لاہور میں ایک صحافی کی طرف سے وزیر اعلی پنجاب پر جوتا
پھینک دیا گیاجو انتہائی قابل مذمت اور قابل شرم فعل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے
کہ ملکی اداروں کی حالت پہلے سے بھی خراب ہوتی جارہی ہے اور عوام بھی جہالت
کی دلدل میں دھنستی جارہی ہے ایسا کیوں ہوا اس پر آخر لکھوں گاسب سے پہلے
یہ بتا دوں کہ 18کروڑ سے زائد آبادی والا ملک پاکستان جہاں موبائل صارفین
کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے بلاآخر تھری جی اور فور جی موبائل
سروسز کا آغاز ہونے جارہا ہے یقینا یہ موجودہ حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہے
کہ انہوں نے بہت تاخیر سے ہی سہی مگر اس منصوبے کو شروع کرہی دیا 3جی اور
4جی میں پاکستان کا نمبر 102ہے اور کوئی بھی جدید ٹیکنالوجی ہم تک پہنچتے
پہنچتے سو سال بوڑھی ہوجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم ابھی تک ترقی پذیر ممالک
کی صف میں بھی شال نہیں ہوسکے جبکہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے
کے لیے ہم صرف سوچ ہی سکتے ہیں پاکستان میں موبائل سروس کا آغاز اس وقت ہوا
جب دنیا سیکنڈ جنریشن ٹیکنالوجی سے پیچھا چھڑوا کر 3 اور 4جی ٹیکنالوجی کو
بھی بہت پیچھے چھوڑ چکے تھے اور ہم ابھی اس ٹیکنالوجی میں قدم رکھنے جارہے
ہیں یہ ٹیکنالوجی ہمارے لیے بہت نئی ہے اور ہم اس کے نام سے بھی واقف نہیں
ہیں یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جس سے ہر موبائل فون پر تیز انٹرنیٹ سروس فراہم
ہوسکے گی اس وقت جو ٹیکنالوجی فراہم کی جارہی ہے وہ ــ ’’ ایج ‘‘ یعنی
ایکسچینج ڈیٹا ریٹس فار جی ایس ایم ایولوشن یا 2جی یعنی سیکنڈ جنریشن
ٹیکنالوجی کہلاتی ہے لیکن تھری جی اور فور جی عنقریب اس کی جگہ لے لے گی جس
سے موبائل ڈیٹا خواہ وہ تحریری شکل میں ہو یا تصویری و فلم کی شکل میں اس
کی ڈاؤن لوڈنگ اسپیڈ کئی گنا بڑھ جائے گی اور موبائل کے زریعے بہت تیزی سے
ڈیٹا ٹرانسفر یا شیئر ہوسکے گی جس طرح کمپیوٹر پر انٹرنیٹ کے زریعے ہوتا ہے
۔ٹو جی کے مقابلہ میں نئی ٹیکنالوجی کی اسپیڈ میں کتنا فرق ہے اس کا اندازہ
اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر آپ کسی ویب سائٹ سے کوئی آڈیو فائل (گانا
وغیرہ) موجودہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں اور اس میں کم از کم
کچھ منٹ کا وقت ضرور لگے گا مگر فور جی اسپیکٹرم ٹیکنالوجی اسی گانے کو صرف
چند سیکنڈ میں ہی ڈاؤن لوڈ کردے گی یہی نہیں بلکہ ویڈیو ڈاؤن لوڈنگ بھی چند
سیکنڈ میں ہی مکمل ہوجائیگی اور رہی بات کسی بھی ویب سائٹس کو اوپن کرنے ،ایس
ایم ایس ،پکچر میسجنگ ،،ایم ایم ایس،ای میل اور براؤزنگ کی تو یہ سب کچھ اس
نئی ٹیکنالوجی کی بدولت ہوا کی طرح ہلکا اور آسان ہوجائیگاتھری جی اور فور
اسپیکٹرم ٹیکنالوجی سے ڈاؤن لوڈاسپیڈ میں اضافہ تو ہوگاہی اسکے ساتھ ساتھ
ملک میں روزگار کے نئے راستے بھی کھلیں گے ایک اندازے کے مطابق ایک بار یہ
ٹیکنالوجی متعارف ہوگئی تو تو اس شعبے میں 9لاکھ سے زائد نئی آسامیاں پیدا
ہونگی یہ نہایت کامیاب ٹیکنالوجی ہے اب تک دنیاکے 101ممالک یہ ٹیکنالوجی
