ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی تصنیف’’یادوں کی مالا‘‘ اکرام الحق کی نظر میں

ڈاکٹررئیس احمد صمدانی کی کتاب’’ یادوں کی مالا‘‘مختلف شخصیات کے بارے میں ان کے تاثرات ،افکار اور انعکاسات کا مجموعہ ہے اس کتاب کوالفیصل ناشران وتاجران کتب ،لاہورنے جولائی۲۰۰۹ء میں شائع کیاکتاب پر۳۵۰روپے قیمت درج ہے۔کتاب میں ۲۵ شخصیات پر مشتمل ابواب ۲۴۴صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں ۔پندرہ شخصیات کا تعلق براہ راست لائبریرین شپ کے پیشے سے ہیں۔جو اس مقدس پیشے کا قیمتی اثاثہ ہیں۔مصنف نے اعتراف کیا ہے کہ یہ مضامین گذشتہ تیس برس میں لکھے گئے اور وقتاً فوقتاً مختلف رسائل و جرائد کی زینت بنتے رہے۔ مصنف ایک کہنہ مشق لائبریرین اور منجھاہوا لکھاری ہے ۔ ۱۵مارچ ۱۹۴۹ء کو ضلع وہاڑی کے علاقے میلسیـ میں پیداہوئے ان کے والد انیس احمد صمدانی اسی سال بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ مصنف نے حاجی عبداﷲ ہارون کالج سے ۱۹۷۰ء میں بی اے کیا۱۹۷۲ء میں کراچی یونیورسٹی سے لائبریری سائنس میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۸۵ء میں اسی یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔حکیم محمد سعید کی لائبریری خدمات پر تحقیقی مقالہ لکھنے پر ۲۰۰۹ء میں مصنف کو ہمدرد یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ )پی ایچ ڈی(کی ڈگری سے نوازا۔ان کی یہ تحقیق پروفیسر نعیم الدین زبیری اور پروفیسر غنی الاکرم سبزواری کی زیر نگرانی تکمیل کو پہنچی۔پیشہ وارنہ زندگی کا آغاز ۱۹۷۳ ء میں گور نمنٹ سپیرئیر کالج کراچی سے کیا۔ ۱۹۷۴ء سے ۱۹۹۷ء تک حاجی عبداﷲ ہارون کالج کراچی میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ۱۹۹۷ء میں (BPS-19)گور نمنٹ کالج فار مین ناظم آباد کراچی میں آئے اور یہیں سے ریٹائر ہوئے ۔لائبریرین شپ کے ساتھ مختلف تعلیمی اداروں میں لائبریری سائنس مضمون کے طور پر بھی پڑھاتے رہے ہیں ۔۹۷۔۱۹۹۵ء کے دوران کراچی یونیورسٹی میں شعبہ لائبریری سائنس میں جزوقتی تدریس کے فرائض سرانجام دئیے۔ پاکستان ببلیوگرافیکل ورکنگ گروپ کے لائبر یری سکول میں بھی ایک عرصے تک تدریس کرتے رہے ۔یونیورسٹی آف سرگودھا کے شعبہ لائبریری سائنس میں ایسو سی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

ڈاکٹررئیس احمد صمدانی صاحب تیس سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں بیشتر کا تعلق لائبریرین شپ سے ہیں ۔ ان کے ۲۵۰سے زیادہ مضامین شائع ہوچکے ہیں ۔پاکستان لائبریری انفارمیشن سائنس جرنل کے ایسوی ایٹ چیف ایڈیٹر رہے۔ بے شمار پیشہ وار ،تعلیمی اور سماجی تنظیموں کے نہ صرف ممبررہے بلکہ ان میں انتظامی عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں ۔پاکستان لائبریری ایسوی ایشن سندھ برانچ کے صدربھی رہ چکے ہیں ۔پروفیسرانیس خورشید نے صمدانی صاحب کو’’ دھن کے پکے لائبریرین ‘‘کے خوبصورت الفاظ سے نوازاہے۔ یہ بات تو صاحب کتاب کی تھی اب آتے ہیں کتاب کی طرف جس میں مصنف نے یاد کے ایک ایک موتی کو لفظوں کی مالا میں پرو یاہے ۔

کتاب کا پہلا مضمون حکیم محمد سعید شہید کی قد آور شخصیت پر لکھاگیا ہے جنہیں مصنف کتاب اور کتب خانوں کا شیدائی قرار دیتے ہیں۔ دوسرا مضمون عالم اسلام کے نامور ماہرتعلیم ڈاکٹر طلحہ حسین پرہے ۔ جنہیوں نے بصارت سے محروم ہونے کے باوجود تعلیم کے میدان میں عظیم کارنامے سرانجام دیئے ۔تیسرا مضمون حاجی سر عبداﷲ ہارون پر لکھا ہے،جو قائداعظم کے قریبی ساتھی ہونے کے ساتھ سندھ کی معروف سیاسی اور سماجی شخصیت ہیں۔ چوتھا مضمون شیح محمد ابراہیم آزاد کی محترم شخصیت پر ہے ۔اس مضمون میں آزاد ؔکے سوانحی خاکے کے ساتھ ان کی نعتیہ شاعری پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔ کتاب میں موجود تیرھواں مضمون آزادصاحب کے پوتے اور نعت گو شاعر تابش صمدانی صاحب پر لکھا گیاہے جس میں ان کے عشق رسول ﷺ اور نعتیہ شاعری کی تفصیل درج ہے مصنف نے کتاب میں اُن قابل توجہ مگر گمنام لوگوں کو اپنے قلم کی تحریرسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زند ہ کردیا ہے جنہوں نے مصنف کو کسی نہ کسی طرح متاثر کیا۔جس میں محبوب احمد سبزواری جو مصنف کے ماموں ہے ۔مشکور احمد صاحب ،یہ بھی مصنف کے رشتہ دار ہے مگر انتہائی خود دار اور ہمت والے انسان۔ایک درویش صفت اور ولی کامل سیدامام کا تذکرہ بھی موجود ہے جو عملیات کے ذریعے جنات کا توڑ کرتے تھے ۔مصنف نے اپنے بچپن کا ایک واقعہ لکھاہے جس میں کسی جن سے ملاقات کا حوالہ بیان کیا گیاہے ۔، شیخ لئیق احمدمصنف کے قریبی رشتہ دار ہے جن کی زندگی نشیب وفراز کی داستان ہے۔ منظور احمد بٹ ،ایک مخلص سماجی کارکن،جن کی زندگی کا مقصد اوروں کے کا م آناہے۔ان شخصیات پرلکھے گئے یہ اولین مضامین ہیں۔ مصنف
نے اپنے قلم کی طاقت اور جذبے کی حرارت سے ان شخصیات کوہمیشہ کے لئے زندہ کردیاہے۔

بحیثیت ایک شاگرد کے اپنے استاد پروفیسر ڈاکٹر عبدالمعید کوزبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں دنیائے لائبریرین شپ کی ایک عہد ساز شخصیت کہاہے۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس خورشید ،صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کے خطوط ، یاداشتیں اور تاثرات کو بھی کتاب کی زینت بنایا۔ نرم دل،ہمدرد اور صلہ رحمی کرنے والے کراچی یونیورسٹی کے سابق لائبریرین جناب عادل عثمانی سے اپنی محبت کا بھرپور اظہار کیاہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری )مصنف کے چچا اور مصنف کو لائبریرین شپ میں لانے والے بھی (۔ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے کہ ’’ ڈاکٹر حید ر تہذیب کے ایک یادگار نمائندے ہیں ایسے پروقار نمائندے اب معدوم ہوتے جارہے ہیں۔آپ کی گفتگو میں شائستگی، دھیما پن بدرجہ اتم پایا جاتاہے سادہ طبیعت پائی ہے رہن سہن سادہ ہے دکھاوے اور بناوٹ کے قائل نہیں‘‘۔جمیل نقوی صاحب جو علی گڑھ یونیورسٹی کی لٹن لائبریری اور امپیریل لائبریری کلکتہ میں اپنے پیشہ وارنہ فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں ۔ لائبریرین شپ کے موضوع پر اردو زبان میں ان کے مضامین جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے رسالے ’’کتاب نما‘‘ میں ۱۹۳۸ء میں شائع ہوتے رہے ۔ڈاکٹر انیس خورشیدنے ان کے بارے میں لکھا کہ ’’کتاب ہی ان کا مسلک رہاہے اوراس حوالے سے انہوں نے جو بھی کام انجام دئیے اتنے سلیقے اور رچاؤ کے ساتھ کئے کہ خود ہی لوگوں کی نگاہ کے مرکز بنے رہے‘‘۔جمیل صاحب ۲۵کتابوں کے خالق ہیں۔لائبریرین اور مصنف کے ساتھ ساتھ جمیل صاحب نعت گو شاعربھی ہیں ان کی کئی نعتیں ذوق وشوق اور عقیدت سے پڑھی اور سنی جاتی ہیں۔

مصنف نے پنجاب لائبریری ایسوی ایشن کے باباجی میاں الطاف شوکت کو بھی نہایت خوبصورت انداز میں خراج تحسین پیش کیاہے ۔پاکستان میں لائبریری تحریک کے خاموش مجاہد ابن حسن قیصرسے اپنی محبت اور عقیدت کو بھی قلم بند کیا۔ اس مضمون میں وہ تفصیل موجود نہیں جو باقی مضامین میں شامل ہیں۔ پروفیسر اختر حنیف کا تذکرہ بھی ہے جو۱۹۵۴ء میں میرٹھ کالج سے بی اے کرکے ۱۹۵۶ء میں پاکستان ہجرت کرآئے ۔ کراچی یونیورسٹی میں لائبریری سائنس میں ایم اے کیااور اسی شعبہ کے صدر کی حیثیت سے ۱۹۹۳ء میں ریٹائر ہوئے اور ۱۹۹۵میں اس جہان رنگ وبو کو چھوڑ کر دار البقاء کے لئے کوچ کرگئے۔ایک طویل عرصے تک پاکستان لائبریری بلیٹن کے انگریزی شعبہ کے ایڈیٹر رہے۔مصنف نے محمد زبیر صاحب سے اپنی وابستگی اور رفاقت کو دلنشیں انداز میں پیش کیا۔ ۔علی گڑھ یونیورسٹی کے لائبریرین رہے ۔اسلامی کتب خانوں پر ان کی کتاب کسی اتھارٹی سے کم نہیں اگرچہ انہوں نے ایک درجن کے قریب کتابیں لکھیں ۔اپنی تحریر سے لائبریری سائنس کے دامن کو مالا مال کیا۔ لائبریرین شپ کے نامور ستاروں میں مولانا محمد عارف الدین جو لائبریری تحریک کے فروغ میں شہید حکیم محمد سعید کے دست راست تھے ۔ہارڈنگ پبلک لائبریری دہلی اور خیر پو ر پبلک لائبریری کے لائبریرین فرحت اﷲ بیگ ،برٹش کونسل والے سید امتینان علی شاہ بخاری اور ہمدرد یونیورسٹی والے رشید الدین احمد سے صمدانی صاحب نے اپنی محبت اور رفاقت کا ذکر بڑے پیارے اندازمیں کیاہے۔

صمدانی صاحب کا اسلوب تحریر دلکش اورسلیس ہے ۔اشعار کا استعمال بھی شانداراور موقع کی مناسبت سے ہے۔ہر مضمون میں شخصیات کی مختصر سوانح عمری ،ان کے عادات اور خصائل اور مصنف کے ساتھ ان کا برتاؤخوبصورت انداز میں پیش کیا گیاہے۔ بہت سے مضامین کا آغاز بڑے ہی موثر اندازمیں کیا گیا ہے اور عموماً شعر پر مضمون ختم کیاگیاہے ۔ کتا ب کے آخر میں ایک رپورتاژ بھی شامل ہے جو مصنف نے اپنی ۳۹د ن کی بیٹی کے غم میں لکھی ۔ جس میں دل سوزی اور اداسی کی لہر چھائی ہوئی ہے ۔بڑے لوگوں کی زندگیا ں عام لوگوں کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ ان کے کارنامے ہماری ہمت بڑھاتے ہیں اور ہمیں بے لوث خدمت کرنے پر ابھارتے ہیں ۔ عظیم لوگ خداکا عطیہ ہوتے ہیں ۔ انہیں لوگوں کی وجہ سے دنیا ترقی کی منازل تیزتر طے کرتی ہے ۔ صمدانی صاحب نے کتاب لکھ کر جہاں ان عظیم شخصیات سے اپنی عقیدت اور محبت کا اظہار کیا وہیں یہ بھی ثابت کردیا ہے آپ کہنہ مشق لائبریرین اور مشفق استاد ہی نہیں ایک اچھے ادیب بھی ہیں۔
تبصرہ نگار: اکرام الحق : لائبریرین ،آرمڈفورسز پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ،راولپنڈی
(شائع شدہ ، پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل،جلد ۴۲،شمارہ ۱، مارچ ۲۰۱۱ء )

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284888 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More