شیخ شرف الدین سعدیؒ ایک حکایت
میں تحریر کرتے ہیں کہ بارش کا زور تھا اور تیز بارش کے عالم میں ایک مسافر
بھاگتا ہوا پناہ کی غرض سے مسجد میں جا گھسا اس کے کپڑے گیلے اور پاؤں مٹی
سے بھرے ہوئے تھے جب وہ مسجد میں داخل ہونے لگا تو ایک نمازی نے اسے دیکھ
لیا اور کہنے لگا ارے بھائی اگر مسجد میں آنا ہے تو پہلے اپنی حالت تو ٹھیک
کرو اس طرح گیلے کپڑے اور گندے پاؤں لے کر مسجد میں داخل نہیں ہوتے یہ بات
اس آدمی کی عقل میں پڑ گئی اس نے سوچا کہ جب کوئی گندی حالت میں مسجد میں
نہیں جا سکتا تو بھلا ایک گنہگار جنت میں کس طرح جا سکتا ہے اسی بات پر اس
کی زندگی بدل گئی اور وہ ایک نیک اور زاہد انسان بن گیا۔
قارئین! آج براہ راست موضوع کی طرف چلتے ہیں گزشتہ ہفتے پاکستان کے انتہائی
شیر دل قسم کے ’’شیر کے انتخابی نشان والی ‘‘ مسلم لیگ ن کے وزیر مملکت
عابد شیر علی نے ایک دھواں دھار قسم کی پریس کانفرنس کی تمام پرنٹ و
الیکٹرانک میڈیا نے اس پریس کانفرنس کی ’’بریکنگ نیوز‘‘ اور لال پٹیوں
کیساتھ کوریج کی بجلی کے انتہائی سنگین بحران کے حوالے سے گفتگو کرتے
ہوئے’’ شیر کے نشان والی‘‘ مسلم لیگ ن کے شیر دل رہنما عابد شیر علی نے جو
اعداد وشمار قوم کے سامنے رکھے انہیں دیکھ کر سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ دل کو
روئیں یا جگر کو پیٹیں اعداد وشمار کے مطابق پاکستان بھر کے مختلف سنجیدہ
اور ذمہ دار ادارے اور عوام واپڈا کے پانچ سو ارب سے زائد کے مقروض ہیں اور
صرف سرکاری ادارے ایک سو دس ارب سے زائد کی رقم دبائے بیٹھے ہیں مختلف
صوبائی حکومتوں کا تذکرہ کرتے کرتے ’’شیر کے نشان والی‘‘ مسلم لیگ ن کے شیر
دل رہنما عابد شیر علی نے توپوں کا رخ اچانک کشمیر کی طرف کیا اور اہل
کشمیر کی وطن عزیز کی خاطر دی گئی تمام قربانیوں کو فراموش کرتے ہوئے انہوں
نے ارشاد فرمایا کہ آزاد کشمیر حکومت نے واپڈا کے 33 ارب روپے کے بقایا جات
دینے ہیں اور اگر یہ بقایا جات ادا نہ کیے گئے تو آزاد کشمیر کی بجلی’’کٹ‘‘
کر دی جائیگی۔ گرمی گفتار میں گرمیوں کے آغاز میں ہی اس انتہائی گرم گفتگو
کو سنتے ہوئے ہمارا دل تو چاہا کہ ہم اپنے گھر کی چھت پر چڑھ جائیں ارد گرد
سے گزرتی ہوئی بجلی کی تاروں اور مختلف ٹرانسفارمر ز کو مخاطب ہو کر
’’بوکاٹا‘‘ کا نعرہ مستانہ دہرانا شروع کر دیں لیکن ’’عزتِ انصار ‘‘ کو
ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہم نے خود کو قابو کیا اور ایسا نہ کیا یہاں ایک
لطیفہ یاد آگیا جنگل کا بادشاہ شیر اپنی کچھاڑ میں آرام کر رہا تھا کہ
اچانک جنگل میں شور کی آواز آئی اور ایک چوہا دوڑتا ہوا شیر کی کچھاڑ میں
گھسا اور شیرسے آ ٹکرایا شیر کی آنکھ کھل گئی اور اس نے دھاڑتے ہوئے غصے سے
چوہے سے پوچھا کہ کیا بات ہے تمہاری جرات کیسے ہوئی کہ میری نیند کو خراب
کرو چوہے نے ادب سے جواب دیا بادشاہ سلامت! آپ بھی بھاگیں جنگل میں فوج
آگئی ہے بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا تو اس میں ڈرنے والی کون سی بات ہے اس
پر چوہے نے جواب دیا کہ یہ فوج جس علاقے سے آئی ہے وہاں کی فوج کا قانون ہے
کہ جنگل میں جس جانور کی بھی دم ایک فٹ سے لمبی ہوتی ہے اس کی دم کاٹ دی
جاتی ہے اس پر شیر ہنسا اور کہنا لگا چوہے میاں تمہارا پورا وجود ایک فٹ کا
نہیں ہے رہی تمہاری دم تو وہ تو بہت ہی چھوٹی ہے تمہیں کس بات کا خطرہ ہے
چوہے نے ادب سے سرجھکایا اور تاریخی جواب دیا بادشاہ سلامت! اس فوج کا پہلا
قانون یہ ہے کہ یہ دم پہلے کاٹتے ہیں اور ناپتے بعد میں ہیں۔
قارئین! ہمیں ایسا ہی محسوس ہوا ہے کہ’’شیر کے نشان والی‘‘ مسلم لیگ ن کے
شیر دل رہنما عابد شیر علی اس وقت اتنے غصے اور جلال میں ہیں کہ یہ آزاد
کشمیر کی بجلی پہلے کاٹیں گے اور ’’قرضے کی دم‘‘ بعد میں ناپیں گے کہ آزاد
کشمیر نے 33 ارب روپے قرضہ دینا ہے یا وفاق اور واپڈا سے منگلا ڈیم کی
رائلٹی کی مد میں کچھ لینا ہے۔بقول غالب ہم یہ کہتے چلیں کہ
کیوں جل گیا نہ تابِ رخِ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر
آتش پرست کہتے ہیں اہلِ جہاں مجھے
سرگرمِ نالہ ہائے شرر بار دیکھ کر
کیا آبروئے عشق جہاں عام ہو جفا
رکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر
آتا ہے میرے قتل کو پرجوشِ رشک سے ہے
مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر
بک جاتے ہیں ہم آپ متاعِ سخن کیساتھ
لیکن، عیارِ طبعِ خریدار دیکھ کر
سرپھوڑنا وہ غالبِ شوریدہ حال کا
یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر
قارئین اس حوالے سے ہم نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کے لیے ریڈیو
آزاد کشمیر ایف ایم 93 میرپور کے اسٹیشن ڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل کی
خصوصی ہدایت پر ایک علمی مذاکرہ رکھا جس میں مختلف شخصیات نے شرکت کی۔
استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان حسب معمول ہمارے ساتھ تھے۔
اس سلسلہ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل کمرشل محکمہ برقیات
حکومت آزاد کشمیر عابد اعوان نے کہا کہ قومی میڈیا پر آزاد کشمیر حکومت کے
متعلق 33 ارب روپے کے بقایا جات کی خبر درست نہیں ہے وزیر مملکت بجلی و
پانی عابد شیر علی نے جو اعداد وشمار دیئے ہیں ہمارا موقف یہ ہے کہ ان میں
نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ہمارے حساب کتاب کے مطابق ہم واپڈا کے تمام
بقایا جات ادا کر چکے ہیں اور اس وقت حکومت آزاد کشمیر کا 110 ملین روپے
کامقروض ہے پاکستان اور آزاد کشمیر بھرمیں گرمیاں شروع ہوتے ہی بجلی کی طلب
میں تیزی کیساتھ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے پورے ملک میں دس سے سولہ گھنٹے
لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو مشکل حالات میں متحد ہو
کر مقابلہ کرتی ہیں اور قربانی کا جذبہ رکھتی ہیں آزاد کشمیر میں منگلاڈیم
ریزنگ کے بعد بجلی کے ٹیرف کے معاملہ پر واپڈا اور وفاقی حکومت کیساتھ
مذاکرات جاری ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نہ تو واپڈا کے مقروض ہیں اور نہ ہی
ہم نے بجلی کے استعمال کے حوالے سے کسی بھی قسم کا بوجھ ناروا انداز میں
قومی اداروں پر ڈالا ہے آزاد کشمیر کے متعلق 33 ارب روپے یا 24 ارب روپے کے
بقایا جات کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے بے