اپنا چکے ہیں پاکستان کا نمبر 102واں ہے اور پاکستان میں ہمیشہ جدید
ٹیکنالوجی اس وقت آتی ہے جب وہ ترقی یافتہ ممالک میں ناکارہ ہوجاتی ہے ہم
ابھی تک دور جاہلیت میں ہی اپنی زندگی گذار رہے ہیں ہمارے دیہات میں ابھی
بھی لوگ نہراور کھال کا پانی پینے پر مجبور ہیں جبکہ چولستان میں بارشوں سے
ذخیرہ ہونے والا پانی جانور اور انسان دونوں استعمال کرتے ہیں اور گلی
محلوں میں بیٹھے ہوئے عطائی ڈاکٹر ایک ہی سرنج سے سب مریضوں کو انجیکشن لگا
رہے ہیں اور حکمت کے نام پر جنسی ادویات کی بھر پور تشہیر کرکے سادہ لوح
عوام کو لوٹا جارہا ہے یہ تمام لٹیرے چھپ کر یہ کام نہیں کرتے بلکہ سر عام
ٹیلی ویژن اور اخبارات میں اشتہار دیکر لوگوں کو لوٹنے میں مصروف ہیں محکمہ
صحت کا عملہ خاموشی سے اپنی کمائی میں مصروف ہے پاکستان میں کوئی ایسا
میڈیکل سٹور نہیں ہوگا جہاں جنسی ادویات کی کھلے عام فروخت نہ ہورہی ہو اسی
طرح ہم ہر آنے والی نئی ٹیکنالوجی کابھی استعمال بھی غلط شروع کردیتے ہیں
موبائل سموں کی وجہ سے سینکڑوں بے گناہ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں دہشت گرد
موبائل سم کے زریعے دھماکے کررہے ہیں اگر ہمارے حکمران عوام کو شعور دے دیں
تو پھر پاکستان میں غربت بھی ختم ہوجائیگی اور جہالت کا بھی خاتمہ ہوجائیگا
مگر اس کے لیے پوری قوم کو متحد ہوکر ایک بار اپنے لیے بھی سوچنا پڑے گا
ورنہ تو جوتے ایسے ہی چلتے رہیں گے کبھی عوام جوتوں کی نوک پر ہونگے تو
کبھی حکمرانوں کوجوتا دیکھنا پڑے گا اگر ایسا نہ ہوا تو پھر یہ نئی
ٹیکنالوجی کا استعمال ہم صرف گانے اور ویڈیو کی ڈاؤ ن لوڈنگ تک ہی رکھیں گے
جبکہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں اس ٹیکنالوجی کی مدد سے بڑے کام
لیے جارہے ہیں اور پوری دنیا سمٹ کر انکی 4انچ کی سکرین میں سمٹ آئی ہے
جبکہ ہم نے ہر اچھی چیز کا غلط استعمال کرنے میں مہارت حاصل کرکے اپنی بڑی
بڑی ٹی وی سکرینوں کو بھی کسی اور مقصد کے لیے ہی رکھا ہوا ہے ابھی بھی وقت
ہے کہ ہم اپنی قربانی دیکر آنے والی نسل کو اس گہرائی میں گرنے سے بچا لیں
ورنہ حالات تو ہر روز بد سے بدتر ہوتے ہی جارہے ہیں اور دن ہمارے بھی گنتی
کے ہی باقی ہیں-
ابھی چند روز قبل عوام کو شعور دینے والے طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایک بے
شعور صحافی نے پنجاب کے وزیر اعلی پر اپنا جوتا پھینک دیاجس سے نہ صرف
سنجیدہ صحافیوں نے شرمندگی محسوس کی بلکہ اس طرح شعبہ صحافت بھی مشکوک
ہوگیا ایک صحافی کو یہ زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ اس طرح کا گھٹیا کام کرے
صحافت ایک مقدس پیشہ ہے اس کے غلط استعمال کو روکنا ہم سب کی ذمہ داری ہے
اور ایسے افراد کو بھی تلاش کرکے اپنی صفوں سے نکالنا ہم سب کی ذمہ داری ہے
کیونکہ جوتوں کا براہ راست تعلق عوام اور حکمران سے ہے عوام کام نہ کرنے
والوں کو اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنے جوتے کی نوک پر رکھ سکتے ہیں اس لیے یہ
جس کا کام ہے وہی کرے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ |