عورت

بوڑھی ثریا جون کی شدید گرمی میں پیدل سڑک کنارے چل رہی تھی۔ اس کے ایک ہاتھ میں ایک تھیلا تھا اور دوسرے ہاتھ میں وہ چھڑی جس کی مدد سے وہ آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ رو رہی تھی اور اپنی قسمت کو کوس رہی تھی۔ اس کے پاؤں میں وہاڑی کی مشہور چپل تھی جو اب خستہ حال ہوچکی تھی۔ وہ تھوڑا سا چلتی اور بیٹھ جاتی۔ گرمی اتنی تھی کہ پرندے بھی اپنے گھونسلوں سے نکلتے ہوئے دس بار سوچتے تھے مگر بوڑھی کوئی شوق سے تو نہ نکلی تھی، اسے تو نکالا گیا تھا۔ اسے وہ وقت بھی یاد تھا جب اس کا شوہر مرزا اقبال گاؤں کا سیٹھ کہلاتا تھا۔ اس کے دونوں بیٹے راجہ اور منور اپنے باپ کی عزت کی وجہ سے گاؤں میں سیٹھ سیٹھ کہہ کر پکارے جاتے تھے۔ ثریا اور مرزا نے دونوں بیٹوں کو بہت پیار سے پالا تھا۔ ان کے لیے شہر سے روز ماسٹر آیا کرتا تھا جو انہیں پڑھاتا تھا۔ گاؤں کا مولوی انہیں گھر پر سبق پڑھانے آیا کرتا تھا، اور وہ عیش و عشرت سے رہتے تھے۔

مرزا کی اپنی زمینیں تھیں جو برسوں سے ان کے پاس تھیں۔ صبح سویرے مرزا صاحب اپنے ڈیرے کی طرف چلے جاتے تھے، ان کے دونوں بیٹے بھی شام کو ڈیرے پر روانہ ہو جاتے تھے۔ اُن کے باپ کو گھڑ سواری کا بہت شوق تھا اور اسی غرض سے مرزا صاحب نے ڈیرے پر کئی گھوڑے رکھے ہوئے تھے۔ گھوڑوں کو مربعہ جات اور بادام وغیرہ کھلائے جاتے تھے اور دو آدمی ان کی خدمت کے لیے ہر وقت ادھر رہتے تھے۔ مرزا گاؤں کے اکثر فیصلے خود کیا کرتا تھا۔ زمین کا مسئلہ ہو یا جائیداد کی تقسیم کا فیصلہ، یہ سارے معاملات سیٹھ ہی حل کرتا تھا۔ راجہ اور منور دونوں جڑوا بھائی تھے۔ مرزا صاحب جب کبھی شہر کا رخ کرتے تو دونوں کے لیے ایک جیسے کپڑے خرید لاتے۔ کبھی کبھار تو ان کو یہ پتہ نہ چلتا کہ راجہ کون ہے اور منور کون ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں جوان ہوگئے۔ راجہ کو باپ کی طرح گھوڑے پالنے کا بہت شوق تھا، اس نے شوق کی غرض سے ایرانی نسل کے دو گھوڑے مشہد سے منگوائے تھے۔ وہ ان گھوڑوں کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑتا تھا۔ اگر ملازم ان کی خدمت ٹھیک طرح سے نہ کرتے تو وہ انہیں فارغ کر دیا کرتا تھا۔ دوسری طرف منور ایک سیدھا سادھا نوجوان تھا۔ وہ پڑھائی سے فارغ ہو کر اکثر اپنے دوستوں سے ملنے چلا جایا کرتا تھا۔ وہ دوستوں کی طرف نہ جاتا تو گھر ہی میں وقت گزارا کرتا تھا۔ ان کی ماں نے اپنے بیٹوں کو بڑے لاڈ پیار سے پالا تھا جب دونوں گھر سے باہر نکلنے لگتے تھے تو وہ دروازہ پر آکر انہیں دعاؤں سے رخصت کرتی تھی۔

