جاڑا عروج پر تھا اور ہر طرف برف
ہی برف نظر آتی تھی۔ صنوبر کے لمبے لمبے درخت برف کی چادر اوڑھے ہوئے تھے
سطح زمین سے سات ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ایک چھوٹے سے گھر کے مکین بھی
سردی کی اس شدت کی وجہ سے پریشان تھے۔ پرندے اپنے گھونسلوں میں دبک کر
بیٹھے ہوئے تھے۔ ہوا بہت تیز تھی۔ دور دور تک برف کے علاوہ کچھ اور نظر
نہیں آتا تھا۔ ٹھیک آدھے گھنٹے بعد ایک خاتون اس گھر سے باہر نکلتی جس کے
ہاتھ میں لوہے کا بیلچہ ہوتا، وہ برف کو گھر کے صحن سے باہر دھکیلتی اور
جلدی سے اندر لوٹ جاتی۔ اس دفعہ جاڑا پچھلے سال کی نسبت زیادہ پڑ رہا تھا
اوپر پہاڑوں پر برف بہت تیز تھی۔ سات ہزار کی بلندی پر واقع اس مکان میں
تین لوگ رہتے تھے، گل خان، گل نسیم اور ان کی پانچ سالہ بیٹی عائشہ۔ ان کے
مکان کی دیواریں صنوبر کی لکڑی سے بنائی گئیں تھیں جس کی چھت پر سٹیل کی
چادر ڈالی گئی تھی۔ سٹیل کی چادر برف کوا وپر ٹھہرنے نہ دیتی تھی۔ مگر اس
بار ان کی چھت پر برف رک جاتی تھی جسے بار بار اوپر جا کر اتارنا پڑتا تھا۔
یہ کام گل خان خود کرتا تھا۔ گل خان کے گھر کے پاس ہی آلو بخارے، سیب اور
اخروٹ کے کئی درخت تھے۔ گل خان ان درختوں پر لگے پھل اتارتا تھا اور مالک
سے اس کی مزدوری وصول کرتا تھا۔ وہ انہیں روپوں سے گھر کا سامان خریدتا
تھا۔ سامان میں سے بیچ جانے والے روپوں کے خشک میوہ جات خرید لیتا تھا۔ وہ
پہاڑوں سے نیچے وادی میں مہینے میں صرف ایک دو بار جایا کرتا تھا۔ وادی سے
ہی وہ سامان اور میوہ جات لے کر سات ہزار کلومیٹر کی بلندی پر واپس لوٹ
جایا کرتا تھا۔ اسی سامان سے وہ پورا مہینہ گزارا کیا کرتے تھے۔ گل خان کے
پاس ایک بکری تھی جس کا رنگ سفید اور کالا تھا۔ بکری کی کھال پرلمبے لمبے
خوبصورت بال تھے اور اس کے سر پر لگے دو سینگ اسے مشکلات سے بچاتے تھے۔
بکری عائشہ کے دودھ کے لیے کام آتی تھی۔ عائشہ اس بکری سے خوب کھیلا کرتی
تھی اور ماں کے روکنے کے باوجود اسے اندر کمرے میں لے آیا کرتی تھی۔ گل خان
کو مالک کی طرف سے پھل اتر جانے کے بعد کوئی اور اجرت نہ ملتی تھی اور وہ
اسی مزدوری پر باقی مہینے گزارا کرتا تھا۔ گل خان خشک میوہ جات گھر کے باہر
ایک چھوٹی سی ٹوکری میں سجا کر رکھتا تھا۔ جب کوئی سیاح اوپر کا رخ کرتا تو
کبھی کبھار اُس کا ڈرائی فروٹ بک جایا کرتا تھا۔ مگر چند دنوں سے کوئی سیاح
پہاڑوں پر نہ آیاتھا۔ گل خان بار بار کھڑے ہو کر نیچے دیکھتا، کہ شاید کوئی
سیاح اوپر آتا ہو، مگر وہ مایوس ہو کر دوبارہ ٹوکری کے پاس بیٹھ جایا کرتا
تھا۔ سیاح آتے اور موسم کی شدت کی وجہ سے آدھے راستے میں سے مڑ کر واپس چلے
