رشتہ کیا ہے؟ چا ر حروف پر مشتمل یہ لفظ بہ ظاہر چھوٹا سا
نظر آتا ہے مگر اپنے اندر بے پناہ وسعت رکھتا ہے۔ کائنات کی ہر چیز دوسری
چیز سے منسلک نظر آتی ہے۔ ایسے ہی انسان کا دوسرے انسان سے منسلک ہونا رشتہ
کہلاتا ہے۔اس رشتہ کو ہم کئی دائروں سے ضرب دے سکتے ہیں مثلاً:
۱۔ خونی رشتہ
۲۔ سماج میں موجود لوگوں سے عمومی اور رسمی رشتہ
۳۔ ایک کاروبار سے جڑے لوگوں کا آپس میں رشتہ
۴۔ غرض و مفاد پر مبنی رشتہ
۵۔ مذہبی اور نظریاتی رشتہ
۶۔ باہمی محبت، پیار اور خلوص کا رشتہ
۷۔ علم و ادب سے جڑا ہوا قلمی رشتہ
اس تحریر کا تعلق آخر الذکر رشتہ سے ہے جس میں اہلِ قلم علمی و ادبی لحاظ
سے ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں۔ اس رشتہ میں ایک سطح ایسی بھی آتی ہے جب
فریقین ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم قرار پاتے ہیں۔ پھر یہ سلسلہ علم و
ادب تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ ایک دوسرے کے نجی دکھ سکھ اپنے محسوس ہونے
لگتے ہیں۔ اس ضمن میں جو بات اپنے خونی رشتے سے نہیں کی جاسکتی یا کرنے سے
گریز کیا جاتا ہے وہ اپنے اہل قلم دوست سے بانٹ کر تسکین محسوس کی جاتی ہے۔
اس طرح اس عملِ بے غرض میں مشاورت بھی شامل ہو جاتی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر سید معین الرحمن محتاجِ تعارف نہیں ہیں وہ غالب کی متن شناسی
کے حوالہ سے غالبیات میں معتبر نام رکھتے ہیں۔ اس دشت کی سیاہی میں انہوں
نے اپنی عمر تمام کر دی۔ علم و ادب بانٹنے اور غالب شناسی کے حوالہ سے وہ
سیکڑوں نہیں ہزار ہا لوگوں سے منسلک تھے۔ دوسری طرف اُن سے جڑے ہوئے لوگ
اُن سے اپنی قربت کو عزت و اعزاز تصور کرتے تھے کیونکہ وہ علم و ادب ہی
نہیں بلکہ محبتیں بانٹتے تھے۔ اُن کے قریب رہ کر لوگ آسودگی محسوس کرتے
تھے۔ ان آسودگی محسوس کرنے والوں میں ایک مقصود حسنی بھی ہیں جن کے ساتھ ان
کی بڑی علمی و ادبی قربت رہی۔ وہ پہلے مقصود حسنی کے دوست اور بعد میں اُن
کے پی ایچ ڈی کے مقالہ کے نگران بھی رہے۔ وہ مقصود حسنی کے نام ایک خط
مورخہ۳ اگست ۲۰۰۵ء میں لکھتے ہیں:
یہ سطور مقصود صفدر علی شاہ کے لیے ہیں!