شک ابھی تک سرکاری موقف سامنے نہیں آیا لیکن ایک ذمہ دار پوسٹ پر بیٹھ کر
انتہائی ذمہ داری کیساتھ بتا رہا ہوں کہ حکومت آزاد کشمیر پر بجلی کی مد
میں واپڈا کا قرض نہیں ہے ایف ایم 93 ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول ترین
پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری‘‘ میں سابق سیکرٹری آزاد حکومت
محمداقبال رتیال ممبر ہائیڈرو الیکٹرک بورڈ اور سابق صدر جموں کشمیر پیپلز
پارٹی و سابق وائس چیئرمین آزاد جموں وکشمیر بار کونسل سید نشاط کاظمی
ایڈووکیٹ نے بھی شرکت کی ایکسپرٹ کے فرائض سینئر صحافی راجہ حبیب اﷲ خان نے
انجام دیئے سابق سیکرٹری آزاد حکومت محمداقبال رتیال ممبر ہائیڈرو الیکٹرک
بورڈ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر میں 1972 میں بجلی
کے صرف 13 ہزار کنکشن تھے جو آج 2014 میں پانچ لاکھ سے تجاوز کر چکے ہیں اس
وقت بجلی کی طلب آزاد کشمیر بھر میں پانچ میگا واٹ سے کم تھی آج بجلی کی
طلب آزاد کشمیر میں چار سو میگا واٹ کے قریب ہے میرپور میں منگلا ڈیم میں
مشینری پرانی ہے اور یہ اپنی عمر پوری کر چکی ہے 1210 فٹ پانی کا لیول حاصل
کرنے کے بعد بجلی کی پیداوار منگلا ڈیم میں ایک ہزار میگا واٹ تک جا پہنچتی
ہے جو آج کل آٹھ سو میگا واٹ کے قریب ہے بین الاقوامی برادری اور مختلف
مالیاتی اداروں نے منگلاڈیم کی مشینری کو اپ گریڈ کرنے کے لیے آسان شرائط
پر بھاری قرضے دیئے ہیں اور آج کل جدید ترین مشینری منگلا ڈیم میں نصب کی
جا رہی ہے جس کے بعد بجلی کی پیداوار تیرہ سو میگاواٹ تک جا پہنچے گی محمد
اقبال رتیال نے کہا کہ نیلم جہلم جاگراں ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سمیت آزاد
کشمیر بھر میں مختلف آبی گزرگاہوں پر 2000 میگاواٹ کے قریب بجلی کے
پیداواری منصوبے زیر تکمیل ہیں اور یہ بات سمجھنے کے لائق ہے کہ بجلی کے
بحران کی اس کیفیت میں پوری قوم کو مل جل کر حکومت کا ساتھ دینا ہو گا۔
برطانیہ میں کچھ عرصہ قبل یہ سروے ہوا تھا کہ اگر پورے ملک بجلی بچانے کے
سلسلہ میں صرف ٹیلی ویژن کو ریموٹ کنٹرول سے آف کرنے کی بجائے بجلی کا سوئچ
بند کر دیا جائے تو اتنی بجلی کی بچت ہو سکتی ہے کہ جس سے پورے لندن کی
سڑکوں اور گلیوں میں چراغاں کیا جا سکتا ہے بدقسمتی سے ہمارے ملک میں
حکمران طبقات سے لیکر عوام تک کوئی بھی اپنی اپنی طاقت کے مطابق اپنی اپنی
ذمہ داری ادا نہیں کر رہا سرکاری اداروں اور گھروں کے اندر اگر ہم بجلی
بچانا چاہیں تو ہزاروں میگا واٹ بجلی چھوٹے چھوٹے اقدامات سے بچائی جا سکتی
ہے ہم اسوقت موم بتی کو دونوں طرف سے روشن کر کے بدترین اسراف کے مرتکب ہو
رہے ہیں محمد اقبال رتیال نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ کمرشل سنٹرز سے
لیکر سرکاری دفاتر تک اور ہر گھرمیں بجلی بچانے کے لیے ہر کوئی اس کام کو
قومی ذمہ داری سمجھے آزاد کشمیر میں بجلی کے بل ادا کرنے کی شرح 86 فیصد کے
قریب ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 73 فیصد ہے اسی طرح آزاد کشمیر کا 96فیصد
علاقہ بجلی سے مستفید ہو رہا ہے جبکہ پاکستان کا 43 فیصد رقبہ بجلی کے نظام