جایا کرتے تھے۔
پہاڑوں پر برف تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور سردی بڑھتی چلی جا رہی
تھی۔ سیاحوں کی آمدورفت میں بھی بہت تیزی سے کمی واقع ہو رہی تھی۔ گل خان
کے پاس صرف چند دنوں کا راشن بچا تھا اور کچھ خشک ڈرائی فروٹ جو وہ ٹوکری
میں لگایا کرتا تھا۔ ایک رات گل خان اسی پریشانی میں اپنے بستر پر پڑا تھا،
باہر ہو کا عالم تھا۔ چھوٹے سے گھر کے اندر وہ تینوں سہم کر بیٹھے ہوئے
تھے۔ شدید بارش ہونے لگی اور اس کے ساتھ تیز ہوائیں چلنے لگیں۔ تیز ہوا کی
وجہ سے صنوبر کے درختوں کے پتوں کی آوازیں اندر تک سنائی دیتیں تھیں۔ عائشہ
جو صرف پانچ برس کی تھی بجلی کے گرجنے کی آواز سن کر رونے لگ پڑی اور ماں
اُسے تسلی دیتے ہوئے بولی:
’’چپ کرو بیٹا دیکھو صبح ہونے والی ہے۔ صبح سورج نکلے گا تمہیں ابا کے ساتھ
باغ میں سیر کے لیے جانے دوں گی۔‘‘
’’اب سو جاؤں۔‘‘
مگر ننھی عائشہ اس رات کافی د یر تک روتی رہی اور پھر روتے روتے خود ہی سو
گئی۔ اتنی بلندی پر اگر کسی صبح سورج اپنا دیدار کرا دے تو وہ ان لوگوں کے
لیے ایک بڑا حسین دن ہوتا تھا۔ ابھی آدھی رات باقی تھی اور صحن میں برف بھر
چکی تھی۔ اوپر چھت پر بھی کافی برف رکی ہوئی تھی۔ گل خان بار بار باہر جاتا
تھا اور برف کو گھر کے صحن اور چھت سے ہٹا کر واپس اندر آ جاتا تھا۔ وہ
اپنی بیوی کے منع کرنے کے باوجود یہ عمل بار بار دھراتا تھا۔ ساری رات وہ
برف ہٹاتا رہا اور فجر کے قریب وہ بستر پر آ کر لیٹ گیا۔ بارش رُک چکی تھی
اور ہلکی ہلکی برف باری دوبارہ ہونے لگی تھی۔ گل خان نے اپنی بیوی اور
عائشہ کو سوتے دیکھا تو کچھ دیر کے لیے خود بھی سونا چاہا، مگر وہ سردی سے
شدید کانپ رہا تھا۔ وہ بستر سے اٹھا اور سٹیل کے چھوٹے سے صندوق سے ایک
پرانی گرم چادر نکالی اور اسے اپنی رضائی کے اوپر ڈال کر پھر لیٹ گیا۔ ان
کے لکڑی کے دروازے کے نیچے سے تیز ہوا اندر آ رہی تھی جسے اندر آنے سے
روکنے میں وہ ناکام رہا تھا۔ وہ کچھ دیر ہی لیٹا تھا کہ دروازے کے نیچے سے
سفید روشنی اندر آنے لگی وہ جان گیا تھا کہ صبح ہوگئی ہے۔ گل خان تیز بخار
اور سر میں درد کی وجہ سے لیٹا رہا، مگر وہ سو نہ پایا تھا۔ اس کا پورا بدن
کانپ رہا تھا اور جسم میں درد ہونے لگ گئی تھی۔ گل خان نے اپنی بیوی جو
عائشہ کے ساتھ دوسری چارپائی پر سو رہی تھی اسے آواز دی:
’’گل نسیم‘ مگر وہ سن نہ پائی۔ وہ دوبارہ بولا:
’’عائشہ کی ماں‘‘ لیکن جواب ندارد۔ گل خان نے چارپائی سے اٹھنے کی بھرپور
کوشش کی تاکہ وہ سٹیل کے صندوق کے اوپر پڑا گلاس اٹھا سکے مگر وہ ناکام
رہا۔ رات کی تیز ہوا اور برف کی وجہ سے اسے سانس لینے میں بھی دشواری ہونے
