صدی کے بعد ہمیں آپس کے
اختلافات میں ا لجھا کر رکھا اور ہم سے ہمارا ورثہ چھن گیا۔ہمارے اسلاف اور
بزرگوں نے میدان طب و سائنس اور علوم جدیدہ میں جو بیش بہا خدمات انجام
دیں‘ ہماری تفرقہ بازیوں،آپسی سرپھٹول اور مسلکی تنازعات میں گھرے رہنے کی
وجہ سے یورپ نے ا ن کو اپنے ساتھ منسوب کیا اورآج علم و سائنس کے میدان میں
ہمیں ایسے آنکھیں دکھا رہا ہے جیسے اس میدان میں ہمارا کوئی وجود ہی نہیں
تھا۔اس میں قصور ہمارا اپنا ہے۔ہمیں اس بات پر ضرور فخر کرنا چاہیے کہ
مسلمان علوم و سائنس کے امام رہے لیکن یہ دولت ہم سے کیسے چھن گئی اس پر
ہمیں افسوس بھی ہونا چاہیے اور ایک بار پھر یہ علم اپنے ہاتھوں میں لینے
کیلئے کوششیں کرنی چاہئیں۔ یہ آج کی تاریخ کا بہت بڑا تقاضا ہے۔ مجھے اس
وقت اس بات کی بہت زیادہ خوشی ہوئی کہ جب میں نے مسلم میڈیکل مشن کے زیر
اہتمام اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کے قائد اعظم ہال میں منعقدہ
میڈیکل کانفرنس میں ملک بھر سے شرکت کرنے والے ڈاکٹرز کو اس مسئلہ پر بہت
زیادہ فکر مند دیکھا۔یہ میڈیکل مشن کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر ناصر ہمدانی اور ان
کے دیگر ساتھیوں کی محنت کا نتیجہ تھاکہ دوروزہ میڈیکل کانفرنس میں ملک بھر
سے ماہر ڈاکٹرز، پروفیسرز اور سرجنز سمیت میڈیکل سے وابستہ افراد کی کثیر
تعدادمیں شرکت نظر آئی۔اس موقع پر امیر جماعۃالدعوۃ حافظ محمد سعید، مسلم
لیگ (ن)کے چیئرمین راجہ ظفر الحق، جنرل (ر) حمیدگل، حافظ عبدالرحمن مکی،
وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر خصوصی پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم ، فلاح انسانیت
فاؤنڈیشن کے چئیرمین حافظ عبدالرؤف، مسلم میڈیکل مشن کے سربراہ ڈاکٹر ظفر
اقبال چوہدری ، جنرل سیکر ٹری ڈاکٹر منصور علی خان، ڈاکٹر خالد قریشی
ویگرنے بھی خطاب کیا۔مقررین کی جانب سے مسلم میڈیکل مشن کی ملک بھر میں
جاری ریلیف سرگرمیوں پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا گیا کہ آزاد کشمیر و
سرحد، آواران یا دیگر علاقوں میں آنے والے ہولناک زلزلے ہوں، مختلف صوبوں
میں آنے والے خوفناک سیلاب ہوں یا حال ہی میں تھرپارکر میں قحط سالی سے
سسکتی ہوئی انسانیت تک امداد پہنچانے کا مسئلہ ہو آپ کی تنظیم کے ڈاکٹرز نے
ہمیشہ ان دور دراز علاقوں میں پہنچ کر ریلیف سرگرمیاں سرانجام دی ہیں جن کی
ساری دنیا معترف نظر آتی ہے۔راجہ ظفر الحق نے اپنے افتتاحی خطاب میں بہت
شاندار باتیں کیں اور کہاکہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی امدادی سرگرمیوں کے
باعث علیحدگی پسندوں کی تحریکیں دم توڑ رہی ہیں اور مادہ پرستی ختم ہو رہی
ہے۔ان کی یہ بات بالکل درست ہے‘ماضی میں دنیا میں جہاں کہیں بھی اس قسم کی
صورتحال درپیش ہوتی تھی وہاں مغربی این جی اوزکام کرتی دکھائی دیتی تھیں
اور خدمت کی آڑ میں یا ساتھ ساتھ بعض ایسے ناپسندیدہ عمل بھی کئے جاتے تھے
جسے کوئی بھی مسلمان کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا۔ مسلمانوں نے یہ میدان
ان کیلئے کھلا ہوا چھوڑا ہوا تھا لیکن اب اﷲ کے فضل وکرم سے فلاح انسانیت
فاؤنڈیشن، مسلم میڈیکل مشن اور دیگر اسلامی این جی اوز نے اس میدان میں بھی
بھرپور کردار ادا کرنا شروع کیا ہے جس کے مسلم معاشرے پر دوررس اثرات مرتب
ہو رہے ہیں۔مسلم میڈیکل مشن کی یہ نویں کانفرنس اور ماضی کی طرح بہت کامیاب
تھی۔ ایسی کانفرنسوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے کیونکہ اس سے
ڈاکٹرز کو باہم مل بیٹھنے، ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے، اپنے سینئرز کے
تجربات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے اور خدمت انسانیت کا وہ جذبہ پیدا
ہوتا ہے جو ہر مسلمان ڈاکٹر کے دل میں ہونا چاہیے۔مسلم میڈیکل مشن کی طرف
سے نوجوان ڈاکٹرز اور میڈیکل کے شعبہ سے وابستہ افراد کو مختلف مواقع پر
بار بار جمع کرنا اور سینئر ڈاکٹرز اور پروفیسرز حضرات کی رہنمائی میں ان
کی علمی استعداد کو بڑھانے کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔مجھے اس بات کی خوشی
ہے کہ مسلم میڈیکل مشن کے نام سے قائم کیا گیا فورم چند برس میں اﷲ کے فضل
و کرم سے تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور دوسری بات یہ کہ مسلم
میڈیکل مشن سے وابستہ لوگ اپنے گمشدہ ورثہ کو پھر سے حاصل کرنے کی باتوں کو
درد دل سے نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ اس میدان میں حقیقی طور پر کچھ کرنا
چاہتے ہیں۔ہمیں غریب اور مستحق مریضوں کی مدد کے ساتھ ساتھ ریسرچ اور تحقیق
کے نئے در کھولنے ہیں۔اگرچہ یہ بات درست ہے کہ ڈاکٹرز میں بھی مادہ پرستی
کی سوچ پائی جاتی ہے تاہم میں نے یہاں آکرڈاکٹرز کے جذبات دیکھ کر واضح طور
پر محسوس کیا کہ وہ ایک نئے انقلاب کی نوید بن کر ابھر رہے ہیں۔ ان حالات
میں کہ جب بیرونی قوتیں کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے ملک پاکستان کو
اس کی نظریاتی بنیادوں سے دور کرنے اور نوجوان نسل کے ذہنوں سے قیام
پاکستان کے مقاصد کو محو کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ
ڈاکٹر ز حضرات خود بھی نظریہ پاکستان سے وابستہ ہوں اور دشمنان اسلام کی
سازشوں کا توڑ کرتے ہوئے اس سلسلہ میں قوم کی بھی صحیح معنوں میں رہنمائی
کی جائے۔ اسی سے پاکستان کا تحفظ اور ہمارا روشن مستقبل وابستہ ہے۔ |