(قبلہ مقصود حسنی صاحب کے لیے نہیں)
اس خط سے قبل جب وہ مقالہ کے نگران نہیں تھے ۔ وہ مقصود حسنی کی کتاب
’’لسانیاتِ غالب‘‘ کا فلیپ لکھ چکے تھے۔ یہ کتاب ۱۹۹۶ء میں شائع ہوئی۔ سید
صاحب سے مقصود حسنی کا گزشتہ تین دہائیوں سے محبت کا رشتہ چلا آتا تھا۔ یہی
وجہ ہے کہ مقالہ کا نگران بننے کے بعد انہوں نے جو تجاویز پی ایچ ڈی ریسرچ
اسکالر مقصود صفدر علی شاہ کو دیں وہ اپنے اول دوست مقصود حسنی کو نہیں
دیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ رشتہ نبھانے کے حوالہ سے وہ کتنے وسیع النظر
اور وسیع القلب تھے کہ تجاویز لکھنے کے فوراً بعد خط میں واضح کر دیا کہ یہ
سطور میرے دوست قبلہ مقصود حسنی صاحب کے لیے نہیں ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر سید معین الرحمن کی مقصود حسنی سے محبت کا اندازہ ان کے ۲۸
نومبر ۲۰۰۴ء کو لکھے گئے خط سے بھی ہوتا ہے جو انہوں نے مقصود حسنی کی ایک
عزیزہ کے انتقال پر تحریر کیا۔ اس خط میں ان کا مقصود حسنی کو پُرسا دینے
کا انداز اپنی نوعیت کا ہے۔ خط ملاحظہ ہو:
عزیز محترم مقصود حسنی صاحب
۲۰ نومبر کو آپ کے تھیسس (پی ایچ ڈی) کا ابتدائی متن، اول تا آخر کچی جلد
کے ساتھ ملا، جس نے بہ یک وقت حیرت اور خوشی سے دوچار کیا۔ دیباچہ پڑھا
توعزیزہ نورین طلعت کی نامُراد علالت ِبد کا آپ نے جتنا واشگاف لفظوں میں
اظہار کیا (کینسر کی انتہائی اسٹیج) اُس سے طبیعت بے حد بوجھل ہوئی۔ اب آپ
کے فون سے عزیزہ کے انتقال کی خبرپائی۔ ہسپتال میں آ پ نے ابدی رخصت کا دل
فگار منظر نامہ لکھا اور اس کے آدھ گھنٹے بعد مجھے فون پر اپنے اس غم و الم
میں شریک کیا۔ اپنی دل گیری کو میں آپ ہی جان سکتا ہوں اور اپنی اس خستگی
سے کچھ اندازہ کرسکتا ہوں کہ آپ پر کیا قیامت نہ گزر گئی ہوگی۔ یقین ہے کہ
وہ بے حساب آزار جو مرحومہ نے جیتے جی اُٹھائے، خداوندی رحمت اور آخرت میں
ان کی بخشش کا سامان بنیں گے۔
آپ کی تالیفِ قلب کے لیے کیا کہوں؟ عقل اور قلم عاجز ہے۔ بعض رشتے کتابوں
میں بھی درج نہیں ہوتے لیکن ہماری زندگی میں وہ کتنے اہم ، محترم اور مقدس
ہو جاتے ہیں ۔ان میں بند ھ کر اور بندھ کر ہم خود اپنی سیرت کو کس درجہ
منزہ اور اجلا ہوتا پاتے ہیں۔ یہ ایک نایاب تجربہ ہے۔اسے مٹھی میں لی ہوئی
ہوا کی طرح کسی کو دکھایا جا سکتا ہے نہ سمجھایا جا سکتا ہے۔ بس اپنے قلب
کا اطمینان شرط ہے ، یہ نصیب ہو تو خدا کا شکر اور اس کا احسان۔
ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ نے ڈاکٹر مولوی محمد شفیع ( اورینٹل کالج لاہور) کے
