ڈاکٹر رئیس صمدانی کا خاکوں کا مجموعہ ’’جھولی میں ہیرے اور موتی ‘‘ڈاکٹر خالد ندیم کی نظر میں

’’جھولی میں ہیرے اور موتی ‘‘میرے تحریر کردہ اا خاکوں اور یادوں کے دریچے کے عنوان سے ۵ مضامین کا مجموعہ ہے جو ۲۰۱۲ء میں شائع ہوا تھا۔ جو خاکے کتاب میں شامل ہیں ان میں اردو کے معروف ادیب ’ڈاکٹر طاہر تونسو ی ۔ اردو ادب کا روشن ستارہ‘،امریکہ میں مقیم عبد الوہاب خان سلیم ۔ ایک کتاب دوست، فیض احمد فیض ؔ ۔ میرا پرنسپل،معروف ادیبہ افسانہ نگار فر خندہ لودھی ۔ ایک ادیب ایک کتاب دار،پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام ۔ محترم و معزز،پروفیسر لطیف اﷲ ۔ نفیس انسان،پروفیسر محمد احمد ۔ خوش گفتار،عبد الستار ایدھی ۔ خدمت و عظمت کی لازوال مثال،عبد الصمد انصاری ۔ دھیما لہجہ تھو ڑی سے شوخی،میری ماں ۔ صفیہ سلطانہ (خاکہ)اور ’اپنی تلاش‘ کے عنوان سے اپنا خاکہ بھی شامل ہے ۔

کتاب کا پیش لفظ جامعہ سرگودہ کے شعبہ اردو کے استاد ڈاکٹر خالد ندیم نے تحریر کیا جو کتاب اور صاحبِ کتاب کے بارے میں مفید، مستند اور خوبصورت معلومات فراہم کرتا ہے۔ کتاب کے بارے میں ڈاکٹر خالد ندیم کی رائے کتاب کا تفصیلی تعارف کی حیثیت رکھتا ہے ۔یہ پیش لفط انہوں نے ’’کشادہ پیشانی، روشن آنکھیں، متبسم ہونٹ‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں’’اگر ظاہری زندگی سے قبل روحوں کے باہمی تعلقات کی کوئی صورت ہو سکتی ہے تو عالمِ ارواح میں راقم اور ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کے درمیان خلوص و مروّت کے تعلقات کو تسلیم کر لینا چاہیے۔

شرق پور، شیخوپورہ، منکیرہ (بھکر)، نارووال، نوشہرہ ورکاں اور حافظ آباد میں زندگی کے بائیس برس گزارنے کے بعد جب مجھے جامعہ سرگودھا میں تدریسی خدمات انجام دینے کا موقع ملا تو یہاں کالجوں کی فضا سے مختلف اور بہتر ماحول میسر آیا۔ اپنے رفقاے کار کی علمی و ادبی شخصیات کے ساتھ ساتھ جس ہستی نے اپنے کارناموں اور اندازِ گفتگو سے مجھے اپنا گرویدہ کر لیا، وہ ڈاکٹر طاہر تونسوی تھے۔ یوں تو ان کی شخصیت کے بارے میں ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں راے دیتا ہے، لیکن مجھے اس سلسلے میں صرف ایک ہی بات کہنی ہے اور وہ یہ کہ ڈاکٹر طاہر تونسوی نے مجھ سے پہلے ہی دِن محبت کا جو رشتہ استوار کیا، میری بعض کوتاہیوں کے باوجود انھوں نے اس میں کبھی کمی نہ آنے دی اور آج اگر مَیں طوفانوں اور آندھیوں کے رُوبرو کھڑا ہوں اور میرے قدموں کے نیچے زمین ہے تو یہ طاہر تونسوی کی دین ہے۔ اگرچہ ہم صبح سے شام پانچ ساڑھے پانچ بجے تک تدریسی ذمے داریوں کی بجا آوری کے لیے ایک ہی شعبے میں رہتے تھے اور فرصت کے اکثر لمحات اکٹھے گزارتے تھے، لیکن مَیں رات آٹھ ساڑھے آٹھ بجے کسی نہ کسی بہانے پھر ان کی سرکاری رہائش پر پہنچ جاتا۔ ان کے ہاسٹل کے کسی استاد کا ادب سے دُور کا بھی واسطہ نہ تھا، تاہم ان کی محفل آرائی نے سب کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ وہ سب تو ان کی رفاقت میں خوش تھے، لیکن طاہر تونسوی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان کے الجھنے سے بہت بے زار رہتے؛ چناں چہ ان کا بھی جی یہی چاہتا کہ مَیں ایسے ہی چلتے پھرتے اِدھر کا چکر لگاتا جاؤں۔

