یہ انداز سیاست

نہ جانے یہ کس کی تقلید ہے کہ اسلام کے درخشاں دور کی تقلید کا تو اپنے حکمرانوں نے تصور بھی نہیں کرنا٬ یورپ اور امریکہ میں بھی آیا نہیں کہ ایک ہی گھر کے کئی کئی افراد اعلیٰ حکومتوں عہدوں پر فائز ہو جائیں٬ یہ بادشاہت اور ملوکیت کی روایت ہے جسے اپنے حکمران نہایت دیدہ دلیری سے اپناتے ہیں۔ جمہوریت میں وراثت کی سیاست کا بھلا کیا جواز٬ مگر پاکستانی جمہوریت میں یہ کلچر دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ مانا کہ کسی خاندان کی عوامی مقبولیت اس قدر ہو جاتی ہے کہ یار لوگ نسل در نسل ان سے عقیدت کا رشتہ نبھاتے ہیں مگر اس عمل کو کیا نام دیا جائے کہ ایک ہی گھر سے ایک سے زائد افراد عوامی خدمت کے منصب پر فائز ہو جائیں۔ ایک بھائی وزیراعظم ہو تو دوسرا وزیراعلیٰ‘ بیوی وزیراعظم ہو تو شوہر وزیر٬ باپ وزیراعظم ہو تو بیٹا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین۔

عبدالقادر گیلانی کی تعلیم ممکن ہے ایسی ٹیکنیکل ہو کہ وہ پنجاب کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بننے کے اہل ہوں مگر موصوف کے پاس کون سا تجربہ ہے؟ موصوف کے پاس کون سی اپوزیشن ہے کہ حکومت نے یہ اہم ذمہ داری انہیں سونپی ہے تو ضرور اس کے قواعد و ضوابط اور نشیب و فراز کا اندازہ لگایا ہوگا٬ میرٹ کا بھی حساب کیا ہوگا٬ عمر اور تجربے کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا٬ ایجنسیوں سے رپورٹیں حاصل کی ہوں گی٬ افراد کی شخصیت اور کردار کی تحقیق کی ہوگی۔ ان تمام کارروائیوں کے بعد یہی نتیجہ نکلا ہوگا جو عبدالقادر گیلانی کی صورت میں قوم کے سامنے ہے۔

اپنی اولاد کو اپنے اختیار کردہ پیشے میں آگے لانا والد کا حق ہے۔ فوج٬ بیورو کریسی٬ مذہب٬ سیاست اور تجارت وغیرہ میں اس وقت جتنے لوگ موجود ہیں ان میں سے بہت سوں کے والد بھی انہی شعبوں سے وابستہ تھے۔ چھوٹے گیلانی صاحب نے فروری 08ء کا الیکشن اپنے آبائی شہر ملتان سے لڑا تھا مگر حلقے کے عوام نے انہیں اپنی نمائندگی کے اہل نہیں جانا جس کی بنا پر کامیابی نے ان کی قدم بوسی نہیں کی۔ ممکن ہے اس حلقے کے عوام میں اتنا شعور ہی پیدا نہ ہوا ہو کہ وہ اپنے فائدے نقصان کی پہچان کرسکیں۔ ہوسکتا ہے کہ عوام کو عبدالقادر میں وہ گن نظر ہی نہ آئے ہوں جن کا ادراک پنجاب حکومت نے کیا ہے۔ انسان کے اندر چھپی صلاحیتیں تو صاحب نظر ہستیوں کو ہی نظر آتی ہیں٬ عوام کیا جانیں کہ جس نوجوان کو انہوں نے اپنے ووٹ کے قابل نہیں سمجھا وہ کن خوبیوں کا مالک ہے۔

ملتان کے عوام کو ان کی غلطی کا پہلا احساس اس وقت دلایا گیا جب ان کے شکست خوردہ نمائندے کو رحیم یار خان کے عوام کی نمائندگی پر لگا دیا گیا۔ اب اس نوجوان کی مقبولیت میں یکایک حیرت انگیز اضافہ ہوگیا تھا کیونکہ موصوف کے والد وزارت عظمیٰ کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہوچکے تھے۔ پاکستانی جمہوریت کی پختگی ملاحظہ کیجئے کہ وہاں کے عوام نے اسے بلامقابلہ اپنا نمائندہ چن لیا۔ عوام سے بھی زیادہ کمال ان مخالف پارٹیوں کا ہے جنہوں نے ان کے مقابلے میں الیکشن لڑنا تھا۔ اصول تو یہ تھا کہ دو ووٹ بھی ملیں بندہ کھڑا رہے مگر دنیاداری کے تقاضے کچھ اور ہی ہوتے ہیں‘ حکومتی دباؤ اور لالچ کے سامنے رکنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی۔

منتخب ہو جانے کے بعد عبدالقادر کی اہمیت حد سے زیادہ بڑھ گئی۔ اب وہی مسترد شدہ فرد ملتان میں ہی کھلی کچہریاں لگانے لگا٬ لوگوں کو ریلیف دینے لگا٬ ان کی قسمتوں کے فیصلے کرنے لگا۔ جس عوام نے اسے ووٹ دینا مناسب نہیں سمجھا تھا٬ وہ سائل بن کر آنے لگے٬ انتظامیہ اس کے آگے پیچھے پھرنے پر مجبور ہوگئی کہ یہ سب کچھ اس کا میرٹ تھا٬ وہ وزیراعظم کا بیٹا تھا۔

کیا یہ اہم ترین اور سنجیدہ عہدہ کسی نوعمر ممبر اسمبلی کا حق بنتا ہے؟ کیا یہ عہدہ گیلانی شہباز ہم آہنگی کا ثمر نہیں؟ کیا حکمرانوں کی دوستیوں کے نتیجے میں ان کے بچوں کو قوم کے سر پر مسلط کرنا جمہوری رویہ ہے؟ کیا پنجاب بھر میں کوئی سنجیدہ٬ تجربہ کار اور دیانتدار ممبر صوبائی اسمبلی نہیں تھا٬ جسے یہ منصب سونپا جاتا۔ کیا یہ عہدوں کی لالچ کا ثبوت نہیں۔

گزشتہ روز وزیراعظم گیلانی نے کنونشن سینٹر میں وزارت محنت و افرادی قوت کے زیراہتمام ایک ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے جذباتی انداز میں کہا کہ ”یوسف رضا گیلانی اقتدار کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے‘ مزدور کے اعتماد کے بغیر نہیں۔“ گیلانی صاحب خود تو اقتدار کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں٬ مگر اپنے بیٹے کے ا قتدار کے بغیر نہیں۔ پہلے ملتان میں قسمت آزمائی کی٬ قسمت نے یاوری نہیں کی تو رحیم یارخان بھجوا دیا اور اب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین؟ یقیناً اس عہدے کیلئے گیلانی صاحب نے سفارش نہیں کی ہوگی٬ مگر خادم پنجاب کو خود بھی تو اپنے وزیراعظم کی ننھی منی خواہشوں کا ادراک ہے! وزیراعظم کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ اقتدار سے رخصتی کے بعد ایسے اقدامات کبھی نیک نامی کا مؤجب نہیں ہوتے۔
Anwar Grywal
About the Author: Anwar Grywal Read More Articles by Anwar Grywal: 3 Articles with 2688 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.