بارے میں کہیں لکھا ہے کہ وہ اپنے بیٹے اور پھر اپنی ایک فرخ و فہمیدہ بیٹی
کے سانحہ ارتحال سے دوچار ہوئے تو:
’’دلوں کا حال جاننے والا تو خُدا ہے، ہم لوگوں نے جو کیفیت شفیع صاحب کے
ظاہر و باطن کی دیکھی، وہ کہہ رہی تھی کہ میاں باغ کا مالی بہتر جانتا ہے
کہ کس پھل کو کچا توڑا جائے اور کس کو پکا‘‘۔
میں دعا کرتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ آپ، اپنے آ پ کو بکھرنے نہ دیں گے۔
رضائے الٰہی میں راضی رہنے ہی میں جیت ہے ۔ عنایت الٰہی سے یہ دولت جو
معقول ٹھہری، آپ نے پائی تھی اُسی نے واپس لے لی۔ اس حقیقت (پوزیشن) کو
قبول کریں اور اس سے متصادم نہ ہوں۔
یقین ہے کہ آپ کی استقامت، عزیزہ نورین طلعت کے لیے بھی اُخروی شانتی اور
سکون کا باعث ہوگی۔میں اُن کے سکون لازوال اور سب متعلقین اور متاثرین کے
لیے صبر جمیل کی دعا کرتا ہوں۔ میں یہ سب کچھ لکھ تو رہا ہوں مگر مجھے
احساس ہے کہ کسی حساس شخص کا اتنے کڑے وقت سے گزرنا اس کے لیے کتنا دل
آزاراور سخت امتحان ہے۔
میرے بے تاثیر اور حقیر لفظ اندمالِ غم تو کیا کریں گے، خدا کرے ذرا کی ذرا
کمی کا سبب ہی بن پائیں اور آپ کی توجہ بٹائیں۔
پس نوشت:
اتوار (۲۸ نومبر) کی دوپہر مجھے ایک تعزیت اور عیادت کے لیے اسلام آباد
جانا پڑا۔ اس بھاگ دوڑ میں خط کا پوسٹ کرنا رہ گیا۔ آج لاہور واپسی پر یہ
خط پوسٹ کررہا ہوں۔ اﷲ آپ کا حامی و ناصر ہو اور رہے۔
دُعا گو
معین الرحمن
یکم دسمبر۲۰۰۴ء
پروفیسر ڈاکٹر سید معین الرحمن کے انتقال کے حوالہ سے مقصود حسنی نے ڈاکٹر
عبدالعزیز ساحر کو ایک تعزیتی خط لکھا جس کے جواب میں وہ اکتوبر۲۰۰۵ء کو
لکھے گئے خط میں اپنے جذبات اور رشتہ محبت کا اس طرح اظہار کرتے ہیں:
برادرم!
سلامِ مسنون!
میں نے رباعیاتِ خیام کی وصولی کی رسید بھجوائی تھی اور آپ کا شکریہ ادا
کیا تھا کہ آپ نے کرم کیا اور کتاب کی عکسِ نقل بھجوائی۔آپ کے خط سے اندازہ
ہوا کہ میرا عریضہ آپ کو نہ ملا۔ بہر حال کرم فرمائی اور ساحر نوازی پر
شکریہ قبول فرمائیے اور خط کی عدم دستیابی پر معذرت!
مجھے یاد آتا ہے کہ میں نے آپ کے رفیق ِ کام عطاء الرحمن صاحب کے ذریعے
زبانی بھی شکریہ بھجوایا تھا ، لیکن شاید…………!
آپ نے معین صاحب کی وفاتِ حسرت آیات پر پُرسا دیا، میں اس سلسلے میں بھی
ممنون ہوں۔ خدائے محمدؐ آپ کو اجر دے۔
معین صاحب میرے مرشد تھے اور مائی باپ بھی! ا ن کی موت میرے لیے عجیب سانحہ
ہے، میں کسے بتاؤں؟ کہ ان کی دائمی جدائی نے مجھے کس قدر افسردہ کیا۔
میرے والد گرامی ۱۹۹۴ء میں فوت ہوئے اور ماں جی ۲۰۰۱ء میں، اب یہ دونوں
رشتے ایک بار پھر (۱۵۔ اگست۲۰۰۵ء کو) جدا ہوگئے!