لگی تھی۔ وہ وہیں پڑا رہا۔ پچھلی رات سردی کی بھرپور شدت اس کی جان لے چکی
تھی اور وہ اپنی چارپائی پر مردہ حالت میں پڑا تھا۔ صبح جب گل نسیم کی آنکھ
کھلی تو اس نے گل خان کو کہا۔ ’’اٹھیں اب‘‘ دیکھیں دن اُتر آیا ہے۔‘‘ مگر
کوئی جواب نہیں۔ گل نسیم اپنے شوہر کی چارپائی کے قریب گئی اور اس کا ہاتھ
پکڑ کر بولی:
’’جاگ جائیں۔‘‘ اس کی بیوی کو گل خان کا ہاتھ برف سے زیادہ ٹھنڈا لگا تو وہ
اچانک بولی : کیا ہوا آپ کو؟‘‘ مگر جواب ندارد۔
پھر گل نسیم گھنٹوں گل خان کے سرہانے بیٹھی روتی رہی۔ عائشہ اٹھی تو ماں نے
اسے کہا: ’’ادھر آؤ عائشہ‘‘ وہ پاس آئی۔ اس کی ماں بولی: ’’دیکھو تمہارے
ابا ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں‘‘ یہ کہتے ہی گل نسیم رونے لگ گئی۔ عائشہ جو
چھوٹی سی پانچ سال کی بچی تھی ماں کی بات کو سمجھ نہ سکی اور اپنی بکری کے
قریب چلی گئی۔ سات ہزارفٹ کی بلندی پر گل نسیم اکیلی تھی، وہ نہیں جانتی
تھی کہ اب وہ کیا کرے۔ اچانک سے ان کا دروازہ کھٹکا وہ ڈر گئی۔ کیونکہ اتنی
بلندی پر ان کا کوئی جاننے والا نہیں تھا اور سیاح بھی کم ہی اوپر آتے تھے۔
پھر یکدم سے اسے خیال آیا کہ شاید کوئی سیاح ہی ہو۔ اس نے دروازہ کھولا تو
دیکھا کہ ایک نوجوان سردی میں شدید کانپ رہا تھا۔ دروازہ کھلتے ہی وہ بنا
اجازت جلدی سے اندر داخل ہوگیا۔ گل نسیم نے اس کے اندر آتے ہی فوراً دروازہ
بند کر دیا تاکہ سردی سے بچا جاسکے۔ گل نسیم اب پریشان بھی تھی اور ساتھ ہی
ساتھ مطمئن بھی تھی۔ پریشان اس وجہ سے تھی کہ گل خان کی لاش بستر پر پڑی
تھی۔ وہ گل خان جو ان کا واحد سہارا تھا اور مطمئن اس واسطے تھی کہ شائد اﷲ
نے اس کی مدد کے لیے کسی کو اس کی طرف بھیجا ہو تاکہ گل خان کی تدفین
ہوسکے۔
گل نسیم نے اس نوجوان کو بیٹھنے کا کہا اور جلدی سے کیتلی میں سے گرم قہوہ
ڈال کر اسے ہاتھ میں تھما دیا۔ نوجوان قہوہ پینے کے بعد اپنے آپ کو پرسکون
محسوس کرنے لگا۔ گل نسیم اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی :
’’تم کون ہو؟‘‘ یہاں کیسے پہنچے ہو؟‘‘ اجنبی نوجوان نے گل نسیم کو بتایا کہ
وہ اپنے گروپ کے ساتھ اوپر پہاڑوں پر آیا تھا اور راستے میں اپنے گروپ
والوں سے جدا ہوگیا تھا۔ اسے نہیں معلوم کہ اس کا باقی گروپ کہاں ہے اور کس
حالت میں ہے وہ بولا: ’’میں تو بس اس چھوٹے سے گھر کو دیکھ کر ادھر آگیا
ہوں، اور اب اکیلا ہوں۔‘‘ پھر اس اجنبی نوجوان نے پوچھا:
’’وہ چارپائی پر کون لیٹا ہے؟‘‘ اس کی یہ بات سنتے ہی نسیم رو پڑی اور بولی
’’وہ میرے میاں ہیں‘‘ اور چپ ہوگئی۔ اچانک اجنبی بولا: ’’آپ رونے کیوں لگی
ہیں؟ ’سب خیریت تو ہے؟‘‘