شب و روزکا یہ سلسلہ جاری تھا کہ ایک رات تونسوی صاحب کہنے لگے کہ آؤ، کمرہ نمبرپانچ میں چلتے ہیں، تمھیں ایک انسان سے ملواتے ہیں۔ مَیں حیران تھا کہ طاہر تونسوی، جو کسی کے بارے میں کوئی توصیفی کلمہ بلاوجہ نہیں کہتے، پھر ہاسٹل میں کسی کے ساتھ ان کا کوئی خلوص کا ایسا رشتہ بھی نہیں، جس کا تعارف یوں کراتے۔ مَیں یہ سوچتے ہوئے کہ کہیں سے کوئی مہمان آیا ہو گا، چپ چاپ ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ ہم جس کمرے میں داخل ہوئے، وہاں دائیں بائیں دو بیڈ لگے ہوئے تھے اور درمیان میں ایک میز رکھا ہوا تھا۔ ایک بیڈ خالی اور دوسرے پر ایک صاحب کمبل میں لپٹے لپٹائے لیپ ٹاپ لیے جھکے ہوئے بیٹھے تھے۔ پہلی نظر میں ان کے چہرے کے خد و خال سامنے نہ آ سکے، لیکن جونہی انھوں نے چہرہ اوپر اٹھایا؛ کشادہ پیشانی، روشن آنکھیں، متبسم ہونٹوں اور شیریں لب و لہجے نے ہمارا استقبال کیا۔ ایک شریف النفس انسان سے مل کر مَیں نہ صرف خوش ہوا، بلکہ مجھے یوں محسوس ہوا، مَیں ایک مدتوں سے جس پُرخلوص انسان کی تلاش میں سرگرداں تھا، ڈاکٹر طاہر تونسوی کے توسط سے آج مجھے وہ مل گیا ہے۔

شیخوپورہ کی علمی و ادبی تنظیم ’دریچہ‘ کے دوستوں کے بعد سرگودھا میں اگر کسی ادبی شخصیت نے مجھے متاثر کیا تو وہ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی تھے۔ ان کی رفاقت میرے لیے اس قدر خوش گوار تھی کہ سرگودھا مجھے اپنے شہر کی طرح محسوس ہونے لگا۔ ان سے اکثر علمی موضوعات پر گفتگو رہتی اور وہ میرے کاموں کے بارے میں استفسار کرتے رہے۔ مَیں انھیں ایک علمی شخصیت سمجھنے کے باوجود محض ایک کتاب دار کی حیثیت دیتا رہا؛ لیکن ایک دِن انھوں نے اپنا خاکوں کا مجموعہ یادوں کی مالا عنایت کیا تو مجھے ایک خوش گوار حیرت کے ساتھ ساتھ اپنے سابقہ رویے پر سخت ندامت بھی ہوئی۔ کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہیں کہیں سے پڑھتا بھی جاتا تھا اور بعض مقامات پر میری حیرت میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ میرے مشاہدے میں اکثر یہی آیا ہے کہ لائبریری سائنس کے لوگ بالعموم علم و ادب سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ کتاب کے عنوان کے علاوہ ان کا کتاب سے کم ہی تعلق ہوتا ہے، لیکن ڈاکٹر صمدانی کی تحریر نے میری راے کو یک سربدل کے رکھ دیا۔ اس کتاب میں انھوں نے تقریباً چوبیس شخصیات پر قلم اٹھایا، جن کے بارے میں انھوں نے اپنے تاثرات، افکار اور انعکاسات پیش کیے تھے۔