خدائے محمدؐ ان بزرگوں کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور شفاعتِ محمدیؐ ان
کا مقدر ہو۔ آمین ثم آمین۔
معین صاحب کے جو خط آپ کے نام ہیں۔ کیا ان کا عکس مل سکتا ہے ۔ا گر ممکن
ہو، تو ان کی نقول بھجوا کر ممنون فرمائیے۔
خدا کرے کہ مزاجِ گرامی بخیر ہوں۔ والسلام
نیاز مند
عبدالعزیز ساحر
ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کے خط کے جواب میں مقصود حسنی نے ۱۹ اکتوبر۲۰۰۵ء کو
جو خط لکھاا س سے ڈاکٹرمعین الرحمن صاحب سے ان کی محبت و خلوص کا جو رشتہ
سامنے آتا ہے وہ کسی جواز کا محتاج نہیں۔ خط ملاحظہ ہو:
جو بھی حضرت ڈاکٹر معین الرحمنؒ سے متعلق اچھی بات کہے یا کسی حوالہ سے اس
کا مرحوم کے ساتھ کوئی رشتہ/تعلق نکلتا ہو، مجھے اچھا لگتا ہے بلکہ بہت
اچھا لگتا ہے۔ آپ کا بہت بہت شکریہ جو آپ نے ان کے بارے اتنے خوبصورت کلمات
کہے اور ان کے لئے اﷲ کی رحمت اور آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت گرامی طلب
کی۔ اﷲ آپ کو اس کا اجر دے۔ ساتھ میں اپنے معزز و محترم والدین کی خبر دے
کر دکھی کر دیا۔ جانے والے چلے جاتے ہیں لیکن انسانی دل و دماغ پر منفی یا
مثبت اثرات ضرور مرتب کر جاتے ہیں اور یہ اثرات دنوں کی قید میں نہیں آتے۔
دیکھ لیں حسین ؑ کو گئے کتنا عرصہ گزر گیا لیکن وہ آج بھی انسان کے قلب و
نظر کا سرور ہیں۔ نمرود کو لعنتی ہونے سے کوئی نہیں بچا سکا۔ کچھ لوگ حسین
ؑ کے متعلق مختلف رویہ اور فکر رکھتے ہیں۔ اس طرح وہ متنازعہ شخصیت کے درجہ
پر فائز ہو جاتے ہیں۔ کوئی بڑا آدمی ہی اس درجے پر فائز ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر
سید معین الرحمن اپنی زندگی میں اور زندگی کے بعد بھی متنازعہ سے ہیں۔ اس
حوالہ سے دیکھ لیں کہ وہ کتنے بڑے انسان تھے۔ مانتا ہوں، ان کی رقیبوں سے
چھیڑ چلتی تھی ، بدقسمتی سے انہیں لڑنا نہیں آتا تھا وہ سطح سے گر نہیں
سکتے تھے کیوں کہ یہ ان کی فطرت میں نہیں تھا۔ ان کا نظریہ تھا ،گالی بھی
تمیز سے دو لیکن لوگ گالی کے آداب کب جانتے ہیں۔
ساحرؔ صاحب ایسا آدمی کہاں ملے گا بیماری کی انتہائی سطح پر بیٹھا ہو لیکن
اوروں کو تسلیاں دیتا ہو۔ میں کچھ سالوں سے ٹھیک نہیں ہوں ۔حافظہ بالکل عین
غین ہو گیا ہے۔ اپنی تکلیف کی کبھی شکایت کرتا تو کہتے بیمار آدمی اچھا
نہیں لکھ سکتا۔ ایسے آپ کو بیماری کا وہم ہو گیا ہے۔ آخری ٹیلی فون پر
انہوں نے صرف اتنا بتایا’’ معمولی خستگی ہے دعا کریں‘‘۔بیماروں کی دعا قبول
ہوتی ہے۔ مجھ ایسے بیماروں کی دعاؤں سے موت کب مہربان ہوتی ہے اگر وہ میری
جان کے بدلے بچ جاتے تو یہ سودا یقینا مہنگا نہ ہوتا۔ انہیں تو جانے کی
جلدی پڑی ہوئی تھی۔ حاسدوں کے کوسنے انہیں کھا گئے۔ کیا ان حاسدوں کو باقی
رہنا ہے۔باقی تو صرف سچے سُچے اور سوہنے اﷲ کی ذات ہے۔ ہاں انسان کے اچھے
