“, میں سوات سے ہجرت کرکے جانے
والے ایک ایسے خاندان کی داستان پڑھ کر حیران ہوگیا جیسے دیار غیر میں
سیاسی پناہ کے نام پر جا کر کتنی صعوبیتیں برداشت کرنا پڑ رہی ہیں۔ پاکستان
سے کبھی مذہبی منافرت کے نام پر کافی تعداد میں ہندوؤں کا بھارت جا نا تو
کبھی بلوچستان اور خیبر پختونخوا ، سوات سے بڑی تعداد میں مہاجرین کے نقل
مکانی اخبارات میں عبرت ناک داستان کی صورت میں سامنے آتی رہتی ہیں۔آسٹریا
کے دارلحکومت ویانا میں سیاسی پناہ کے طلب گار ایک مسلم نوجوان سے ملاقات
کا احوال قابل عبرت ہے کہ جو سیاسی پناہ کی درخواستوں کے حوالے سے حکومت کی
جانب سے فیصلہ کا انتظار کرنے کیلئے ایک عیسائی خانقاہ میں پناہ لئے ہوئے
ہیں اور کافی عرصے سے ان کے مستقبل فیصلہ نہ ہونے کے سبب بھوک ہڑتال کی وجہ
سے خانقاہ کیمطابق اس عمل سے ان کی بد نامی ہو رہی ہے۔ بد قسمتی سے انھیں
زندگی کی بنیادی سہولتیں بھی فراہم نہیں کیں جاتیں اور انھیں عارضی طور پر
اپنے گذر اوقات کیلئے کام کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔سوات سے تعلق رکھنے والے
ایک رہائشی" خان عدالت"، جنھیں سب پناہ گزیں اپنا لیڈر مانتے ہیں ان کے
چہروں پر دربدری کی داستان ان کے بے بسی کو عیاں کرتی ہیں ۔ قابل ذکر بات
یہ ہے کہ پناہ گزینوں کی داستانوں کے تمام تانے بانے پاکستان میں ہونے ولی
دہشت گردی سے جڑے نظر آتے ہیں۔خان عدالت کے مطابق سوات سے ان کا سفر2005ء
سے ہوا جب طالبان نے علاقے میں کاروائیاں تیز کردیں تھیں ۔ تووہ غیر قانونی
طور پر یونان آگئے اور 2011ء تک یونان میں رہے جب پناہ گزینوں پر نسل
پسندوں نے حملے شروع کئے تو ان کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی ۔ان کے مطابق ان
کے خاندان اور کئی دوستوں کو شد ت پسندوں نے ہلاک کردیا ور ، سکول تباہ
کردئیے اور گھروں کو بر باد کرڈالا۔خا ن عدالت کا کہنا تھا کہ کوئی نہیں
چاہتا کہ اپنی سر زمین چھوڑے لیکن حالات ایسا کرنے پر مجبور کر دیتے
ہیں۔انھیں آسٹرین حکام سے بڑا گلہ تھا کہ ہماری قربانیوں کا صلہ اس طرح دے
رہے ہیں کہ ۔ــ" پاکستان میں شدت پسندوں کا سسٹم ہمیں بندوق سے مار رہا ہے
اور یہ قلم سے مار رہے ہیں ، مجھے اس میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ہے۔"سوات
کے نوجوان خان عدالت کے یہ الفاظ نشتربن کر دل میں اتر جاتے ہیں کہ ایک طرف
بندوق ہے تو دوسری جانب قلم کی مار ، کیمپوں میں انھیں انہتائی برے سلوک کے
ساتھ رکھا جاتا ہے۔جس پر انھوں نے سول سوسائٹی اور آسٹریا کی انسانی حقوق
کی تنظیم کے اراکین کے ساتھ ملکر بیس پچیس مل کی مسافت پیدل طے کرکے ویانا
پہنچے۔ مختلف کیمپوں میں رکھنے جانے کے سبب ان کی حالے انتہائی ناگفتہ اور
خراب ہوچکی۔آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے میر جہانگیر کے مطابق"یہ سسٹم
طالبان سے بھی بُر اہے وہ تو ڈائریکٹ بندے کو مار دیتے ہیں ، یہ آہستہ
آہستہ مارتے ہیں ۔"ان کیمپوں میں رہنے والوں کا کہنا تھا کہ"یا ہم انسان
نہیں ہیں اور انسانی حقوق کی مد میں نہیں آتے یا پھر ان لوگوں میں انسانیت
نہیں ہے۔"جنوبی وزیر ستان سے اپنے گھر کے افراد کے ہلاکت کے بعد یورپ میں
پناہ حاصل کرلیں۔گذشتہ چند سالوں سے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان
سے سے بڑ تعداد محفوظ ممالک میں پناہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں ، خاص کر
ویانا میں پارا چنار ، سوات ، خیبر ایجنسی اور وزیر ستان سے تعلق رکھنے
والے بڑی تعداد میں بڑی تکلیف میں یہاں پناہ لئے ہوئے ہیں لیکن انسانی حقوق
کی عالمی تنظیموں کی جانب سے ان کی داد رسی نہ ہونا ان کا دوہرا معیار ہے۔ہ