ایک وقت آیا کہ ڈاکٹر صمدانی کو سرگودھا سے واپس اپنے شہر (کراچی) جانا پڑا۔ ان کی رفاقت سے مجھے جس قد ر اطمینان ہوا تھا، ان کی واپسی میرے لیے اسی قدر اذیت ناک بھی تھی؛ لیکن کیا کِیا جائے، زندگی اپنے سفر پر رواں دواں رہتی ہے۔ ہاں، یہ بات ضرور ہے کہ ڈاکٹر تونسوی اور ڈاکٹر صمدانی کے جامعہ سرگودھا سے جانے کے بعدبھی اگرچہ مَیں روزانہ اس ہاسٹل کے قریب سے گزرتا ہوں، لیکن کبھی اس کے اندر جھانکنے کی ہمت نہیں پا سکا کہ اس ہاسٹل کی ساری رعنائی صرف انھی شخصیات کے دم قدم سے تھیں۔

خاکہ نگاری اور سوانح نگاری میں بنیادی فرق لطافت اور ذمہ داری کا ہے۔ جہاں خاکہ نگار اپنے موضوع سے متعلق چند واقعات کے بیان سے ایک بھرپور تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے، وہیں سوانح نگار تحقیقی بنیادوں پر ممدوح سے متعلق تمام تر معلومات قاری کے سامنے پیش کرنے کی تگ و دَو میں مصروف نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر صمدانی نے اپنی ان تحریروں کو خاکہ نگاری سے متعلق نہیں کہا،بلکہ انھوں نے ان نگارشات کو سوانحی خاکے اور سوانحی مضامین کا نام دیا ہے، البتہ اس مجموعے کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے کہ مصنف ان شخصیات سے جذباتی طور پر متاثر نہیں اور نہ ہی وہ ان کی قصیدہ خوانی کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے ان شخصیات کے بارے میں معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اپنی شخصیت کو بھی ان میں شامل کر کے انھی واقعات کے بیان تک محدود نہیں رہنے دیا، بلکہ اسے تخلیقی حرارت دینے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

زیرِ نظر مجموعہ میں ان کے سوانحی خاکے اور مضامین شامل ہیں۔ یہ مجموعہ سابقہ مجموعے سے اگلی منزل کی نشان دہی کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر صمدانی نے اپنے تخلیقی سفر کو بد ریج طے کیا ہے اور اب وہ اس صنف کی اس منزل پر ہیں، جہاں خاکہ نگاری میں ان کا رنگ اپنی انفرادیت کا اظہار کرنے لگا
ہے۔

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ قریبی شخصیات پر لکھنے کے لیے خاکہ نگار کے پاس زیادہ مواد ہوتا ہے، اس لیے ایسے موضوعات پر وہ زیادہ سہولت سے لکھ سکتا ہے، لیکن یہ تصویر کا محض ایک رُخ ہے۔ شخصیت جتنی زیادہ قریب رہی ہو، اس پر طبع آزمائی کرنا اتنا ہی مشکل کام ہے اور پھر بعض لمحوں کو قلم بند کرنے میں بعض شخصیات کی تقدیس بھی حائل ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صمدانی نے والدہ محترمہ کے خاکے میں زیادہ فنی پختگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس خاکے میں انھوں نے ایک بیٹے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب ادیب کا کردار بھی ادا کیا ہے۔ ایسا خاکہ مصنف کے لیے بالعموم پل صراط پر چلنے سے کم دشوار نہیں ہوتا اور پھر صحیح سلامت منزلِ مراد تک پہنچ جاتا یقینا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ مقامِ مسرت ہے کہ ڈاکٹر صمدانی اس خاکے میں اپنی تمام تر تخلیقی توانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوئے ہیں۔ فقط ایک اقتباس دیکھیے اور خاکہ نگار کو داد دیجیے ’’ مَیں اپنے والدین کی پہلی اولاد تھا۔امی نے بتایا تھا کہ نہیں معلوم کیا وجوہات ہوئیں، پید ائش کے وقت دائی نے بتا یا کہ نومولاد کو الٹا پیدا ہونا ہے، جس کی وجہ سے پیدائش کے وقت مشکلات پیدا ہو گئیں۔ امی نے بتا یا تھا کہ اس وقت دائی کو یہ کہتے سنا گیا کہ زچہ و بچہ دونوں میں سے کسی ایک کی زندگی کو خطرہ لائق ہو سکتا ہے۔اس سے قبل میری نانی کا انتقال بھی بچے کی پیدائش پر ہوا تھا۔ میری والدہ کے لیے یہ لمحات اس حوالہ سے بھی پریشان کن رہے ہوں گے‘‘۔