سے منسلک ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر حکومت آزاد کشمیر مناسب منصوبہ
بندی کرتے ہوئے پچاس میگاواٹ تک کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس شروع کرے اور
مختلف مالیاتی ادارے مالیاتی ضمانت کے بعد فنڈنگ بھی کریں تو پانچ سال کے
اندر آزاد کشمیر میں کئی ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہونا شروع ہو جائیگی اس کے
لیے اچھی منصوبہ بندی اور نیک نیتی کی ضرورت ہے۔ سابق صدر جموں وکشمیر
پیپلز پارٹی و سابق وائس چیئرمین آزاد جموں وکشمیر بار کونسل سید نشاط
کاظمی ایڈووکیٹ نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اہل میرپور کے ساتھ
ہر دور میں دھوکہ کیا گیا ہے منگلا ڈیم بناتے وقت معاہدہ منگلا ڈیم نامی
ایک دستاویز تحریر کی گئی جس میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اہلیان میرپور کو
پاکستان کو روشن کرنے کے لیے ملک کیلئے کی جانیوالی نقل مکانی کی قربانی کے
اعتراف میں بجلی بھی مفت دی جائیگی اور تمام شہری سہولیات سبسڈی کیساتھ
مہیا کی جائیں گی لیکن انتہائی افسوس کیساتھ ہمیں یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایک
لینٹ آفیسر جو وفاق کے نمائندے تھے انہوں نے کشمیریوں کیساتھ دھوکہ کرتے
ہوئے یہ دستاویز ریکارڈ سے غائب کر دی اور آج صورتحال یہ ہے کہ اہل میرپور
کے سامنے پاکستان کا سب سے بڑا آبی ذخیرہ موجود ہے جس کے نیلگوں پانیوں کے
نیچے ان کے آباؤ اجداد کی قبریں اور یادیں دفن ہیں اور ستم ظریفی کی انتہا
کہیے کہ قربانیوں صلہ دینے کی بجائے جفاؤں کے نئے نئے ریکارڈز قائم کیے جا
رہے ہیں اس وقت میرپور میں ایک بہت بڑی تحریک جنم لے رہی ہے جس کا بنیادی
مطالبہ یہی ہے کہ میرپور اور آزاد کشمیر کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ
قرار دیا جائے منگلا ڈیم کی آمدن کا جائز حصہ میرپور پر خرچ کیا جائے
شہریوں کو زندگی کی تمام بنیادی سہولیات اور ضروریات سبسڈی کیساتھ دی جائیں
اہل میرپور نے ہمیشہ وطن عزیز کی خاطر قربانیاں دی ہیں اور آئندہ بھی
قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں لیکن اہل میرپور اپنے جائز حقوق سے دستبردار
ہر گز نہیں ہونگے ہمیں تیسری دفعہ مجبور نہ کیا جائے کہ ہم علامتی طور پر
احتجاج کرتے ہوئے ہزاروں کا اجتماع لے کر منگلا پاور ہاؤس کی جانب چل دیں
اس موقع پر منیر احمد میرپوری نے چکسواری سے پروگرام میں شرکت کرتے ہوئے
کہا کہ اہل میرپوراور اہل کشمیر کیساتھ زیادتیوں کی بنیادی وجہ ہماری
انتہائی لائق اور بزدل قیادت ہے جو وفاق کے سامنے ہمارا جائز کیس بھی درست
طریقے سے پیش نہیں کر سکتی اگر صوبہ خیبر پختونخواہ، صوبہ سندھ، صوبہ پنجاب
اور صوبہ بلوچستان کی سیاسی قیادت اپنے اپنے لوگوں کے لیے جائز مطالبات کے
لیے احتجاج کر سکتی ہے تو کشمیری قیادت کو سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے ۔ ایسے
بے غیرت اور بزدل لوگوں کو قیادت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے جو اپنے
مفادات کے لیے تو شب وروز کام کرتے ہیں لیکن مفادعامہ کے لیے بات کرتے وقت
یہ لوگ گونگے بن جاتے ہیں