کرم، قرطاسِ زمانہ پر جگ مگاتے رہتے ہیں ۔ جناب وقت سے بڑا کوئی ناقد نہیں۔
وہی بتاتا ہے ، کون کتنا بڑا ہے۔ بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن سننے والے
کہاں ہیں۔ یہاں تو ہر کوئی سنانے والا ہے۔ آپ کے خط سے لگا تھوڑا بہت آپ
سننے کے متحمل ہیں۔
میں نے اپنے کسی خط میں آپ سے استدعا کی تھی کہ آپ اسلام آباد میں ہیں ۔ آپ
کے وسائل کہیں زیادہ ہیں۔ اگر کوئی ان کی شخصیت کے بارے میں گوشہ نکال دے
تو کیا ہی اچھا ہو۔بھلا ہو سعید صاحب اور ان کے دوست رائے صاحب کا ، غالباً
وہ اس حوالہ سے کوشش میں ہیں۔ میں نے اور بہت سارے لوگوں کو جو میرے دوستوں
میں ہیں کو لکھا ہے ۔ کراچی کے کچھ دوستوں سے بھی کہا صرف اور صرف مرحوم کی
شخصیت پر قلم اٹھائیں۔ ان کا کام تو نظر آتا ہے اس پر آتے وقتوں میں بہت
کچھ لکھا جائے گا۔بہ طور شخص جاننے والے اٹھ جائیں گے۔ یہ پہلو نا تمام رہا
تو معین دوستوں پر کوتاہی اور غفلت کا لیبل لگ جائے گا۔
آپ نے خطوط کی نقول فراہم کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے۔ آپ کا حکم سر آنکھوں
پر اور اس کی تعمیل بھی ہوگی۔میرے سارے خطوط ڈبوں اور بوریوں میں بند ہیں۔
یونس حسن صاحب سے کہا ہے وقت نکال کر ترتیب دے دیں ۔ اس طرح ادیب دوستوں کے
خط الگ الگ ہو جائیں گے اور اس سے ادب دوستوں کا بھلا ہوگا۔ آپ کو مرحوم کے
خطوط کی نقول ضرور ملیں گی۔ خاطر جمع رکھیں۔
ڈاکٹر صاحب میرے تھیسس پر بڑے خوش تھے ۔ اس کا وہ ایک ایک لفظ سکتہ کوما تک
ملاحظہ فرما چکے تھے۔ سچی بات ہے اس کام پر میں نے پانچ برس صرف کئے ہیں۔
چند ماہ اور جی لیے ہوتے تو میں مقالہ پیش کر چکا ہوتا۔ اس طرح کسی
پاکستانی یونی ورسٹی کی بھی ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل جاتی۔ میں نے ڈاکٹر قریشی
صاحب کو لکھا تھا ۔کام تو ہو گیا ہے اب سپروائزری کا لیبل چسپاں ہونا باقی
ہے اگر معین گروپ کا کوئی شخص مل جاتا تو حرفِ آغاز میں جو سید صاحب مرحوم
کے بارے میں جو لکھا ہے اسے با آسانی ہضم ہو جاتا ۔ یقین ہے آپ اس جانب
توجہ دیں گے۔ ’’لوحِ ادب ‘‘ حیدر آباد کے پچھلے شمارے کے اداریے میں سید
صاحب کے بارے میں خوب لکھا گیا ہے ’’لوحِ ادب‘‘ آپ کو ملتا ہوگا۔
میں آپ کے معزز و محترم والدین کے لئے اﷲ کے فضل اور آقا صلی اﷲ علیہ وسلم
کی نظرِ شفاعت کا طالب رہوں گا۔ آپ کے لیے محبتوں کے ساتھ
والسلام
ناچیز
مقصود حسنی
شیر ربانی کالونی، قصور
ڈاکٹر نثار احمدقریشی نے مقصود حسنی کے ایک خط کے جواب میں پروفیسر ڈاکٹر
سید معین الرحمن کے ساتھ اپنے رشتہ محبت کا اظہار کچھ اس طرح کیا:
مقصود حسنی صاحب
سلامِ مسنون! آپ کا تفصیلی عریضہ موصول ہوا۔ آپ نے مرحوم و مغفور ڈاکٹر
معین صاحب کے بارے میں جن عقیدت مندانہ خیالات کا اظہار کیا ہے وہ آپ کی
سعادت مندی کا بین ثبوت ہے۔ مجھے آپ اور ڈاکٹر صاحب کے گہرے تعلقات کا کچھ