ان کا گاؤں گندم کی فصل کی وجہ سے علاقے بھر میں مشہور تھا۔ چھوٹے سے گاؤں میں چند ہی پختہ مکان تھے۔ جن میں سے ایک مرزا صاحب کا گھر بھی تھا۔ گاؤں کے اندر ایک دربار تھا جہاں ہر سال میلہ لگا کرتا تھا۔ راجہ نے میٹرک کے بعد پڑھائی کو خیر آباد کہہ دیا اور ڈیرے کے معاملات کو سنبھالنے لگ گیا۔ جبکہ منور ایف اے کی تیاری میں مگن ہوگیا۔ مرزا صاحب نے اپنے جیتے جی ساری جائیداد دونوں بیٹوں میں تقسیم کر دی اور زیادہ تر معاملات سے کنارہ کشی کر لی۔ وہ گاؤں کے فیصلے خود کیا کرتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ جائیداد کی تقسیم میں بہت لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں اسی لیے اُنہوں نے اپنے جیتے جی ساری جائیداد بیٹوں کے سپرد کر دی۔ راجہ عیاش پرست اور نڈر نوجوان تھا جب سے مرزا صاحب نے ڈیرے جانا کم کر دیا تھا تبھی سے ڈیرے میں طرح طرح کی محفلیں ہونے لگیں تھیں۔ دور دور سے لڑکیاں ادھر آتیں اور گانوں پر رقص کرتیں۔ ایک دو بار مرزا کو اس بارے میں معلوم پڑا تو انہوں نے راجہ کو منع کیا مگر وہ باز نہ آیا اور لگا رہا۔ پھر ایک دن ثریا نے بیٹے کوکہا:
’’تم ڈیرے پر لڑکیوں کو منگوا کر ناچ گانا سنتے ہو؟‘‘ تمہیں شرم نہیں آتی۔ باپ کے بڑھاپے کو اس کی کمزوری نہ سمجھوں۔‘‘

وہ بولا : ماں لڑکیاں ادھر نہیں آتیں، ہم تو گھوڑوں کا ناچ نچاتے ہیں۔‘‘ جس پر اس کی ماں نے کہا : ’’ٹھیک ہے بیٹا! بس اپنے بوڑھے باپ کی عزت کا خیال رکھنا۔‘‘ مرزا صاحب بڑھاپے میں کم ہی گھر سے باہر جایا کرتے تھے، انہیں کھانا بھی منور کی ماں خود اپنے ہاتھوں سے کھلایا کرتی تھی۔ منور نے ایف اے کے بعد پڑھائی چھوڑ دی اور گھر میں اپنے باپ کے پاس رہنے لگ گیا۔ پھر آہستہ آہستہ راجہ اُن کے کنٹرول سے باہر ہونے لگا، جائیداد پہلے ہی تقسیم ہوچکی تھی، وہ اپنے حصے کی زمین بیچ کر شہر چلا گیا۔ ادھر جا کر اس نے کبھی ماں باپ کی خبر تک نہ لی۔ بوڑھے ماں باپ اب منور کے ذمہ تھے۔ راجہ کا اپنے گھر والوں کو اس طرح چھوڑ کر چلے جانا مرزا صاحب کو موت کی دہلیز پر لے گیا اور اس کی بوڑھی ماں کو شدید صدمہ دے گیا۔ منور ڈیرے پر بہت کم جایا کرتا تھا۔ گھوڑے جو اس کے باپ کے بہت پسندیدہ تھے راجہ وہ بھی ساتھ لے گیا تھا۔ وہ زمینیں جو منور کے حصے میں آئیں تھیں انہیں اب وہ ٹھیکے پر دینے لگ گیا اور آہستہ آہستہ باقی زمینوں اور ڈیرے سے کنارہ کشی کرنے لگ گیا۔ باپ کی موت کے بعد وہ ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوگیا۔ لڑکی ان کے گاؤں میں رہتی تھی اور غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اونچے قد اور خوبصورت رنگت والی اس لڑکی نے جلد ہی منور کو اپنے سحر میں مبتلا کر لیا۔ عورت مرد کی کمزوری ہوتی ہے۔ منور نے اپنا بہت سارا پیسہ پانی کی طرح اُس پر بہا دیا اور کچھ عرصے بعد اسی لڑکی سے شادی بھی کر لی۔ اب اس پکے مکان میں تین افراد ہوگئے منور، اس کی ماں اور وہ لڑکی، اس لڑکی نے شروع شروع میں اپنی ساس کی خوب خدمت کی اور اپنے شوہر کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ وہ اس کی ماں کا بہت خیال رکھتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ دن بدلنے لگے، جویریا منور کی بات کو ماں کی بات پر مقدم جاننے لگا اور اس کے دل میں ماں کے لیے محبت کم ہوگئی۔ ثریا کو بڑھاپے میں منور کے مال و زر سے کوئی لینا دینا نہ تھا، وہ بس یہی چاہتی تھی کہ اس کا بیٹا اس کا خیال رکھے اور ہر روز چند منٹ اس کے پاس گزارے، مگر عورت کا شر بڑا ظالم ہوتا ہے۔ راجہ جو پہلے ہی ماں باپ کو چھوڑ کر شہر جا چکا تھا باپ کے مرنے پر اسے کندھا دینے بھی نہ آیا تھا جویریا کے بار بار اصرار پر منور نے ماں کو مکان کے پچھلے کمرے میں شفٹ کر دیا اور ایک ملازمہ کو ماں کی خدمت کے لیے رکھ لیا۔ جویریا پچھلے کمرے میں بہت کم جایا کرتی تھی۔ پہلے پہل جب منور گھر آیا کرتا تو ماں کے پاس پچھلے کمرے پر چلا جایا کرتا، مگر پھر وہ مہینوں ادھر کا رخ نہ کرتا۔ اس کی بیوی شادی سے قبل ایک غریب لڑکی تھی جو آج دولت کی ریل پیل دیکھ کر مغرور ہوگئی تھی۔ جب کبھی بڑھیا اُس ملازمہ کو باہر سے کوئی چیز لانے کا کہتی تو وہ جا کر جویریا کو بڑھیا کی فرمائش بتایا کرتی تھی۔ ایک روز جب منور گھر واپس آیا تو اس کی بیوی نے اس کے خوب کان بھرے۔