خاکہ نگاری شروع ہی سے دو مختلف سمتوں میں رواں دواں رہی ہے۔ ایک طرف شخصیت سے انس، محبت اور ہمدردی کا پہلو غالب رہا، جس نے شگفتگی کے باوجود تحریر کو غیر سنجیدہ نہیں ہونے دیا؛ جب کہ دوسری طرف خاکہ نگاری لطافت سے مزاح، مزاح سے ظرافت اور ظرافت سے جملے بازی تک پہنچ گئی۔ ڈاکٹر صمدانی اپنی نستعلیق شخصیت کی بدولت شگفتہ سنجیدگی کو اپنانے پر مجبور تھے، چناں چہ ان کی تحریروں میں روانی، سادگی، بے ساختگی اور لطافت کا پایا جانا فطری امر ہے۔

ڈاکٹر صمدانی کسی شخصیت کی مضحکہ خیزی یا کرداری تضادات کے باعث اسے خاکے کا موضوع نہیں بناتے، بلکہ وہ مہرو وفا اور خلوص و مروّت کے رشتوں سے انھیں منتخب کرتے ہیں۔ وہ اپنے تعلقات کی بنیاد پر دھیمے سروں میں گفتگو کا آغاز کرتے ہیں اور کسی دعوے یا ادعا کے بغیر اپنی ملاقاتوں اور ممدوح کی فتوحات سے آگاہ کرتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی شخصیت نہ تو فرشتہ ہے اور نہ ہی وہ مجسمہ شر؛ بلکہ وہ انسانوں سے ملواتے ہیں، جو خوبیوں اور خامیوں کا امتزاج ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر صمدانی نے ان خاکوں کے روپ میں تہذیبی شکست و ریخت اور سیاسی انتشار سے جنم لینے والی بعض بدنمائیوں کو واضح کیا ہے؛ چناں چہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام (گورنمنٹ کالج، ناظم آباد، کراچی) کے ان خیالات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ۱۹۴۷ء کے بعد حالات بالکل بدل گئے ، دنیا ہی بدل گئی، وہ دنیا الگ تھی یہاں کی دنیا الگ ہے؛ وہاں استاد کا احترام تھا، عزت کی جاتی تھی؛ طلباء میں کچھ حاصل کرنے کا جذبہ اور لگن تھی، جس کا اب فقدان پایا جاتا ہے۔آج کا استاد سیاست میں شامل ہوگیا ۔

بعض مقامات پر شاہد احمد دہلوی کی طرح ڈاکٹر صمدانی نے بھی حلیہ نگاری پر توجہ دی ہے۔ ایسے مقامات سے بخو بی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ میدان کی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کر سکتا ہے۔ عبدالصمد انصاری کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’ نوجوان دیکھنے میں خوبصورت، مناسب، گور ا رنگ، کتابی چہرہ، غلافی آنکھیں، کشادہ پیشانی، چوڑا سینہ، مضبوط جسم، آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک،ستواں ناک جس کے نیچے قینچی استرے کی دست ترس سے محفوظ سپاٹ میدان یعنی کلین شیو، کالے گھنے بالوں میں اب رنگنے کے باوجود سفیدی نمایاں، سنجیدہ طرز گفتگو، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ؛ المختصر صورت شکل، وضع قطع،چہرے مہرے سب سے شرافت ، تحمل ، وضع داری اور معصومیت کا خو ش گوار اظہار‘۔