اندازہ ہے ۔ بہتر ہوگا اگر آپ اپنے تاثرات کو جلد از جلد احاطہ تحریر میں
لے آئیں کیونکہ حافظہ بہر طور حافظہ ہے اور وقت کے ساتھ یادیں محو بھی
ہوسکتی ہیں۔
آپ صحت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سہولت کے ساتھ کام مکمل کیجئے ۔ میں
اپنی محدود توفیق علمی کے ساتھ اگر کوئی تعاون/ مدد کر سکا تو یہ میری خوش
بختی ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو صحت و شادمانی کے ساتھ زندہ رکھے۔ (آمین)
والسلام
مخلص
نثار احمد قریشی
ماجد مشتاق رائے جو سید معین الرحمن کے شاگردوں میں سے ہیں اُن کی طرف سے
مقصود حسنی کے نام موصولہ خط ۸ ستمبر۲۰۰۵ء سے بھی مقصود حسنی اور سید معین
الرحمن کی باہمی محبتوں کا واضح ثبوت ملتا ہے۔ خط ملاحظہ ہو:
جناب پروفیسر سید مقصود حسنی صاحب
السلام علیکم! اُمید ہے مزاج ِگرامی بہ خیر ہوں گے۔ پہلے تو میں اپنا تعارف
پیش کردوں۔ خاکسار ماجد مشتاق ’’سایہِ معین‘‘ میں خوش رہنے والوں میں سے
ایک ہے اور بدقسمت اس لیے کہ اب خوشی کا یہ پہلو بھی ہاتھ سے جاتا رہا۔
میں ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کرنے والوں میں سے شاید آخری طالب علم تھا اور
ابدی نیند میں زیارت کرنے والا پہلا، کیا لکھوں کیا نہ لکھوں اور لکھوں بھی
تو کیسے کہ بیٹا اپنے باپ سے تعلق کو ثابت کرنے کی کوشش میں ہے۔
پروفیسر صاحب! ڈاکٹر صاحب کے بھائی نے مجھے روتا دیکھ کر پوچھا کہ آپ مقصود
حسنی ہیں تو اس تعلق میں جس قدر شدت انتہائی درجے تک محسوس ہوئی جس کا ذکر
ڈاکٹر صاحب مجھ سے ملاقاتوں میں کرتے آئے تھے اور انہوں نے آخر میں جو نام
بار بار لیا وہ آپ کا ہی تھا۔
غلط نہیں ہوں تو لگتا ہے کہ میرا دکھ شدید ترین ہے پھر آپ کے دکھ کے لیے
صیغہ؟؟
جناب مقصود صاحب آپ کا پتہ سعید صاحب سے ملا۔ خود کو بہت سنبھال کر چند لفظ
لکھنے کی ہمت کی ۔ نہ جانے کیا کیا کچھ خطائیں ہوئی ہوں گی۔ درگزر فرمایے
گا۔ گو کہ میرا منہ تو نہیں کہ فرمائش کروں بس یوں سمجھیں کہ التجا ہے وہ
یہ کہ میں اور سعید مل کر ’’سپوتنگ‘‘ خاص نمبر کے لیے کوشاں ہیں اور ڈاکٹر
صاحب کی ذات کے حوالے سے مضمون کی گزارش ہے اور وہ بھی جتنی جلدی ہو سکے
کیونکہ اس کام میں دیر کی گنجائش بہت کم ہے ۔ ہم یہ شمارہ جلد از جلد لانے
کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔
اُمید ہے آپ مایوس نہیں کریں گے۔ میں جواب +مضمون کا شدت سے انتظار کروں
گا۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
فقط
ماجد مشتاق رائے
پروفیسر محمد سعید بھی سید معین الرحمن کے عزیز شاگروں میں سے ہیں۔ اُن کے
مقصود حسنی کے نام ایک خط ۱۵ فروری۲۰۰۶ء سے نہ صرف باہمی محبتوں کا اندازہ
ہوتا ہے بلکہ سید صاحب کی آخری رسومات کی لفظی فوٹو گرافی بھی سامنے آتی
ہے۔
نہایت محترم و مکرم جناب مقصود حسنی!