بھی درست ہے کہ ہر ملک اپنے قوانین کے مطابق فیصلہ کرتا ہے ایسے انسانی
جذبات کے بجائے اپنے ملکی قوانین کو مد نظر رکھنا پڑتا ہے۔افغان مہاجرین کی
بہت بڑی تعداد لاکھوں کی تعداد میں پاکستان میں بس چکی ہے اور انھیں واپس
اپنے ملک بھیجنے کیلئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑیں گے اس کا اندازہ اس بات سے
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کی جانب سے از خود جانے والوں کی تعداد
نہ ہونے کے برابر ہے جو پاکستان میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ہمارے
سامنے ایسے نوجوانوں کی بھی داستانیں ہیں جو اپنے بہتر مستقبل کیلئے اپنا
ملک چھوڑ کر جانے کے لئے ہر قسم کا جتن کرنے کے لئے ہر قسم کا رسک اٹھانے
سے گریز نہیں کرتے۔بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ انفارمیشن میں زیر تعلیم
عمران علی ، کوئٹہ کے حالات سے تنگ آکر ملک چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو
ایسے آسٹریلیا جانے کے لئے خطرناک راستوں کا نتخاب کرنا ہوتا ہے۔ کوئٹہ سے
تعلق رکھنے والے علی عمران ہزارہ قبیلے کے ان 53افراد میں شامل تھے جن کی
کشتی انڈونیشا سے آسٹریلیا جاتے بحر ہند میں کر سمس آئی لینڈ کے پاس ڈوب
گئی تھی۔کشتی میں دو سو سے زائد افراد سوار تھے جن میں ترپن ہزارہ اور باقی
کا تعلق قبائلی علاقے کرم ایجنسی سے تھا ۔ علی عمران ان بیس خوش قسمت افراد
میں سے تھا جو زندہ بچ گیا تھا۔اسی طرح کا ایک واقعہ آسٹریلیا غیر قانونی
طور پر جانے والوں کے ساتھ 2012ء میں بھی پیش آیا ۔ آسٹریلیا کے بحر ہند
میں ڈوبنے والی اس کشتی میں ایک سو پچیس افراد کو بچا لیا گیا ۔تسلیم شدہ
بات یہی ہے کہ خطرناک راستوں سے یورپ جانے والوں کی زیادہ تعداد کا مقصد
روزگار اور پر تعیش زندگی کے حصول کے لئے رسک اٹھانا ہوتا ہے۔ ایسے متعدد
واقعات منظر عام پر آچکے ہیں کہ کنٹینروں میں تارکیں وطن کی بڑی تعداد دم
گھٹنے سے ہلاک ہو جاتی ہے۔افغانستان سے لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین ایران،
پاکستان اور دیگر ممالک گئے ، سوات ، وزیر ستان سے پختونوں کو بے سرو
سامانی کی حالت میں ہجرت کرنا پڑی ، سیلاب سے متاثرہ سندھ سے وابستہ افراد
کو کراچی میں سرکاری اسکولوں ، کالجوں میں بسایا گیا ، انھیں وہاں انتہائی
تنگ دستی اور بر یشانی کے عالم میں زندگی گذارانا پڑی ، اسی طرح سوات کے
مکنیوں کو سیلاب کی تباہ کاریوں اور پھر کشمیر ، ایبٹ آباد میں زلزلوں کی
وجہ سے سینکڑوں ہلاکتیں اور اربوں کا جانی مالی نقصان سمیت گھر سے بے
سروسامانی کے ساتھ تکلیف دہ حالات میں روز میڈیا میں دیکھایا جانا کسی سے
پوشیدہ نہیں رہا ہے۔ ہمیں یہ نظارے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک
، ترقی پذیر ممالک سے لیکر ترقی یافتہ ممالک تک نظر آتے ہیں ۔ لیکن مشیت
خداوندی سامنے کسی زور نہیں چلتا اور تمام حکمت عملیاں ناکام رہ جاتی
ہیں۔زمیں کی معمولی سے گڑگڑاہٹ بڑی بڑی عمارتوں کو زمیں بوس کردیتا ہے ،
لیکن ہم پھر بھی یہ نہیں سوچتے کہ اسی قوت بھی ہے جس نے ہمیں مہلت کالمحہ
مہیا کیا ہوا ہے ، ہمیں اس لمحے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ معیشت کیلئے خطرناک
راہوں کی مہم جوئی ہو یا پھر قدرتی آفات ، یا پھر دہشت گردی کے ہاتھوں
معصوم لوگوں کی نقل مکانی و بے سروسامانی ، یہ سب قدت کی نشانیاں ہیں۔ایک
طرف اگر بندوق کی مار ہے تو دوسری جانب قلم کی۔فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم
اُن ہاتھوں میں پکڑی جانے والی بندوقوں سے خوفزدہ ہوجائیں یا پھر اُس قلم
سے جس کے کاتب نے ہمارے اعمال کے نتیجے میں میزان لکھ دیا ہے۔ |