چوں کہ فی زمانہ نام نہاد ’حقیقت نگاری‘ کی آڑ میں گھٹیا سے گھٹیا حرکت کو آرٹ کا نام دیا جانے لگا ہے، چناں چہ جوش ملیح آبادی کی ’آپ بیتی‘ کے بعد کئی ایک ’پاپ بیتیاں‘ سامنے آئی ہیں، جن کے مصنف لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی ’حرکات‘ کا فخریہ اظہار کرتے ہیں؛ لیکن ڈاکٹر صمدانی کا خدا بھلا کرے، ابھی ان کی صورت میں مشرق کی آنکھ میں کچھ روشنی باقی ہے۔ وہ اپنے موضوع سے متعلق بات کرتے ہوئے اپنی تہذیبی روایات کو نظر انداز نہیں کرتے، چناں چہ صمد انصاری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ’’ اسے میَں نے جتنے قریب سے دیکھا، شاید ہی کسی اَور نے دیکھا ہوگا۔یہ میرے اور میَں ان کے بہت سے ظاہری اور خفیہ رازوں کا امین بھی ہوں۔ امانت دار کی حیثیت سے میں اپنے دوست کی صرف ظاہری خصوصیات پر ہی قلم اٹھاؤں گا ، کیوں کہ امانت میں خیانت کسی بھی طرح اچھا فعل نہیں‘‘۔ڈاکٹر صمدانی کا یہ کہنا ان کے کردار کی طہارت کا آئینہ دار ہے کہ مَیں نے زندگی میں اپنے دوستوں کو ممکن حد تک سنبھال کر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی؛ جس کسی سے تعلقِ دوستی قائم ہوگیا، اس سے ناتاجوڑے رکھا۔ ڈاکٹر صمدانی کا یہ مقولہ ان کے زیرِ نظر خاکوں میں کئی مقامات پر عملی صورت اختیار کرتا ہوا دِکھائی دیا ہے۔

فیض احمد فیضؔ کے خاکے میں معلومات کی فراہمی کے لیے انھوں نے اپنی یادداشتوں کے ساتھ ساتھ دیگر منابع سے بھی استفادہ کیا، لیکن اپنی تحریر کو تخلیقی توانائی سے ادبی شہ پارہ بنا دیا۔ڈاکٹر طاہر تونسوی سے اپنے تعلق کو خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں’’مجھے کچھ عرصہ ڈاکٹر طاہر تونسوی کی قربت کا شرف حاصل ہوا، یہ قربت جامعہ سرگودھا کے ٹیچرز ہاسٹل نے فراہم کی ، جہاں پر وہ کمرہ نمبر۲ میَں اور میں کمرہ نمبر۵ کا مقیم تھا۔یہ تحریر اسی قرابت داری کا پیش خیمہ ہے۔ اس مختصر سے عرصہ میں مجھے اپنے موضوع کو سمجھنے اور پرکھنے میں آسانی ہوئی، میَں نے اُنہیں قریب سے دیکھا ، مختلف موضوعات پر کھل کر سیر حاصل گفتگو کی، سادہ طبیعت کے مالک ہیں۔ میرا خیال تھا کہ میَں اپنے سابقہ تجربے کی روشنی میں ڈاکٹر طاہر تونسوی پر آسانی سے کچھ لکھ لوں گا، جیسے جیسے میں ان کی شخصیت کو ٹٹولتا گیا‘ میری مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا۔ جب میَں نے ان کے کام کا مطالعہ کیااور ان مضامین ، خاکوں ، ان پر لکھی گئی کتابوں اور رسائل کے خاص نمبروں کا مطالعہ کیا تو ایک مرحلے پر میَں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اپنا قلم بس یہیں روک لوں۔ ڈاکٹر صاحب سے اپنے اس ارادے کا ذکر کرچکا تھا کہ سوانحی مضامین یا خاکہ نویسی میرا مشغلہ ہے اور میَں آپ پر ہاتھ صاف کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اس وجہ سے حوصلہ نہیں ہوا یہ کہنے کا کہ ڈاکٹر صاحب یہ کام میرے بس کا نہیں۔ آپ پر تو بے شمار قلم کار طبع آزمائی کرچکے۔ بعض تو اردو ادب کا بڑا نام ہیں ، میَں کہاں؟ میرا مقام کہاں؟