قارئین! یہ تو اس گفتگو کا خلاصہ تھا جو ریڈیو آزاد کشمیر کی سرکاری سیٹ پر
بیٹھ کر ہم نے انتہائی احتیاط کیساتھ کی اور حد ادب کو ملحوظ خاطر رکھا
مزید حقائق جاننے کے لیے ہم نے آزاد کشمیر کے سب سے پہلے لائیو ویب ٹی وی
کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی کا سہارا لیا خصوصی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے دو
نئے مہمانوں نے ہم سے بات کی سیکرٹری برقیات و ہائیڈرو الیکٹرک بورڈ آزاد
کشمیر منیر قریشی نے کفتگو کرتے ہوئے کہاکہ آزاد کشمیر حکومت نے واپڈا اور
وفاقی حکومت کا بجلی کی مد میں کوئی پیسہ نہیں دینا بلکہ الٹا واپڈا اور
وفاقی حکومت کے ذمہ آزاد کشمیر حکومت کے بہت سے بقایا جات باقی ہیں جس ٹیرف
کے تحت آزاد کشمیر کے متعلق 33 ارب روپے قرضے کی بات کی گئی ہے وہ درست
نہیں ہے اس سلسلہ میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور وزیر برقیات فیصل
ممتازراٹھور کی ہدایات کی روشنی میں وفاقی حکومت سے رابطہ کیا جا رہا ہے
تاکہ ریکارڈ کی درستگی کی جا سکے 2001 سے لے کر 2014 تک ہم ہر سہ ماہی میں
وفاقی حکومت اور واپڈا کی طرف سے جو بھی رقم بنتی ہے اس کی ادائیگی
باقاعدگی سے کر رہے ہیں وفاقی وزیر مملکت عابد شیر علی نے قومی میڈیا پر
آزاد کشمیر کے متعلق جو اعداد وشمار پیش کیے ہیں وہ درست نہیں ہیں منگلا
ڈیم ریزنگ کے بعد نئے معاہد ے کے تحت واپڈا واٹر یوز چارجز اور منگلا ڈیم
رائلٹی کی مد میں آزاد کشمیر حکومت کا مقروض ہے اس سلسلہ میں درجنوں میٹنگز
ہو چکی ہیں اور ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے آزاد
کشمیر کے سب سے پہلے ویب ٹی وی چینل کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی کے مقبول ترین
پروگرام لائیو ٹاک ود جنید انصاری اینڈراجہ حبیب اﷲ خان میں گفتگو کے دوران
کیا۔ پروگرام میں مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے رہنما مظفرآباد سے ممبر قانون
ساز اسمبلی بیرسٹر افتخار گیلانی نے بھی گفتگو کی منیر قریشی نے کہا کہ
آزاد کشمیر میں کئی ہزار میگا واٹ کا ہائیڈرو پاور پوٹینشل موجود ہے اور اس
وقت نیلم جہلم جاگراں پاور پراجیکٹ، گلپور پاور پراجیکٹ سمیت دو ہزار میگا
واٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے اور آنے والے چند
ماہ میں مزید بڑے بڑے پراجیکٹس بھی شروع ہو رہے ہیں اس حوالے سے چینی کمپنی
کیساتھ بھی ہم نے معاہدہ کر لیا ہے آزاد کشمیر کا اخلاقی استحقاق بنتا ہے
کہ صرف 380 میگاواٹ بجلی فراہم کر کے آزاد کشمیر کو لوڈ شیڈنگ فری زون بنا
دیا جائے اور اہل کشمیر و اہل میرپور کی وطن کے لیے قربانیوں کا درست معنوں
میں اعتراف کیا جائے اس حوالے سے ہم نے واپڈا اور وفاقی حکومت کو تحریری
طور پر مکتوب بھی لکھا ہے اور امید ہے کہ اس سلسلہ میں جلد ہی مثبت پیشرفت
ہو گی ممبر قانون ساز اسمبلی و رہنما مسلم لیگ ن آزاد کشمیر بیرسٹر افتخار
گیلانی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے قائد میاں محمد نواز شریف نے ملک
کا سب سے بڑا مسئلہ انرجی کے بحران کو قرار دیا ہے اور اس سلسلہ میں
ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے تمام پراجیکٹس پر ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کو ترجیح
دی ہے افسوس ناک ترین امر یہ ہے کہ پورے پاکستان اور آزاد کشمیر میں بجلی
کی چوری عروج پر ہے اور بااثر مافیاز سے لیکر ہر شہری جو بددیانت ہے وہ
اپنے اپنے اختیار کے مطابق بجلی چوری کرتا ہے اور بجلی کی اس چوری کو لائن
لاسز کا نام دیدیا جاتا ہے آزاد کشمیر میں بجلی کی چوری کی شرح 40 فیصد تک
ہے اور یہ تمام کا تمام بوجھ یا تو ایک عام غریب صارف پر ڈال دیا جاتا ہے
اور یا پھر حکومت کو اپنی جیب سے اس چوری کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے
اس سلسلہ میں محکمہ برقیات کے ملازمین کو درست راستے پر رکھنے کے لیے آزاد
کشمیر کے عدالتی نظام میں اصلاحات متعارف کرانا انتہائی ضروری ہے اور اس کے
لیے ظاہر ہے کہ قانون ساز اسمبلی میں ممبران اسمبلی کو کام کرنا ہو گا جب
تک ہم ایک موثر اور طاقتور عدلیہ کو سامنے نہیں لائیں گے تب تک معاشرتی
برائیوں کا خاتمہ ناممکن ہے آزادکشمیر کی عدالتیں اپنی بساط کے مطابق بے
انتہاء محنت کر رہی ہیں لیکن یہ عام مشاہدہ ہے کہ ایک ایک معزز جج کے پاس
سو سو کیس زیر سماعت ہیں اور یہ انسانی اختیار سے باہر ہے کہ جلدی فیصلے
کیے جا سکیں بیرسٹر گیلانی نے کہا کہ وفاقی وزیر مملکت عابد شیر علی نے
قومی میڈیا پر تمام بڑے بڑے اداروں اور مختلف صوبائی حکومتوں کے بجلی کے
قرضہ جات کے بارے میں جو حقائق پیش کیے ہیں ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے
کہ وفاقی حکومت کتنے مشکل حالات میں کام کر رہی ہے کرپشن ختم کر کے ہی ہم
ترقی کے راستے پر گامزن ہو سکتے ہیں۔
قارئین! ہمارا پختہ ایمان اور عقیدہ ہے کہ پاکستان کشمیریوں کا سب سے بڑا
وکیل ہے افواج پاکستان نے کشمیر کی خاطر ہزاروں جانوں کی قربانیاں پیش کی
ہیں پاکستان کشمیر ہی کی خاطر دو لخت ہوا اور آج بھی کشمیر کا نام سن کر
بیس کروڑ پاکستانی تڑپ اٹھتے ہیں کشمیر کی خاطر ذوالفقار علی بھٹو شہید نے
پیپلز پارٹی بنائی تھی اور میاں محمدنواز شریف وزیراعظم پاکستان بھی کشمیری
النسل ہیں ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ کشمیریوں کی تمام قربانیوں کو بھی
سمجھ کر کشمیریوں کے متعلق کسی قسم کی گفتگو اور فیصلے کیے جائیں گے بیشک
پاکستان بجلی کے بہت بڑے بحران سے گزر رہا ہے لیکن اہل کشمیر اور اہل
میرپور نے پاکستان کو روشن کرنے کی خاطر بے انتہا قربانیاں دی ہیں منگلا
ڈیم بنانے کے لیے دی جانیوالی قربانی کوئی چھوٹی قربانی نہیں اسے بے توقیر
نہ کیا جائے آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک سردار جی نے ایک بکری خریدی اور اپنے بیڈ روم میں چارپائی کیساتھ باندھ
دی
کسی دوست نے شرارتاً پوچھا
’’سردار جی بدبو کا کیا ہو گا ‘‘
سردار جی نے بے نیازی سے جواب دیا
’’او کوئی گل نہیں ہفتے وچ ہی عادی ہو جائیگی‘‘
قارئین! اہل کشمیر بھی جن جفاؤں سے گزر رہے ہیں شاید یار لوگ یہ چاہتے ہیں
کہ ہم بھی ان جفاؤں کے عادی ہو جائیں ان لوگوں کی بیخ کنی ضروری ہے جو
کشمیر اور پاکستان کے اٹل رشتوں کو غلط فہمیوں کے ذریعے کمزور کرنے کی کوشش
کر رہے ہیں۔ |