’’آپ کی ماں کی تو فرمائشیں ہی نہیں پوری ہوتیں، کبھی یہ لاؤ کبھی وہ لاؤ۔‘‘
وہ بولا : ’’اب کیا کہا اس نے؟‘‘ اس کی بیوی بولی : ’’میں تو تنگ آگئی ہوں اُس سے، کمرے سے باہر آ جاتی ہے اور اونچی اونچی بولنے لگتی ہے کہ ’’تم نے میرے بیٹے کو میرے خلاف کر دیا ہے۔‘‘ منور نے دو تین بار اپنی بیوی کی شکایت کے باوجود ماں سے کوئی بات نہ کی۔ پھر ایک دن جویریا اپنے شوہر کے گھر پہنچتے ہی اونچی اونچی رونے لگ گئی۔ منور نے رونے کی وجہ دریافت کی تو وہ بولی:
’’تیری ماں بہت مکار ہے، ملازمہ کو میرے خلاف باتیں بتاتی ہے، تم آج فیصلہ کرو یا تو وہ اس گھر میں رہے گی یا میں۔‘‘ وہ ساری رات سوچتا رہا کہ اب کیا کرے۔ اُس عورت نے منور کو مکمل طور پر یرغمال بنایا ہوا تھا۔ وہ اس کے پیسے اور جائیداد کی بھوکی تھی۔ صبح جب وہ اٹھا تو وہ طے کر چکا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ منور پچھلے کمرے میں گیا اور بولا: ’’بڑھیا اپنا سامان باندھو اور کہیں اور چلی جاؤ! اب ادھر کوئی جگہ نہیں تمہارے لیے۔‘‘ اس کی ماں یہ سنتے ہی رونے لگ پڑی۔ وہ بیٹا جس کو اس نے بڑے لاڈ پیار سے پالا تھا وہ اسے گھر سے نکال رہا تھا۔ وہ بیٹا جس جس کے گھر سے نکلتے وقت اس کی ماں اسے ڈھیروں دعاؤں سے رخصت کرتی تھی اور سینے سے لگا کر سوتی تھی آج اُسے نکل جانے کا کہہ رہا تھا۔ منور کی آواز یہ کہتے ہوئے ذرا بھی نہ کپکپائی تھی۔ بوڑھی اس کے بچپن کے وہ دن یاد کر رہی تھی جب وہ اپنے بیٹے کے منہ میں نوالے توڑ توڑ کر ڈالا کرتی تھی۔ وہ انہیں سوچوں میں مصروف تھی کہ منور بولا:
’’تیرے بیٹے راجہ نے تو تجھے بہت پہلے چھوڑ دیا تھا، اور وہ بدبخت تو باپ کی قبر پر بھی نہ آیا، یہ میں ہی تھا جس نے اتنے سالوں تیری خدمت کی، پر اب میں کیا کروں، خرچے پورے نہیں ہوتے، تم کہیں اور چلی جاؤ۔‘‘ اتنے میں اس کی بیوی بھی کمرے میں داخل ہوگئی بڑھیا کو روتے دیکھ کر وہ اندر ہی اندر سے بہت خوش تھی۔ کیونکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکی تھی۔ بوڑھی اماں نے سامان اٹھایا اور شدید گرمی میں سڑک کے کنارے چلنے لگ گئی اس کے ایک ہاتھ میں تھیلا تھا اوردوسرے ہاتھ میں چھڑی تھی۔
Uzair Altaf
About the Author: Uzair Altaf Read More Articles by Uzair Altaf: 26 Articles with 28021 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.