آداب و تسلیمات!
حالِ دل ’’آپ کو‘‘ لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جُدا نہیں ہوتا
مجھے معلوم ہے آپ مجھ سے سخت ناراض ہیں۔ اس لیے کہ میں اُستاد گرامی کے
وصال پُرملال پر آ پ کے تعزیت نامے کا جواب نہ لکھ سکا تھا۔ آپ کو بجا طور
پر ناراض ہونے کا حق ہے لیکن اسے میری بد توفیقی کی بجائے بے چارگی اور بے
بسی خیال فرمائیے۔یقین مانیے نہ میں کسی کے تعزیت نامے کا جواب دے پایا اور
نہ خود کسی کو تعزیت نامہ لکھ پایا۔ استاد گرامی کے اس طرح چپکے سے چھوڑ کر
جانے سے جودرو غم کی گھٹائیں امڈیں اور برسیں وہ بیان سے باہر ہیں۔
میں اپنی بد نصیبی پر اب تک خون کے آنسو بہا رہا ہوں کہ میں ان کا آخری
دیدار بھی نہیں کر سکا۔ ۱۳ اگست کو ہم سب گھر والے گاؤں گئے ہوئے تھے۔ ایک
سے زیادہ دنوں کے لیے لاہور سے باہر جانا ہوتا تو میں معین صاحب کو ضرور
بتا کر جاتا تھا۔ ۱۳ کو گھر فون کیا تو پتا چلا کہ گھر پر نہیں،کہیں باہر
نکلے ہوئے ہیں۔ یہ تو انہونی کے اچانک ہو جانے کے بعد پتا چلا کہ وہ ہسپتال
میں تھے اور کسی کو نہ بتانے کی سخت تاکید کی ہوئی تھی۔ ۵ ۱ گست کو صبح چھ
بجے سے ماجد فون کر رہا تھا لیکن میرا موبائل وہاں گھر میں نہیں چل رہا تھا
دیگر احباب بھی رابطہ کرتے رہے ۔ بالآخر نو بجے کے قریب چھوٹا بھائی موبائل
سمیت سڑک پر نکلا ہوا تھا کہ ماجد کا رابطہ ہو گیا۔ اس نے آکے بتایا تو ایک
دم دل ڈوب گیا۔ سکتہ طاری ہوگیا۔ دس بجے جنازہ ہے۔ ساڑھے دس تدفین ہے۔ میرا
سفر دو گھنٹے کاہے۔ اسی وقت اور اسی حال میں بھاگ نکلا۔ آنکھوں سے آنسو اور
دل سے آہیں نکل رہی تھیں۔ احباب فون پر پل پل کی خبر دے رہے تھے۔ لیاقت
صاحب بتا رہے ہیں کہ اب اس منزل پر ہیں اب اس منزل پر، میں کہہ رہا ہوں
یار! میرے تو پر وہی تھے جو ٹوٹ گئے اب میں اڑنے کے قابل نہیں رہا۔ وقار
بھائی سے لڑ رہا ہوں کہ معین صاحب نے جلدی کی۔ اب آپ بھی جلدی کر رہے ہیں
سیکرٹری ایٹ سے گزر کر استاذِ معظم کے گھر کے سامنے سے رکشہ گزر رہا تھا کہ
لیاقت صاحب نے فون پر بتایا آخری ’’سلیب‘‘ چہرہ مبارک ڈھانپ چکی ہے۔ میں نے
صرف دس منٹ کی مہلت مانگی جو نہ ملی۔ آخر جب گرتا مرتا پہنچا تو تازہ مٹی
