ایک سال پہلے ان ہی دنوں میں تحر یک انصاف کے چیئرمین
عمران خان لاہور میں اسٹیج سے منسلک لفٹ سے گرگئے تھے‘ جس طرح وہ گرے تھے
کوئی تصور نہیں کر سکتا تھا کہ وہ ایسے صحت یاب ہوں گے جیساکہ اب ہے۔ اﷲ
تعالیٰ نے عمران خان کو نئی زندگی دی ہے بقول ان کے کہ شاید اﷲ مجھ سے کوئی
بڑا کام لینا چا ہتا ہے ۔ عمران خان اور ان کی پارٹی تحر یک انصاف کی سیاست
اور سوچ سے پہلے بھی بہت سے لوگ اختلاف کر تے تھے اور آج بھی ان کے ناقدین
مو جود ہے لیکن ایک بات جو ان کے مخا لفین بھی تسلیم کر تے ہیں وہ ان کے
سیاست اور ملک میں تبدیلی کا نعرہ تھا جس کی وجہ سے ملک کی سیاست بہت حد تک
تبد یل ہو چکی ہے جبکہ سیاست کے ساتھ ساتھ دوسرے اداروں میں بھی کافی حد
تبدیلی نظر آنا شروع ہو ئی ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پا کستان کے موجودہ حالات انتہائی خراب ہے ۔ ایک
طرف دہشت گردی اور لاء اینڈآرڈر کا مسئلہ حکومت کو درپیش ہے تو دوسری طرف
بجلی اور گیس بحران کی وجہ سے اقتصادی سر گر میاں ماند پڑچکی ہے ۔ فوج اور
حکومت کے درمیان تعلقات بھی بہت حد تک خراب ہے ۔ ایک سال پہلے ہونے والے
جنرل انتخابات میں عوام کے جوتوقعات تھے کہ ملک میں حالات ٹھیک ہو جا ئیں
گے روز گار کے مو اقعے پید ا ہو جا ئیں گے ۔ مسلم لیگ ن کے انتخابی نعروں
میں بجلی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوے بھی دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں بلکہ اب
تو وزیر بجلی خواجہ آصف نے چند روز قبل قوم کو بتا دیا کہ آنے والے چار
پانچ مہینوں میں لوڈ شیڈ نگ مز ید بڑھے گی ۔ملک بھر میں گرمی شروع ہو چکی
ہے اور اس کے ساتھ ہی احتجاج کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے ۔ خیبر پختونخوا
سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بجلی لوڈ شیڈنگ کے خلاف سڑ کوں پر مظا ہروں کا
آغاز ہو چکا ہے ‘ حکومت کو ان ہی مسائل میں ایک بڑا مسئلہ تحر یک انصاف کا
بھی ہے ۔ خیال یہ تھا کہ دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح خیبر پختونخوا میں
حکومت ملنے پر عمران خان بھی خاموش ہو جا ئیں گے۔لیکن پہلے سیاسی جماعتوں
کے برعکس عمران خان صوبے میں اقتدار کے مزے لینے کی بجائے جنرل الیکشن میں
د ھاندلی کے خلاف میدان میں نکلنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ دنیا بھر میں
جمہوریت کوہی بہتر ین نظام حکومت کہا جاتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے
کہ اس میں عوام کے ووٹوں سے عوامی نمائندے منتخب ہو کر اسمبلی میں بیٹھ
جاتے ہیں ۔بد قسمتی سے پاکستان میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بجائے
نمائندے سلیکٹ ہوتے ہیں ۔ ایک سال پہلے ہونے والے انتخابات میں جہاں پر
پہلی دفعہ عوام بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لئے گھروں سے نکلی وہاں پر
ریکارڈ دھاندلی کی وجہ سے عوام میں مایوسی بھی پیدا ہو ئی کہ آخرکب
‘انتخابات میں سلیکشن کا سلسلہ ختم ہو گا۔اس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ
انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہو ئی ہے ۔ الیکشن کے دوران ہم جیسوں
کا خیال تھا کہ د ھا ندلی صرف پولنگ ا سٹیشن میں ہوگی یا ہوئی ہے لیکن اب
معلوم ہوا ہے کہ ماضی کی طرح اس دفعہ بھی الیکشن نہیں سلیکشن ہوا ہے ۔ اسی
سلیکشن کے خلاف 11مئی کو اسلام آباد میں عمران خان احتجاج کا آغاز کر رہے
ہیں ۔ تحریک انصاف نے انتخابات کے بعد کہا تھا کہ ہم نے الیکشن کو قبول کیا
ہے لیکن دھاندلی کو قبول نہیں کیا ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ عمران خان نے
قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں یہ کہا تھا کہ حکومت عوام کے اعتماد
کے لئے صرف چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشان چیک کر ائیں جس پر حکومت کی
جانب سے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ ہم چار نہیں چالیس
حلقوں میں نشان چیک کرانے کے لئے تیار ہے لیکن تاحال اس میں و فاقی حکومت
خود رکاوٹ ہے ۔ اگر ملک میں حقیقی جمہوریت کے فروغ چاہیے تو نہ صرف چار
حلقوں میں چیکنگ ہو نی چاہیے بلکہ جہاں پر بھی شکایت ہو وہاں پر انگوٹھوں
کے نشان چیک ہو نے چا ہیے ۔ ایک طرف تحر یک انصاف نے گیارہ مئی کو احتجاج
کا اعلان کر دیا ہے تودوسری طرف انتخابات میں دھاندلی اور مسلم لیگ نواز کو
سپورٹ کرنے کی وجہ سے عمران خان نے جنگ اور جیوگروپ کا با ئیکاٹ کا اعلان
بھی کر دیا ہے ۔ الزام یہ لگا یا گیا ہے کہ جیو ٹی وی نے نواز شریف کی تقر
یر جلد نشر کی اور چھ گھنٹے بعد جیو ٹی وی نے مسلم لیگ کو انتخابات میں
کامیاب قر ار دے دیا تھا جبکہ سینئر صحا فی نجم سیٹھی کو چیئر مین کرکٹ بھی
اس لیے لگا یا اور حکومت نے جیوکو سپورٹ کر نے کے لئے میچ د کھانے کے رائٹس
بھی اس گروپ کو دے دیے تھے۔ ان الزامات میں کتنی حقیقت ہے اب تک تحر یک
انصاف کی جانب سے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کیے گئے ہیں ۔ چیئر مین تحر یک
انصاف کو اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کر نی چاہیے ۔ ہر ادارے کی اپنی پالیسی
ہوا کر تی ہے کہ انہوں نے کس پارٹی کو کتنا وقت دینا ہے ۔ کونسی خبر کب اور
کیسے شائع یا نشر کر نی ہے ‘یہ میڈ یا اداروں کی صوا بدید اور پا لیسی پر
منحصر ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی بھی میڈ یا ہاؤ س
کا با ئیکاٹ کر یں ۔ بہر کیف پر امن احتجاج کر نا سیاسی جماعتوں کا حق ہے
کیوں کہ یہی جمہوریت ہے اور جمہوریت میں اظہار رائے کا حق ہر کسی کو حاصل
ہے جو لوگ اس حق کو تسلیم نہیں کر تے ان کو اپنی پالیسی تبد یل کر نی چاہیے
۔پا کستان میں سیاست تبد یل ہو چکی ہے عمران خان نے تبدیلی کانعرہ بلند کیا
تھا اور بہت حد تک وہ اس پر عمل پیرا بھی ہے ‘انہوں نے پہلے کو لیشن جماعت
قومی وطن پارٹی کو فارغ کیا تھا اور اب کرپشن کے الزامات پر اپنے ہی دیر
ینہ سا تھیوں کو وزارت سے فارغ کر دیا ہے ۔ و فاقی حکومت کو بھی چاہیے کہ
جہاں جہاں پر د ھاندلی کے الزامات ہے وہاں پر رکاوٹ بننے کی بجائے غیر
جانبداری کا مظاہرہ کریں‘اسی میں ملک کی جمہوریت کی بہتری ہے۔ |