گل نسیم بولی : ’’گل خان پچھلی رات شدید سردی برداشت نہیں کرسکا اور ہمیں
چھوڑ گیا ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی وہ بولا: ’’مجھے معاف کیجئے گا مجھ سے غلطی
ہوگئی ہے۔‘‘ وہ بولی: ’’نہیں کوئی بات نہیں‘‘ پھر اجنبی نوجوان نے گل خان
کو غسل دیا اور ان کے گھر کے باہر والے صحن میں دفنا دیا۔ گل نسیم اب اتنی
بلندی پر عائشہ کے ساتھ اکیلی تھی، اور اب وہ نہیں جانتی تھی کہ کیا کرے۔
نوجوان راستہ بھولا ہوا تھا اور گل نسیم سارے راستوں سے واقف تھی۔ ادھر برف
تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی، گھنٹہ رکتی تو دو گھنٹے پڑتی تھی۔ گل نسیم
نے اجنبی نوجوان سے رکنے کو کہا اور اس سے وعدہ کیا کہ برف رکتے ہی وہ اسے
نیچے وادی کا راستہ بتا دے گی۔ اجنبی بھی راضی ہوگیا تھا۔ وہ گل نسیم کے
ہاں دو دن رکا تھا، اس دوران عائشہ اس کی اچھی دوست بن چکی تھی۔ آخر نوجوان
نے تیسرے دن گل نسیم سے اسے پہاڑوں سے نیچے لیے جانے کا کہا تاکہ وہ واپس
اپنے گھر لوٹ سکے گل نسیم مان گئی۔ پر چھوٹی عائشہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا
دوست چلا جائے۔
وہ رونے لگی جس پر نسیم نے اسے کہا ’’عائشہ رو مت‘‘ تمہارے دوست کل دوبارہ
آئیں گے، ابھی انہیں کام سے نیچے وادی تک جانا ہے۔‘‘ نوجوان نے گل نسیم کی
طرف دیکھا اور مسکرانے لگا۔ دو دن کے دوران گل نسیم او ر اجنبی نوجوان نے
ناصرف ایک دوسرے کی مدد کو پسند کیا بلکہ ایک دوسرے کو بھی پسند کرنے لگے
تھے اور اب عائشہ نوجوان کے رکنے کا ایک اور بہانہ بن گئی تھی۔ عمیر پہاڑوں
پر رہنے کا پہلے سے ہی شوقین تھا۔ وہ ہر سیزن برف باری دیکھنے آیا کرتا تھا
اور اس کی یہ دلی خواہش تھی کہ اس کا پہاڑوں پر گھر ہو، جہاں ٹریفک کا
دھواں اور ہارن بجاتی گاڑیوں کی آوازیں اس کے کانوں تک نہ پہنچ سکیں۔ اس کی
یہ خواہش پوری ہوگئی تھی۔ اب وہ چاروں گل نسیم، عمیر (اجنبی) عائشہ اور ان
کی بکری سات ہزار کی بلندی پر رہنے لگے تھے عمیر اُنہیں سیب، آلو بخارے اور
اخروٹ کے درختوں کی طرف روز جایا کرتا تھا اور وہاں سے سوکھی لکڑیاں لیے
آیا کرتا تھا۔ وہ مہینے میں ا یک بار نیچے وادی میں جا کر لکڑیاں بیچ آیا
کرتا تھا۔ سردی کم ہوئی تو سورج اپنی جھلک دکھلانے لگ گیا۔ عائشہ سارا دن
اپنی بکری سے کھیلا کرتی تھی۔ جب سے عمیر ان کے گھر آیا تھا تب ہی سے سیاح
بھی اوپر آنے لگے تھے اور گل خان کی وہ ٹوکری جسے لے کر وہ باہر بیٹھا کرتا
تھا اب اکثر سامان سے خالی رہتی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد گل نسیم کے ہاں بیٹے
کی پیدائش ہوئی تو ان کے گھر میں مزید خوشیاں آگئیں۔
|