پر تازہ پھولوں اور چند دیوانوں کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔
یہ نہ سوچیے کہ یہ محض بہانہ کر رہا ہوں ۔ واقعی میری یہی کیفیت ہے۔ اس
دوران میں خود پر گزرنے والی کیفیات بلکہ مسائل، جی چاہتا ہے آپ کو تفصیل
سے لکھوں لیکن اصل میں یہ سنانے کے قابل ہیں لکھنے کے نہیں۔ ابھی تک خود کو
مجتمع کرکے استاذ گرامی کے بارے میں مضمون لکھنے کی ہمت نہیں۔ دو ایک
تحریریں حاضری لگوانے کے لیے لکھی ہیں۔ ان میں سے ایک تو ’’الحمرا‘‘ میں
چھپ گئی ہے لیکن ظالموں نے اسے تبصرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ چیزیں آپ کی خدمت
میں روانہ کر رہا ہوں۔ ’’رشحات‘‘ کی خدمت نہ کرسکنے کو واقعی ہی بدتوفیقی
سمجھتا ہوں ۔ ان شاء اﷲ انہیں اب لکھوں گا تو وہ باقاعدہ آنے لگے گا۔ ان سے
اگر آپ بات کرسکیں تو وہ ’’ڈاکٹر معین نمبر‘‘ شائع کر سکیں تو اور بھی بہت
سا غیر مطبوعہ مواد بھجوایا جاسکتا ہے۔ اب تو برسی بھی آنے والی ہے۔ ہم
ادھر ’’سپوتنک‘‘ کا نمبر تیار کرچکے ہیں۔ وہ بھی جلد چھپ جائے گا تو آپ کی
خدمت میں بھیجوں گا۔ معین صاحب کے ایک سچے عاشق عاصم کلیار ہیں۔ انہوں نے
’’سرفراز‘‘ نمبر شائع کر لیا ہے۔ یہ ۳ نومبر کو مجھے مل گیا تھا۔ آپ کی
کاپی اسی دن سے پڑی ہے۔ خط نہ لکھنے کی وجہ سے وہ بھی پوسٹ نہ کر سکا۔ عاصم
بہت پیارا شخص ہے۔ اسے آپ خط لکھیں گے تو وہ نہ صرف خوش ہوگا بلکہ آپ کو
محبتوں بھرا خط لکھے گا اور پھر لکھتا رہے گا۔ اس کا پتا رسالے پر درج ہے۔
اب ناراضگی ختم کیجیے اورمیری حوصلہ افزائی کیجیے۔ خدا تعالیٰ آپ کو صحت
کاملہ سے نوازے رکھے۔ اپنا خیال رکھا کریں۔
نیاز مند
محمد سعید
متذکرہ خطوط سے سید معین الرحمن کی علم و ادب دوستی اور باہمی رشتہ محبت سے
رشتوں کی ایک زنجیر بنتی نظر آتی ہے۔ اس زنجیر میں سید معین الرحمن، مقصود
حسنی، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، ڈاکٹر نثار احمد قریشی، ماجد مشتاق رائے اور
پروفیسر محمد سعید ایک دوسرے سے علمی و ادبی حوالہ سے منسلک نظر آتے ہیں۔
ممکن ہے کہ یہ زنجیر آتے وقتوں میں ریسرچ اسکالرز کے لیے کسی نہ کسی سطح پر
تحقیق کے دَر وَا کرنے اور لکھنے والوں کے باہمی رشتے استوار کرنے کا سبب
بنے گی ۔ |