لیکن ڈاکٹر صاحب کی صحبت نے مجھے حوصلہ دیے رکھا اور میں اپنی منزل کی جانب بڑھتا گیا‘‘۔

اسی طرح فرخندہ لودھی کے خاکے میں بھی انھوں نے دیگر ذرائع سے معلومات یکجا کیں، لیکن ممدوح کی شخصیت کے جو نقش قلم بند کرنے میں وہ کامیاب ہوئے، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔اس کا اندازہ خاکے سے محض دو مختصر اقتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔’’سرخ سفید، صحت مند اور خوب رُو شخص کو ’سانولی سلونی‘، سیاہ، متجسس آنکھیں کیسے بھا گئیں؟ صابر لودھی کو فرخندہ کی وہ متجسس آنکھیں ایسی اچھی لگیں کہ انھوں نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انھیں اپنا لیا۔ اس طرح پروفیسر صابر لودھی کو فرخندہ کے رُوپ میں وہ ملاحت مل گئی، جس کو دیکھنے کو ان کی آنکھیں ترستی تھیں‘‘۔ ’’لائبریرین کا عہدہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں بہت ہی منفرد ہوا کرتا ہے؛ کام سب سے زیادہ، تنخواہ سب سے کم۔ تعلیمی استطاعت اساتذہ کے مساوی، بسا اوقات ان سے بھی زیادہ؛ لیکن عزت و احترام میں ان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک عام سی بات تھی۔ فرخندہ نے اس ماحول اور رویے کا مقابلہ کرنے اور اس میں بہتری کی عملی جدوجہد کا بیڑا اٹھایا۔ وہ ایک حساس طبیعت کی مالک تھیں، اپنے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہونے والے نارَوا سلوک اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کھڑی ہوئیں تو منزل کو پا کر ہی دم لیا‘‘۔

زیرِ نظر خاکوں میں سوانحی معلومات بھی ہیں اور خاکہ نگار کا تخلیقی لمس بھی۔ ان کے مطالعے سے قاری کو صرف شخصیت کے ماہ و سال سے آشنائی ہوتی ہے، بلکہ بعض مواقع پر خاکہ نگار کے لب و لہجے اور تاثرات کی مدد سے موضوع کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہونے لگتا ہے۔

اس کتاب کے مطالعے سے قبل یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمارے خاکہ نگار کو، اپنے قاری کو متاثر کرنے کی جلدی نہیں۔ وہ جملے بازی سے قاری کے لیے کوئی سامانِ ضیافت پیش نہیں کرنا چاہتے؛ انھیں شہرت کی احتیاج بھی نہیں، وہ تو اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے چند کرداروں کے ذریعے اُس تہذیبی روشنی کو زندہ رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں، جو بتدر یج تاریکی کی نذر ہوتی جارہی ہے اور جس کے خاتمے کے بعد اگر انسان زندہ رہا بھی تو وہ شرفِ انسانیت سے ضرور محروم ہو جائے گا۔ انھوں نے بڑی عام فہم اور آسان زبان میں اپنے ہر موضوع کے بارے میں وہ کچھ لکھ دیا ہے، جو حقیقت ہے۔ ڈاکٹر صمدانی نے روزمرہ باتوں اور واقعات کو علمی و ادبی رنگ دینے اور محض اسلوب کا جادُو جگانے کے بجاے حقیقت پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ یہ ان کی تحریر کی خصوصیت بھی ہے اور ہمارے بعض ادیبوں کے لیے باعثِ تقلید بھی۔

قارئین کرام! زیرِ نظر خاکے ڈاکٹر صمدانی کے روشن ادبی مستقبل کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ راقم کو یقین ہے کہ اس میدان میں وہ کئی ایک فتوحات حاصل کریں گے اوراگر مستقل مزاجی سے کام لے سکے تو خاکہ نگاری کی تاریخ میں اپنے لیے ایک مقام مختص کرنے میں یقینا کامیاب ہوجائیں گے ۔
ڈاکٹرخالد ندیم
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبۂ اردو، جامعہ سرگودھا
۲۲ فروری ۲۰۱۲

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437701 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More